مشرق یا مغرب، بہتر کون؟ مگر رکیے، بہتر کس حوالے سے؟ نام میں یا کام میں؟
ہم میں سے لوگوں کی اکثریت عام زندگی میں اس طرح کے مکالمے یا بحث سے دوچار ہوتی ہو گی مگر عقل دنگ رہ جانے ولی بات یہ ہے کہ ہماری برادری کے لوگ، ہمارے دین کے لوگ یا سچ پوچھیے تو ہم لوگ ہمیشہ اس مسئلے کی تاک میں رہتے ہیں جس کا نتیجہ یا حل ہم تو کیا ہمارے باپ دادا بھی نہیں نکال سکے لیکن ایک ایسی بحث میں ڈال گئے جس کا شکار ہمارے جیسے لوگ مرتے دم تک رہیں گے۔ ہمارے ہاں مغرب کی ترقی کو ان کے منصفانہ اصولوں یا ان کے مقاصد کو ”بے راہروی، فحاشی یا بدکرداری کا نام دے دیا جاتا ہے لیکن کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہونے والے گناہ مثلاً جھوٹ، ملاوٹ، رشوت، حسد، غیبت، کام چوری، بد نیتی، نمود و نمائش یا منافقت کو کبھی کسی لکھاری یا دانشور نے بے حیائی اور بدکرداری کیوں نہیں کہا؟ منافق تو مشرک سے بھی کہیں زیادہ سزا کا حق دار ہے جو اپنے دین کی بتائی ہوئی تعلیمات پر سمجھوتہ کر لے۔
اگر مان بھی لیں کہ یہ لوگ ”راہ راست“ پر نہیں پھر بھی بد قسمتی دیکھئے کہ ہماری غلام ابن غلام سوچ آج بھی ان کی محتاج ہے کیونکہ اب بھی اپنے بچوں کی تعلیم، اچھا رہن سہن اور بہتر مستقبل کے لیے ہم ان کی طرف بھاگتے ہیں۔ ہم ”راہ راست“ پر ہیں اور ہمارے حریف ”بے راہروی“ کا شکار تو ہمارے اور ان کے درمیان زمین و آسمان کے سے یہ فاصلے کیوں ہیں؟ کیا قدرت نے بھی اپنے آئین میں کوئی ”ترمیم“ کرلی؟ کبھی نہ بھولیں کہ وہ صرف مسلمانوں کا ہی نہیں، انسانوں کا رب ہے، خصوصاً ان انسانوں کا جو اپنے اندر اس کے احکامات کو پریکٹس کرتے اور یقینی بنانے کے لئے مسلسل کوششوں میں لگے رہتے ہیں، اس کی مخلوق کو بہتر طور پر جینے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔
عالم اسلام کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اتفاق اور اتحاد کا بھاشن دینے والے آج خود کہاں کھڑے ہیں اور ان کے حریف کہاں؟ وہ تو دو ورلڈ وارز لڑ کر بھی بنیادی نظریے پر متفق اور متحد ہیں۔ خوف آتا ہے کہ ہماری سابقہ اور موجودہ نسلیں تو گزر بسر کر ہی گئیں مگر آنے والی نسلیں اس غلامی کے امتحان کو کیسے پاس کریں گے۔ علمیہ تو یہ ہے کہ آج کی نسل کو اٹریکٹیو اور چارمنگ لگنے والوں کا بھی اپنا کوئی وژن یا وزڈم ہی نہیں یہ لوگ بھی بس عوام کو گمراہ کر کے وقت گزار رہے ہیں مگر خیر ہے کیونکہ ہمارے ہاں مذہب کی دنیا میں غلاموں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے بھی حقوق مہیا کیے جاتے ہیں جن کو یہ بڑی تسلی اور اطمینان سے انسانی حقوق کا نام دے دیتے ہیں۔
آج کے حالات میں ایک اشد ضرورت تعلیم کی ہے کیونکہ تعلیم ہی ایک ایسا زیور ہے جو انسان کو کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔ حکومت کے اولین فرائض میں بھی یہ شامل ہوتا ہے کہ وہ ہمارے ملک کے لوگوں خصوصی نئی نسل کو تعلیم کی روشنی سے نوازے۔ اگر ایک ہی صوبے کی چند پسماندہ تحصیلوں میں ایک ایک معیاری اسکول قائم کیا جائے تو معاملات بہت حد تک بدل سکتے ہیں اور تقریباً اس کی کل لاگت ایک یا ڈیڑھ ارب ہو گی جو کہ کسی موٹر وے منصوبے یا دیگر ترقیاتی منصوبوں سے آدھی ہے۔ کچھ اخلاق پسند لوگ اس فرض کو سر انجام بھی دے رہے ہیں مگر افسوس حکومت بس ہاتھ باندھے کھڑی ہے اور یوں لگتا ہے کہ ہماری ترجیحات میں معیاری تعلیم شامل ہی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم دنیا کی ترجیحات میں شامل نہیں۔
تم غالب آؤ گے اگر تم مومن ہوتو جو جتنا اعمال میں اور احکامات میں مومن ہو گا اور اپنے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کی بھلائی اور فلاح و بہبود کے لیے کام کرے گا وہ اتنا ہی غالب ہو گا سب سے زیادہ ضروری انفرادی طور پر اصلاح کی ہے اگر ہم اپنی ذاتی زندگی میں اپنی اصلاح کر لیں تو اس کے مثبت نتائج ہمیں دوسری جگہوں پہ بھی اثر انداز ہوتے نظر آئیں گے۔ ہمیں اپنے طور طریقے بدل کر اپنی وہ پہچان بنانی ہوگی کہ جو کبھی مسلمان بادشاہوں سلطان محمود سے لے کر ناصر الدین شاہ نے بنائی مثلاً اسلام کی تعلیمات لوگوں تک پہنچانا، سچ بولنا اور سچائی کو سامنے لے کر آنا اور معاشرے میں انصاف قائم کر کے انہوں نے پوری دنیا پر راج کیا۔
ہم بھی اگر بس یہ چند اصول اپنی زندگی میں واپس لے آئیں تو ہم بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں اور اپنی منزل کی طرف پہنچ سکتے ہیں کیونکہ ہماری ہی عادات کو ہمارے حریفوں نے اپنا کر اپنی خوبیوں میں تبدیل کیا ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں اچھے لوگ موجود ہیں جو کہ اچھائی کے لیے کام کر رہے ہیں مگر ان لوگوں کو اپنا فرض سمجھنا ہو گا اور معاشرے کی اصلاح میں اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ ملک اور قومیں تب ہی اوپر جاتی ہیں جب وہ اپنی اصلاح پر خود کام کرتی ہیں۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).