نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کے وکیل کے حتمی دلائل، ’مقتولہ کے بھائی کو شامل تفتیش کیوں نہیں کیا گیا، ہو سکتا ہے یہ غیرت کا معاملہ ہو‘

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


نور مقدم
نور مقدم قتل کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل سکندر ذوالقرنین نے بدھ کے روز حتمی دلائل دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ پولیس نے اس مقدمے میں مقتولہ کے اکلوتے بھائی کو شامل تفتیش کیوں نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے یہ غیرت کا معاملہ ہو۔

وکیل سکندر ذوالقرنین کا کہنا تھا کہ ملزم ظاہر جعفر نے 342 کے تحت دیے گئے بیان میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ وہ نور مقدم کے ساتھ رہ رہے تھے۔ وکیل سکندر کا کہنا تھا کہ ’ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ملزم لڑکی کے ساتھ باہم رضامندی سے رہ رہا تھا اور یہ بھی ممکن ہے کہ وقوعہ کے روز نور مقدم کے گھر والے آئے ہوں اور اچانک مشتعل ہو گئے ہوں۔‘

انھوں نے کہا کہ پولیس نے ملزم ظاہر جعفر کی قمیض کو پیش کیا جس پر خون لگا ہوا تھا۔ سکندر ذوالقرنین نے کہا کہ اگر ان کے مؤکل نے مقتولہ کا گلا کاٹا ہوتا تو ملزم کے کپڑے خون سے لت پت ہوتے اور پورے کمرے میں خون پھیلا ہوا ہوتا لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔

سکندر ذوالقرنین نے اسی بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وقوعہ کے روز چونکہ ملزم ظاہر جعفر کے گھر پر ڈرگ پارٹی چل رہی تھی اور ان کے مؤکل کو جب ہوش آیا تو اس وقت کوئی نور مقدم کو قتل کر چکا تھا۔

انھوں نے کہا کہ تفتیش کے دوران ابھی تک ایسے کوئی بلاواسطہ شواہد نہیں ملے جس سے یہ ثابت ہوتا کہ ظاہر جعفر نے نور مقدم کو قتل کیا۔

انھوں نے کہا کہ مقتولہ کے بھائی کو شامل تفتیش نہ کرنا بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔

ظاہر جعفر

ظاہر جعفر کے وکیل نے اپنے دلائل میں استغاثہ کے ایک گواہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب وہ جائے وقوعہ پر پہنچے تو گھر کی اوپر والی منزل پر کچھ لوگ موجود تھے لیکن انھوں نے ان افراد کی شناخت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔

انھوں نے کہا کہ استغاثہ کے بیان میں کہا گیا کہ مقتولہ نور مقدم کی لاش پڑی تھی اور چار پانچ لوگوں نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو پکڑا ہوا تھا۔ سکندر ذوالقرنین نے سوال اٹھایا کہ باقی لوگوں کو کیوں چھوڑا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نور مقدم کسی کی انا کی تسکین کے بھینٹ چڑھ گئی ہو۔‘

سکندر ذوالقرنین، جو کہ سرکار کی طرف سے ملزم کے وکیل ہیں، نے اپنے دلائل میں اس مقدمے کے مدعی اور مقتولہ کے والد شوکت مقدم کے بیان پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ انھوں نے پولیس کو بیان دیا کہ وہ جب 19 جولائی کو گھر آئے تو نور مقدم گھر پر نہیں تھی جبکہ پولیس نے ظاہر جعفر کے گھر کے باہر سے جو سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی ہیں اس کے مطابق نور مقدم 18 جولائی کو ظاہر جفر کے گھر پر آئیں تھی۔

انھوں نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک دن تک بچہ گھر نہ لوٹے اور والدین پریشان نہ ہوں اور وہ پولیس کو اس بارے میں مطلع نہ کریں۔

یہ بھی پڑھیے

نور مقدم: ’خواتین کو بغیر سزا کے ڈر کے قتل کیا جاتا رہا ہے اور کیا جا رہا ہے‘

ظاہر جعفر کو سزائے موت سنائی جائے: نور مقدم کے والد کی عدالت سے استدعا

نور مقدم قتل کیس: ’مقدمہ منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ٹھوس شواہد موجود ہیں‘

سکندر ذوالقرنین کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں شریک ملزمان پر ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کرنے کی دفعات لگائی گئی ہیں۔ انھوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ ایسی دفعات مدعی مقدمہ پر بھی لگائی جانی چاہیے تھیں۔

انھوں نے سی سی ٹی وی فوٹیج کے بارے میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس فوٹیج میں ان کا مؤکل مقتولہ کو پکڑ کر گھر کے اندر لے کر جا رہا ہے تو اس سے یہ نتیجہ بھی تو اخد کیا جا سکتا ہے کہ وہ نور مقدم کو کسی سے بچانے کے لیے انھیں اپنے گھر لے کر جا رہا ہو کیونکہ جس وقت ظاہر جعفر نور مقدم کو پکڑ کر گھر کے اندر لے کر جارہے تھے تو اس وقت ان کے ہاتھ میں کوئی اسلحہ نہیں تھا۔

انھوں نے اس واقعے سے متعلق درج ایف آئی آر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے کے مدعی نے پولیس کو بیان دیا کہ انھوں نے اپنی بیٹی کی لاش کو دیکھا جس کا سر دھڑ سے جدا تھا لیکن اس میں انھوں نے خون کا ذکر نہیں کیا جو کہ سر کا دھڑ سے الگ ہونے کی وجہ سے جائے وقوعہ پر پڑا ہونا چاہیے تھا۔

سکندر ذوالقرنین نے اپنے دلائل میں اس مقدمے کی تفتیش کرنے والوں پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور فرانزک کی ٹیم نے جائے حادثہ سے سب کچھ حاصل کیا لیکن ان کو ڈی وی آر وہاں سے نہیں ملا۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ تفتیشی اہلکاروں نے صرف وہاں سے اپنی مطلب کی چیزیں اکٹھی کی تھیں۔

ظاہر جعفر کے وکیل نے مقتولہ کے پوسٹ مارٹم پر بھی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ وقوعہ کے روز پولیس اہلکار لاش کو پولی کلینک کی ایمرجنسی میں لے گئے جبکہ پولیس اہلکاروں کو معلوم تھا کہ نور مقدم مر چکی ہیں اور لاش کو پہلے سرد خانے لے کر جایا جاتا ہے۔

انھوں نے دلائل دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ پولیس 20 اور 21 جولائی کی درمیانی شب کیا کرتی رہیں جو پوسٹ مارٹم 21 جولائی کی صبح کو کروایا گیا۔ انھوں نے کہا کہ تاخیر سے پوسٹ مارٹم کروانے کی وجہ یہی نظر آتی کہ پولیس اس مقدمے میں کسی کو پھنسانا چاہتی تھی۔

ظاہر جعفر کے وکیل نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ مقتولہ کا پوسٹ مارٹم بھی ایک سے زائد بار مختلف لوگوں نے کیا اور یہ کہا گیا کہ وہ چار ماہرین نے کیا لیکن اتنا وقت تو پوسٹ مارٹم میں نہیں لگانا چاہیے تھا۔

اپنے دلائل کے دوران سکندر ذوالقرنین نے عدالت میں موجود میڈیا نمائندگان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاشرے میں انتشار پھیلا رہے ہیں اور بغیر کسی وجہ کے کسی پر بھی تنقید کر دیتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اس مقدمے سے میڈیا کھیل رہا ہے جس پر اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج عطا ربانی نے سکندر ذوالقرنین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کو چھوڑیں اور اپنے دلائل پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔

اس سے قبل ظاہر جعفر کے تین گھریلو ملازمین کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے مؤکلین کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں۔ انھوں نے کہا کہ تفتیش میں بھی ان کے مؤکلوں کے اس مقدمے میں ملوث ہونے کے ثبوت نہیں ملے لہذا انھیں اس مقدمے سے بری کیا جائے۔

عدالت نے اس مقدمے کی سماعت 21 فروری تک ملتوی کر دی ہے۔ تھراپی ورکس کے وکیل اکرم قریشی اس روز اپنے حتمی دلائل دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments