محسن بیگ اور حکومت: ٹھنڈے پیروں اور گرم سروں کا معاشرہ


کئی سال پہلے یورپ میں کسی ڈاکٹر ہرمن کی ایک کتاب کے بارے میں پڑھا تھا کہ ایک انتہائی اچھی شہرت کے مالک اس ڈاکٹر کے مرنے کے بعد وصیت کے مطابق ان کا سامان کھولا گیا تو اس میں ایک کتاب ملی جس پر لکھا تھا کہ اسے نیلام کر کے حاصل ہونے والی رقم ایک یونیورسٹی میں تحقیق کے کام کے لئے دی جائے۔ اس نیلامی کا اعلان ہوتے ہی بڑے بڑے مالدار لوگ اس میں حصہ لینے پہنچے اور ایک بہت بڑی قیمت کے بدلے یہ کتاب ایک شخص نے حاصل کی وہ گھر پہنچا کتاب کو کھولا تو اس پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے سو صفحوں کی اس کتاب کے ننانوے صفحے خالی تھے ہر صفحے پلٹنے کے ساتھ اسے اپنی رقم کے ڈوبنے کا ملال ہوتا رہا تاہم آخری صفحے پر پہنچ کر اسے اپنی قیمت کا بدل مل گیا۔ اس آخری صفحے پر لکھا تھا کہ ساری زندگی تندرست اور ٹھیک رہنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے پیر گرم اور سر ٹھنڈا رہے۔

ڈاکٹر ہرمن کے اس ایک چھوٹے سے فقرے میں پائی جانے والی زندگی اور اپنے معاشرے میں پائے جانے والے عدم برداشت اور بڑھتے ٹمپریچر کو دیکھیں تو آپ کو سارے مسائل کی جڑ مل جائے گی۔

اس وقت ہمارے ہاں ایک ایسی حکومت قائم ہے جس کے بننے سے پہلے اس کی تقریروں اور مخالفین پر تنقید ایسی تھی کہ ان سے بے تحاشا توقعات بندھ چلی تھیں لیکن حکومت میں آنے کے بعد بننے والے حالات اور ٹیم کی کمزوری کے باعث وہ اپنے پروگرام پر مکمل عمل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے اور یوں انہوں نے اپنی اس ناکامی کو مختلف نام دے کر لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ملک چلانے کے حوالے سے ان کے اندازے غلط ہو گئے تھے۔

تاہم وہ صرف حکومت میں ہی نہیں آئے تھے بلکہ وہ اپنے علاوہ سب کو چور ڈاکو اور غلط کہہ کر معاشرے خصوصاً سیاست اور صحافت میں ایسی تقسیم کر بیٹھے تھے جس سے ان کا ساتھ دینے والے پاک صاف اور ان کے علاوہ تمام غلط اور چور ٹھہرائے گئے افراد سے لے کر اداروں تک کے ساتھ لڑائیاں لڑی گئیں۔

خیر وہ جو کہہ رہے تھے ایسا سو فی صد غلط بھی نہیں تھا کیونکہ مملکت خداداد پاکستان میں سیاستدانوں اور اہل صحافت میں شامل افراد اور اداروں سب نے مل کر اپنے حصے سے زیادہ ہی بٹورا تھا خصوصاً صحافت میں وہ جن کے والدین کبھی بہت غربت میں اپنے ادارے چلاتے تھے اب وہ اربوں کھربوں کے مالک بن چکے ہیں جبکہ ”کام آنے والے“ بہت سے میڈیا پروفیشنلز بھی تنخواہوں کے علاوہ کروڑوں روپے اضافی بنا چکے ہیں۔

تقسیم کے اس عمل کی سب سے بہترین تصویر کشی گزشتہ دنوں اس وقت ہوئی جب ماضی میں عمران خان کے ساتھ پرائیویٹ جہازوں میں سفر کرنے والے ان کے قریبی محسن بیگ نامی شخص نے ایک ٹی وی شو میں یہ کہا کہ وفاقی وزیر مراد سعید کارکردگی کے لحاظ سے اس لئے پہلے نمبر پر رہے کہ ان کے عمران خان کے ساتھ ”خصوصی تعلقات“ تھے پروگرام کی اینکر غریدہ فاروقی سمیت پینل میں موجود تمام شرکا نے محسن بیگ کی تائید میں فقرے اور الفاظ کہے جن میں سے ایک ریٹائرڈ جنرل امجد شعیب نے سمجھائے جانے پر دوسرے دن مراد سعید کے خلاف اپنے ریمارکس پر معافی مانگی جبکہ باقی پینل پر تحریک انصاف کے لوگوں نے بمباری شروع کردی۔

توقع کی جا رہی تھی کہ مشکلات کے گرداب میں پھنسی حکومت اس معاملے میں خاموش رہ کر ذاتیات کی بجائے مسائل کے حل پر ہی متوجہ رہے گی لیکن ایسا نہیں ہوا اور محسن بیگ کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ حکومت کے دیگر ناقدین کی گرفتاریوں کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

حکومت کو شاید اس بات کا احساس نہیں کہ وہ ایسا کر کے کن مشکلات سے دوچار ہو سکتی ہے۔ پوری دنیا خصوصاً صحافتی آزادی کے عالمی ادارے پہلے سے ہی پاکستان جیسے ملک میں میڈیا کی آزادی کو سلب تصور کرتے ہیں اور ہر معاملے پر ایک خبر جاری کی جاتی ہے۔

ویسے بھی ہم ایک ایسے معاشرے میں ڈھل چکے ہیں جس کے لوگ صحافی ہوتے ہوئے سیاستدانوں کے کنٹینرز پر بھی کھڑے رہتے ہیں خود کو تنقید سے بالاتر بھی گردانتے ہیں لیکن جیسے ہی ان کے تعلقات خراب ہوتے ہیں اور ان کو بھی اسی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ فوری طور پر اپنی صحافی والی پوزیشن میں واپس آ جاتے ہیں ایسا ہم نے محسن بیگ سے پہلے حسن نثار، مبشر لقمان اور کئی دوسروں کی صورت میں بھی بھگتا ہے۔

ہمارے ہاں صحافت ہو یا اسٹیبلشمنٹ، ان کا رویہ ہمیشہ سے ہی عجیب ہوتا ہے کہ سیاست میں ہاتھ بھی ماریں گے پسند ناپسند بھی کریں گے اپنی پسند کی پارٹیوں کو جتوانے اور انہیں کامیاب کرانے کے لئے کام بھی کریں گے لیکن جیسے ہی جواب میں پتھر پڑے گا وہ فوری طور پر خود کو پارسا کہہ کر جواب دعوی کریں گے کہ انہیں سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔

خیر جو بھی ہو اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ ذمے داری حکومتوں کی ہوتی ہے جس کا کام حالات کو کنٹرول میں رکھ کر اپنا کام نکالنا ہوتا ہے یعنی عوام کے مسائل کے حل کا ٹاسک ہی ان کے مطمح نظر ہونا چاہیے لیکن ہمارے ہاں کھلاڑیوں اور نوجوانوں کی حکومت ہونے کے باوجود ان کے پیر ٹھنڈے اور سر سب سے زیادہ گرم ہیں سنا تھا کھلاڑی کو غصہ کم آتا ہے لیکن ہمارے ہاں معاملہ بالکل الٹ ہے۔ تاہم یہ بھی کوئی حتمی رائے نہیں کیونکہ میڈیا کو دبانے کا یہ عمل کسی خاص منصوبے کا ایک بھی حصہ ہو سکتا ہے تاکہ میڈیا کو اپنی مرضی کی ایک چیز میں ڈھالنے کا کام کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments