کیا آپ کی اینزائٹی نے آپ کو نفسیاتی طور پر مفلوج کر رکھا ہے؟


میرے مریض کرسٹوفر نے اپنی اینزائٹی کی کہانی سناتے ہوئے کہا

ڈاکٹر سہیل۔ میری بیوی کو شاپنگ کا بہت شوق ہے۔ وہ ہر سال سرحد پار کر کے شاپنگ کرنے کینیڈا سے امریکہ جاتی ہے۔ یہ دس سال پہلے کی بات ہے۔ میں بھی اس کے ساتھ شاپنگ کرنے امریکہ گیا ہوا تھا۔ شاپنگ مال میں رش کافی تھا۔ میں نے کچھ کپڑے خریدے اور قطار میں کھڑا ہو گیا۔ کافی دیر انتظار کرنا پڑا۔

اچانک مجھے محسوس ہوا جیسے میرا دل زور زور سے دھڑک رہا ہو
پھر دل ایسے دھڑکا جیسے اچھل کر سینے سے باہر آنا چاہتا ہو
پھر مجھے پسینہ آنا شروع ہوا اور میں چند لمحوں میں سر سے پاؤں تک پسینے میں شرابور ہو گیا
میں نے بیگم سے کہا میری طبیعت ٹھیک نہیں۔ مجھے ہارٹ اٹیک ہو رہا ہے۔
پھر میری ٹانگیں کپکپانے لگیں اور زمین پر لیٹ گیا۔
مجھے یوں لگا جیسے میں بے ہوش ہو جاؤں گا۔
میری بیگم نے ایمبولینس کو کال کیا اور وہ مجھے ہسپتال لے گئے۔

ایمرجنسی کے ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور پیشاب ’خون اور دل کے ٹیسٹ کرنے کے بعد کہا آپ کو ہارٹ اٹیک نہیں ہوا آپ کو پینک اٹیک ہوا ہے۔

اس نے مجھے لورازیپیم کی ایک گولی زبان کے نیچے رکھنے کو دی اور چند منٹوں میں میری طبیعت بہتر ہو گئی۔

میرے مریض کرسٹوفر کی طرح نجانے کتنے مرد اور عورتیں ایسی ہیں جنہیں اینزائٹی اور پینک اٹیک ہوتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں دل کا دورہ پڑنے لگا ہے۔

نفسیاتی مسائل میں اینزائٹی ڈس آرڈر کا شکار ہونے والے لوگوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ بعض محققین کی تحقیق کے مطابق معاشرے میں بیس سے تیس فیصد لوگ۔ یعنی چار میں سے ایک شخص۔ زندگی کے کسی دور میں اینزائٹی ڈس آرڈر کا شکار ہوتے ہیں۔

ان میں بعض
GENERALIZED ANXIETY DISORDER
کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر وقت انجانی بے چینی اور پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔ ان سے پوچھیں آپ کیوں پریشان ہیں تو کہیں گے۔ پتہ نہیں۔ وہ سیمابی کیفیت لیے ہوتے ہیں۔

بعض کرسٹوفر کی طرح پینک ڈس آرڈر
کا شکار ہوتے ہیں اور ہسپتال کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ پہنچ جاتے ہیں

بعض کو سوشل فوبیا ہو جاتا ہے اور وہ گھر سے باہر نکلتے اور محفلوں میں جاتے گھبراتے ہیں۔ میری مریضہ نینسی چھ ماہ گھر سے باہر نہ نکلی کیونکہ اسے مختلف طرح کے خوف گھیرے ہوئے تھے۔ کووڈ وبا نے ایسے لوگوں کے نفسیاتی مسائل کو بڑھاوا دیا ہے۔

اینزائٹی ڈس آرڈر کے بارے میں مختلف ماہرین نفسیات نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔

سگمنڈ فرائڈ کا خیال تھا کہ اینزائٹی کے مریض میں اس کے شعور اور لاشعور میں ایک تضاد پایا جاتا ہے۔ مریض اس تضاد کو جتنا لاشعور میں دباتا ہے وہ اتنا ہی شدت سے ابھرتا ہے اور مریض کو پریشان رکھتا ہے۔

ہیری سٹاک سالیوان کا خیال تھا کہ اینزائٹی میں انسانی رشتوں کا بھی دخل ہے۔ اگر کسی انسان میں خود اعتمادی کی کمی ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ اس کی عزت نہیں کرتے تو وہ اینزائٹی کا شکار ہوجاتا ہے۔

مرے بوون کا موقف تھا کہ جو والدین خود نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں وہ اپنے مسائل اپنے بچوں میں منتقل کرتے ہیں اور وہ بچے جوان ہو کر اینزائٹی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

رولو مے کا کہنا تھا کہ جب انسان کا ضمیر اسے ملامت کرنے لگے اور اسے اپنی زندگی بے معنی محسوس ہونے لگے تو وہ اینزائٹی کا شکار ہو جاتا ہے۔

میرے مریض کرسٹوفر نے جب اپنا نفسیاتی علاج کروانا شروع کیا تو اس کی طبیعت بہتر ہونے لگی۔

کہنے لگا ڈاکٹر سہیل شروع میں مجھے ہفتے میں دو دفعہ پینک اٹیک ہوتے تھے پھر مہینے میں دو دفعہ اور اب سال میں ایک دو دفعہ ایسا ہوتا ہے۔ اب میں نے اینزائٹی اور پینک اٹیک سے نبرد آزما ہونا سیکھ لیا ہے۔ اب مجھے اینزائٹی شروع ہوتی ہے تو

پہلے میں آہستہ آہستہ لمبے لمبے سانس لیتا ہوں
پھر پانی پیتا ہوں
پھر کہیں بیٹھ جاتا ہوں

پھر خود کو سمجھاتا ہوں کہ یہ ہارٹ اٹیک نہیں ہے پینک اٹیک ہے جو بادل کی طرح چند منٹوں میں گزر جائے گا

اگر پھر بھی بہتر محسوس نہ کروں تو اپنے بیگ سے لورازیپام کی گولی نکال کر زبان کے نیچے رکھتا ہوں اور چند منٹوں کے بعد بہتر محسوس کرنے لگتا ہوں۔

ڈاکٹر سہیل! مجھے میری والدہ نے بتایا کہ میری نانی اماں کو بھی پینک اٹیک ہوتے تھے۔ لیکن اس دور میں نہ کوئی ماہر نفسیات ہوتا تھا اور نہ ہی ایسی ادویہ ہوتی تھیں جو ان کی مدد کر سکتیں۔ وہ بیچاری اتنی پریشان ہوتی تھیں کہ پینک اٹیک کے بعد کئی ہفتے خوف سے گھر میں مقید رہتی تھیں۔

مجھے گرین زون فلسفے سے بھی کافی فائدہ ہوا ہے۔ میں آپ کی گرین زون کی کتاب ہر سال پڑھتا ہوں۔ میں نے وہ کتاب اپنی بیٹیوں کو بھی پڑھنے کو دی ہے تا کہ وہ بھی اس سے استفادہ کر سکیں۔ میں چند ماہ آپ کے کلینک میں گروپ تھراپی میں بھی شرکت کر چکا ہوں۔

اب ساری دنیا میں اینزائٹی ڈس آرڈر اور پینک ڈس آرڈر کے بہت سے مریض
۔ سائیکو تھیرپی
۔ ادویہ
۔ تعلیم اور
۔ گرین زون تھیرپی
سے استفادہ کرتے ہیں اور اپنے نفسیاتی مسائل کو سمجھنے اور پھر ان کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اینزائٹی زندگی کا حصہ ہے۔ وہ ہمیں زندگی کے مسائل سے نبرد آزما ہونے میں مدد کرتی ہے لیکن اگر وہ ایک حد سے تجاوز کر جائے تو ہمیں نفسیاتی طور پر مفلوج کرنے لگتی ہے اور پھر ہمیں نفسیاتی مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔ جیسے ہم جسمانی بیماری کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں اسی طرح نفسیاتی مسئلے کے لیے کسی سوشل ورکر ’کسی سائیکولوجسٹ یا کسی ماہر نفسیات سے رجوع کر کے ہم صحتمند زندگی گزار سکتے ہیں۔

آپ حیران ہوں گے کہ ساری دنیا میں نجانے کتنے مرد اور عورتیں ایسے ہیں جو برسوں سے اپنی اینزائٹی کو ساری دنیا سے ہی نہیں اپنے آپ سے بھی چھپائے پھر رہے ہیں۔

نوٹ: ہماری گرین زون ٹیم نے نفسیاتی مسائل کے حوالے سے فیس بک پر
GREEN ZONE COMMUNITY
https://www.facebook.com/groups/3854006397951421

کا پیج بنایا ہے تاکہ ایسے لوگوں کی مفت مدد کی جا سکے۔ اگر آپ بھی کسی نفسیاتی مسئلے کا شکار ہیں تو اس کمیونٹی کا حصہ بن کر اپنی مدد آپ کر سکتے ہیں۔ پچھلے چند ماہ میں اس کمیونٹی میں چودہ سو سے زیادہ لوگ شامل ہو چکے ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail