رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ


ملکی سیاست میں رابطوں کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے کہیں فون کی گھنٹی بج رہی ہے تو کہیں سہولت کار پیغام پہنچا رہے ہیں اور کہیں دن کے اجالے میں ملاقات کے ساتھ لنچ رات کو ڈنر کی میز پر سیاست کی مصالحے دار چالوں سے بازی پلٹنے کی ترکیبوں پر غور کیا جا رہا ہے اور ہم کسی رات کے اندھیرے والی ملاقات کا ذکر نہیں کریں گے کہ ہم اس کے چشم دید نہیں اور نہ ہی ایسی ملاقاتوں کو منظر عام پر لانا ملکی مفاد میں ہے ایسے میں حکومت بھی اپنے تہی اپوزیشن کی ہر چال کا بغور جائزہ لے رہی ہے تاکہ وہ کسی چال میں آ کر اپنے اقتدار کی باقی مدت میں اپنی چال خراب نہ کر بیٹھے جو کہ پہلے ہی غیر ملکی قرضوں مہنگائی اور کورونا جیسے مسائل کا سامنا کر رہی ہے اور ایسے میں اپوزیشن کے وار حکومت کے لیے مشکلات کو بڑھا سکتے ہیں گو اپوزیشن کا حال بھی کچھ اچھا نہیں اس میں شامل پارٹیاں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے چکر میں اپنی اہمیت کم کرتی جا رہی ہیں۔

حزب مخالف اسمبلی کے اندر اور باہر حکومت پر مشترکہ وار کرنے میں ناکام نظر آتی ہے اور جب بھی حکومت پر کسی بڑے وار کے لیے صفیں سیدھی کرنے کا وقت آتا ہے تو بندے کم ہو جاتے ہیں وہ پرسرار بندے ہر بار نظر سے ایسے اوجھل ہوتے ہیں کہ ان کا نام بھی کوئی نہیں لیتا بلکہ ان اللہ کے بندوں کو غیر حاضر رہنے کی وجہ بھی کوئی نہیں پوچھ سکتا وہ جتنے بھی ہیں اپنے من کے موجی ہیں اگر وہ غیر حاضر رہنے کی وجہ خود سے بتانے کی کوشش کرتے ہیں تو اپوزیشن کی بھی ہنسی نکل جاتی ہے ایک زمانے میں جیت کے لیے اپنے بندوں کو چھانگا مانگا، مری اور دیگر پر افزا مقام پر رکھا جاتا تھا لیکن اب جدید دور میں ایسا نہیں ہوتا جس نے وقت پر نہیں آنا ہوتا وہ اسکول کے بچوں جیسے بہانے بناتا ہے جیسے ایک رکن نے اہم موقع پر فرمایا مجھے اجلاس کے وقت کا پتہ نہیں تھا اوروں کو تو چھوڑیں سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نے تو کسی ڈر خوف کے بغیر فرمایا کہ مجھے جس وقت اجلاس کا پتہ چلا میرا پہنچنا ممکن نہیں تھا۔

اب اپوزیشن نے لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے بلکہ یوں کہنا بہتر ہو کہ اپوزیشن کے ایک حصے نے اسی ماہ اور ایک نے اگلے ماہ لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کے جواب میں حکومت نے بھی عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اب جیت کس کی ہو گی فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کس کی بات پر دھیان دیتے ہیں اور پہلے سے ہمیشہ کی طرح قرارداد پاکستان پیش کرنے کے روز سلامتی کے اداروں کا بھی مارچ ہوتا ہے۔

اپوزیشن کے دو عدد مارچ کے درمیان تحریک عدم اعتماد بھی چل رہی ہے کھانے چل رہے ہیں پیار کی پینگیں بڑھائی جا رہی ہے سب نے اپنی دکانوں کے دروازے کھول دیے ہیں ہر کو اپنے مال پر نئی قیمت کے اسٹکر لگا رہا ہے اور کچھ جن کو ذرا سا بھی ڈر ہے کہ شاہد ہمیں کوئی نہ پوچھے وہ سیل لگانے کا سوچ رہے ہیں اپوزیشن کو اس بات کا ڈر بھی ہے کہ سیل میں خریدا ہوا مال خراب نہ نکل آئے اور وقت پر ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ شنید یہی ہے اپوزیشن کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو لا نگ مارچ تک لے جایا جائے گا تاکہ حکومت پر پریشر قائم رکھا جا سکے اب تحریک عدم اعتماد کا جائزہ لیں تو اپوزیشن عدم اعتماد لانے کا تو سوچ رہی ہے لیکن قوم کے حال پر اتنی ہی مہربانی کر دیے کہ اس کی کامیابی پر اس سے اگے کا کیا پلان ہے الیکشن کی طرف جائیں گے یا نگران حکومت ہو گی یا کوئی اور سیٹ اپ سامنے لایا جائے گا

دوسری طرف حکومت دباؤ کے باوجود پر سکون ہے اور روزانہ عوام کی آنکھ کھلنے سے قبل مہنگائی کی ایک نئی لہر کو میدان میں لے آتی ہے اس کے باوجود عوام اپوزیشن کے لانگ مارچ کو خوش آمدید نہیں کہہ رہے اس کی وجہ عوام کی بے حسی نہیں ان کو حقوق لے کر دینے والوں کا زیادہ قصور ہے عوام نے جب بھی ان کی آواز پر لبیک کہا سیاسی لیڈر شپ نے عوام کے کندھوں پر بیٹھ کر ان کی پشت پر ہی چھرا گھونپا اور یہ لانگ مارچ عوام کے مسائل پر نہیں اپنے بچاؤ کے لیے لگتے ہیں کیونکہ اگر عوام کا خیال ہوتا تو انتظار کس بات کا آج ہی میدان میں نکل پڑتے یہ تو کئی ماہ سے عوام کی منت سماجت کر رہے ہیں کہ باہر نکلو اور ایک سیاسی رہنما نے تو یہ کہہ کر لانگ مارچ کی ساری کہانی کو قبل از وقت افشا کر دیا کہ ہم تو حکومت کی طعنہ زنی کے باعث لانگ مارچ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ورنہ تو ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا کہ سڑکوں پر خاک چھانتے پھرتے۔

ابھی ابھی یہ تحریر لکھتے ہوئے خبر آئی ہے کہ پیٹرول کی قیمت بڑھا دی گئی ہے اس پر کچھ لیڈر تو رات گے سو گئے ہوں گے اور جو جاگ رہے ہوں گے وہ سوشل میڈیا پر بیان جاری کر کے سو جایں گے اگر یہ قوم کے لیڈر ہوں تو عوام کی آواز بن جاتے یہ تو اپنے اثاثوں کے چوکیدار ہیں اور اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ عوام سو جایں تو ہم ان کے حقوق لوٹ لیں۔ اگر حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو ان کو بھی جلد عوام میں جانا ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ عوام میں جا کر زیادہ خطرناک ہوں گے یہ نہ حکومت اور نہ اپوزیشن سوچ رہی ہے کہ عوام خطرناک ہو گئے تو ان کو معاملات سنبھالنا مشکل ہو جایں گے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب خوش فہمی میں مبتلا ہیں قدرت کا فیصلہ کچھ اور ہی ہو گا اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام حکومت اور اپوزیشن سب کے سب ایک دوسرے سے مایوس ہیں تو پھر یہ لانگ مارچ ہو یا عدم اعتماد اس سے کیا فرق پڑے گا کیا اپوزیشن متفقہ طور پر کوئی فیصلہ کر سکتی ہے جو کہ موجودہ حالات میں ممکن نظر نہیں آ رہا یہ اس انتظار میں ہیں کہ عوام کا سمندر ان کے ساتھ نکل آیا تو ہم اپنے مطالبے بڑھا دیں گے ان کا سارا پروگرام عوام کی شرکت پر منحصر ہے ورنہ یہ اسلام آباد پہنچتے پہنچتے اس سے اگے کا راستہ تلاش کر رہے ہوں گے کہ ہم نے کہاں جانا ہے ویسے اپوزیشن کو ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں لیکن رہنے ہی دیں ہم تو دیکھ رہے ہیں کہ

قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments