دل زار! اب یہاں کوئی نہیں آئے گا!


زینہ زینہ اتری شب انتظار گزر گئی ہے۔ داغ داغ اجالا اور شب گزیدہ سحر ہے۔ دبی دبی سی تھکن اور سبک سبک سی تمنا ہے۔ دیار حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے حسینہ نور جوان لہو کو پکارتی ہے کہ آ کے اہل درد کا دستور بدل ڈالیں۔ نشاط وصل حلال کریں اور عذاب ہجر حرام کریں۔ فراق ظلمت و نور عام کریں اور وصال منزل و گام کی پرچار کریں۔ کوئے ملامت سے صدا آتی ہے : اے نگار صبا! منزل وصل ابھی آئی نہیں۔ سفینہ غم دل، موج ساحل سے ابھی نکلی نہیں۔ اے میرے ہم دم! مجھے یقین ہے کہ تیرے دل کی تھکن، تیری آنکھوں کی اداسی اور تیرے سینے کی جلن صرف میرے پیار سے مٹ جائے گی۔ مگر ابھی ہجراں یار کا موسم ہے، یعنی غم روزگار کا موسم ہے۔

میرا دل ناشاد ہے اور خاموش ہوں، مگر مایوس نہیں کیوں کہ صرف میں غمگین نہیں، ساری دنیا غمگین ہے۔ غم ہم سب کی جاگیر ہے۔ غم جاں ہو یا غم جاناں، دونوں خطرناک ہیں۔ غم جاں مہلک اور غم جاناں دل فریب ہے۔ غم سے نجات حاصل کرنے کے لیے غم کو اپنا بنا لینا ہوتا ہے، کہ ہم اور غم ایک ہو کر ہمارے درمیان کوئی حد فاصل نہ رہے۔ در حقیقت، ایک باشعور انسان کے لیے غم کے جانے کا نہایت غم ہوتا ہے۔ اسی لیے غم پالنا زمانے کا دستور بن گیا ہے۔

اگر زمانے میں محبت کے سوا اور دکھ نہ ہوتے، تو سدا محبوب کا تصور ہوتا اور محبوب سے ملاقاتیں ہوتیں۔ وہ محبوب جس کی ایک دید میں لاکھوں مسرتیں پنہاں ہیں، جس کی تمنا میں ان گنت جنتیں پوشیدہ ہیں، وہ شباب جس کے تخیل پہ بجلیاں برسیں، وہ گداز جسم جس پہ قبا سج کے ناز کرے، اور وہ آنکھیں جس کے بناؤ پہ خالق اترائے۔ وہ گداز جسم اور یہ پیاسی روحیں جس کے ملن سے فطرت حسد کریں۔ وہ حسن لازوال اور یہ فانی طلب جس کے ایک ہونے میں زمانے کے بالوں کو چاندی لگے۔

مگر میری جان! چند روز، فقط چند روز اور کچھ دیر ستم سہ لیں، تڑپ لیں اور رو لیں کہ جسم پر قید ہے، جذبات پہ زنجیریں ہیں، فکر محبوس ہے اور گفتار پر تعزیریں ہیں۔ ذرا صبر کر لیں کہ فریاد کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔ پھر ہمارے لب آزاد ہوں گے۔ جسم و جاں کی موت سے پہلے جتنا سچ زندہ رہ گیا ہے، وہ سب بول پڑیں گے۔ پھر ہم تم ایک ہوں گے۔

میری محبوب! مجھ سے پہلی سی محبت نہ مانگ۔ میں دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے اب کہیں شب غم گزار کے جا رہا ہوں۔ غم دنیا نے مجھے تیری یاد سے بے گانہ کر دیا ہے۔ میں سمجھا تھا کہ تم ہو تو حیات درخشاں ہو گی، تیرے غم کے سوا دہر کا جھگڑا نہیں ہو گا، تیری صورت سے عالم میں بہاروں کو ثبات ہوگی، تیرے ملنے سے تقدیر نگوں ہو جائے گی۔ لیکن یوں کچھ نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا کہ یوں ہو جائے۔ حالاں کہ میرا خیال تھا کہ تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے۔ میں نے تیری آنکھوں کے سوا کچھ دیکھا نہیں تھا۔

میری محبوب! میری نظر اب بھی تیری طرف لوٹ جاتی ہے۔ تیرا حسن اب بھی دل کش ہے، مگر کیا کیجیے؟ جب سے میں نے ریشم و اطلس و کمخواب میں بنوائے گئے ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم کو دیکھا ہے، جا بہ جا کوچہ و بازار میں جسم کو بکتے دیکھا ہے، خاک میں لتھڑے اور خون میں نہلائے ہوئے اجسام کو دیکھا ہے، تب سے غم روزگار تجھ سے بھی زیادہ دل فریب نظر آنے لگا ہے۔ مگر پھر بھی اے میرے معصوم قاتل! میری دعائیں تمھیں پیار کرتی ہیں کہ خدا وہ وقت نہ لائے کہ تو سوگوار ہو اور سکون کی نیند تم پر حرام ہو۔

خدا وہ وقت نہ لائے کہ تیری مسرت پیہم تمام ہو جائے اور تیری حیات تلخ جام ہو جائے۔ خدا وہ وقت نہ لائے کہ تیرا شباب فقط خواب ہو کر رہ جائے اور طویل راتوں میں بے قرار ہو کر تیری نگاہ کسی غم گسار کو ترسے۔ اور خدا وہ وقت نہ لائے کہ تجھے وہ دل یاد آئے جو اب بھی تیرے لیے بے قرار ہے، وہ آنکھ جس کو اب بھی تیرا انتظار ہے۔ میں تیرے حسن سے غافل نہیں۔ میں نے تمھیں بھلایا نہیں۔ میں تمھیں کیسے بھلا سکتا ہوں؟ اب بھی تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں تو کسی نہ کسی بہانے تمھیں یاد کرنے لگتا ہوں۔

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس پیشانی، اس رخسار اور ان ہونٹوں کا جن کے تصور میں ہم نے پوری زندگی لٹا دی۔ جس کی یادوں نے اس دل کو پری خانہ بنایا۔ جس کی الفت میں ہم نے ساری دنیا کو بھلا دیا۔ اور جس کی آنکھوں کی ہم نے بے سود عبادت کی۔ کیا راز الفت کو چھپا یا جا سکتا ہے؟ کیا اس محبوب کو بھلا یا جا سکتا ہے جس کے اتنے احسان ہوں کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں۔ مگر کیا کیجیے۔

تم سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے

میری جان! وہ وقت بہت دور نہیں جب زیست کی ساری راہیں درد سے رک جائیں گی، اندوہ نہانی حد سے گزر جائے گا، ترسی ہوئی ناکام نگاہیں تھک جائیں گی، مجھ سے میری بے کار جوانی چھن جائے گی اور مجھ سے میرے آنسو چھن جائیں گے۔ میری الفت تمھیں بہت یاد آئے گی۔ تم اپنے معصوم دل کو ناشاد کر کے میری گور پہ اشک بہانے اور نوخیز بہاروں کے حسین پھول چھڑانے آئے گی۔ میری وفاؤں پہ ہنسو گی اور واماندہ الفت کی تربت کو ٹکرا کے واپس چلو گی۔

میری جاں! شب تنہائی ہے۔ رات ڈھل چکی ہے۔ تاروں کا غبار بکھرنے لگا ہے۔ ایوانوں میں خوابیدہ چراغ لڑکھڑانے لگے ہیں۔ اجنبی خاک نے قدموں کے سراغ دھندلا دیے ہیں۔ میں شمعیں گل کر کے مے و مینا و ایاغ کی طرف بڑھنے لگتا ہوں کہ دل زار بے دھڑک چھلک اٹھتا ہے :

پھر کوئی آیا دل زار! نہیں کوئی نہیں
راہرو ہو گا، کہیں اور چلا جائے گا
میں مایوس ہو کر اپنے بے خواب کواڑوں کو سدا کے لیے اس نیت سے مقفل کر لیتا ہوں کہ
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا!
(فیض احمد فیض کے 111 واں یوم پیدائش کی مناسبت سے لکھی گئی تحریر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments