جناب حسین حقانی سے ٹاکرا


حسین حقانی صاحب امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں اور اب ایک امریکی شہری ہیں۔ انھوں نے ویلنٹائین اور بسنت جیسے تہواروں پر تحفظات اور خدشات رکھنے والوں پر طنز کرتے ہوئے ٹویٹر پہ ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ”ویلنٹائین ڈے اور بسنت ہندوؤں اور گوروں کے تہوار ہیں اور یہ کرکٹ تو محمد بن قاسم نے شروع کی تھی نا؟“

ہم نے انھیں ریپلائی کرتے ہوئے کہنے کی جسارت کی کہ ”اعتراض کسی کھیل پہ نہیں بلکہ ایک ثقافت اور اس کے گندے مظاہر پہ ہوتا ہے“

جواب میں انھوں نے فرمایا کہ ”گندے مظاہر کو ضرور روکا جانا چاہیے مگر “ مغرب سے آیا ہے ”کی بنیاد پر نہیں، دلیل کی بنیاد پر “

ہم نے جو اباً گزارش کی کہ

”درست فرمایا، مگر جب گندے انڈوں سے گندے بچے پیدا ہوتے چلے آرہے ہوں تو ان گندے انڈوں کو گندے ثابت کرنے کے لئے کون سی دلیل کی ضرورت ہو گی؟

اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

یہاں ہم مزید اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہنا چاہیں گے کہ بلاشبہ کسی بھی چیز کی مخالفت صرف اس وجہ سے نہیں ہونی چاہیے کہ یہ مغرب سے آیا ہے بلکہ تمام عوامل کا جائزہ لیتے ہوئے کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔

ویلنٹائین، بسنت اور ہولی و دیوالی جیسے تہوار محض کھیل کود اور کوئی عام سرگرمی نہیں بلکہ باقاعدہ ایک ثقافت اور تہذیب کے مظاہر ہیں اور اسی تناظر میں اسے دیکھنے، پرکھنے اور قبول یا رد کرنا چاہیے۔

جب ہم ثقافت کی بات کرتے ہیں تو کسی اور ثقافت کے مقابلے میں ہم اسلامی ثقافت کو مدنظر رکھتے ہیں۔ اور ثقافتوں کا جائزہ، تجزیہ اور مطالعہ بتاتا ہے کہ اسلامی ثقافت اپنے من میں ایک خاص قسم کا تنوع پاتا ہے یعنی اس نے دیگر ثقافتوں کو متاثر بھی کیا ہے اور چیلنج بھی کیا ہے مگر دیگر ثقافتوں سے خوبیوں کو قبول بھی کیا ہے مگر احساس کمتری کے ساتھ نہیں بلکہ خودداری اور خوداعتمادی کے ساتھ۔

اسے ہم ثقافتوں کا لین دین اور تعاون بھی کہہ سکتے ہیں۔

”ثقافتی تعاون اور لین دین کا مقصد موجودہ ثقافت کو مستحکم اور کامل بنانا ہوتا ہے۔ ثقافتی لین دین میں جو قوم کسی دوسری قوم سے کچھ حاصل کرتی اور لیتی ہے، وہ دوسری قوم کی ثقافت کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتی ہے، اس کی خوبیوں کی نشان دہی کرتی ہے اور پھر انہی خوبیوں کو اپنانے کی کوشش کرتی ہے مثال کے طور پر علم و دانش وغیرہ۔“

فی زمانہ تو اسلامی تہذیب اور ثقافت کو تہذیبی اور ثقافتی یلغار کا سامنا ہے یعنی مغربی تہذیب کے علم بردار اور پرچارک پوری دنیا اور خاص کر اسلامی دنیا پر اپنا سیاسی، معاشی، فوجی اور تہذیبی بالادستی اور غلبہ چاہتے ہیں اور جو سخت جان تہذیب اور دین ان کے سامنے لا کھڑا ہے وہ ہے اسلامی تہذیب۔

”ثقافتی یلغار یہ ہے کہ کوئی گروہ یا سسٹم اپنے سیاسی مقاصد کے لئے کسی قوم کو اسیر بنا لے، اس کی ثقافتی بنیادوں کو نشانہ بنائے یعنی ثقافتی تعاون میں اختیار خود آپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے جب کہ ثقافتی یلغار میں اختیار دشمن کے ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ سسٹم اس قوم میں کچھ نئی چیزیں اور افکار متعارف کراتا ہے۔ پھر انہی افکار و نظریات اور طرز عمل کو مستحکم بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ ثقافتی یلغار میں ایک ثقافت کو نشانہ بنا کر مٹا دیا جاتا ہے۔

”دنیا کی تمام بیدار قومیں اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی قوم نے اپنی ثقافت کو بیگانہ ثقافتوں کی یلغار کا نشانہ بننے اور تباہ و برباد ہونے دیا تو نابودی اس قوم کا مقدر بن جائے گی۔ غلبہ اسی قوم کو حاصل ہوا جس کی ثقافت غالب رہی ہے۔ تہذیب و ثقافت کا غلبہ بہت ممکن ہے کہ سیاسی، اقتصادی، اور فوجی غلبے کی مانند ہمہ گیر برتری کا پیش خیمہ ہو۔ ثقافتی تسلط، اقتصادی تسلط اور سیاسی تسلط سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ کیوں؟

اس لئے کہ اگر ایک قوم نے دوسری قوم پر ثقافتی اور تہذیبی غلبہ حاصل کر لیا تو قومی تشخص پر سوالیہ نشان لگ جانے کے بعد اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اگر کسی قوم کو اس کی تاریخ، اس کے ماضی، اس کی تہذیب و ثقافت، اس کے تشخص، اس کے علمی، مذہبی، قومی، سیاسی اور ثقافتی افتخارات سے جدا کر دیا جائے، ان افتخارات کو ذہنوں سے محو کر دیا جائے، اس کی زبان کو زوال کی جانب دھکیل دیا جائے، اس کا رسم الخط ختم کر دیا جائے تو وہ قوم اغیار کی مرضی کے مطابق ڈھل جانے کے لئے تیار ہو جاتی ہے“ معاملہ اتنا سطحی، عارضی، وقتی اور سادہ نہیں ہے اور نہ قابل اعتراض کوئی کھیل اور نہ کسی کا اپنا کوئی مذہبی یا علاقائی تہوار بلکہ ایشو ہے ثقافتی اور تہذیبی یلغار اور بالادستی کا جو اس وقت مسلم امہ کو درپیش ہے۔

ایک جانب پوری منصوبہ بندی کے ساتھ اسلامی تہذیب، تاریخ اور مسلم ہیروز کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے اور مشکوک ٹھیرایا جا رہا ہے تو دوسری جانب اسلامی شعار، اقدار، روایات، آداب اور تعلیمات کے حوالے سے موجود حساسیت کو کمزور اور بالآخر ختم کرایا جا رہا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب کسی قوم نے اپنی ثقافتی و تہذیبی خوبیوں پر کمپرومائز کر کے کسی دوسری تہذیب و ثقافت کی خوش نما خوبیوں کی آڑ میں ان کی کمزوریوں اور برائیوں کو در آنے کا موقع دیا ہے تو اس نے نہ صرف اپنے تشخص کو پامال کرایا ہے بلکہ اپنے ورثے، اثاثے اور سرمائے کو بھی داؤ پہ لگا دیا ہے۔

اس لئے خود کشی کی راستے پہ چلنے سے بہتر ہے کہ ”قناعت“ کی زندگی گزاری جائے یعنی اپنی ہی تہذیب اور ثقافت کو زندہ رکھا جائے اور اپنی ہی روایات اور اقدار کے مطابق زندگی بسر کی جائے اور دوسروں سے کچھ لیتے وقت حد درجہ احتیاط کی جائے اور نزاکتوں کا ادراک اور لحاظ رکھتے ہوئے اپنی حساسیت کو ہر لحاظ سے برقرار رکھا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments