مریم ناز کی باری پر سبھی چھٹی پر کیوں چلے جاتے ہیں؟


مریم ناز ایک بڑی لیکن بدقسمت فنکارہ ہے۔ مقامی و بین الاقوامی میڈیا نے کوریج دی لیکن آج سے تین سال پہلے انہوں نے ایک پکا کمرہ بنانے کے لیے چند سو ایٹنیں خریدیں تھیں، وہ اینٹیں اس کی جھونپڑی کے پاس ویسے ہی پڑی ہوئی ہیں۔

میری مریم سے شناسائی گزشتہ برس اس وقت ہوئی، جب ہم تھر میں تھے اور اپنے ٹی وی چینل کے لیے تیس قسطوں پر مبنی ایک پروگرام ریکارڈ کر رہے تھے۔ مٹھی میں قیام تھا اور ہمیں مقامی موسیقی کے حوالے سے فنکاروں کی تلاش تھی۔ مریم ناز سے پہلے ہم نے سائیں لطیف مرحوم کو ریکارڈ کیا تھا، جو الغوزہ نواز تھے۔ سائیں لطیف ریکارڈنگ کے لیے گڈی بھٹ تشریف لائے اور ایک وقفے کے دوران کہنے لگے، ”پہلے بھی کئی چینل آئے اور ریکارڈنگ کی۔ میں نے کئی گھنٹے ان کے لیے پرفارمنس دی لیکن بعد میں کوئی آن ایئر نہیں کرتا۔ میں نے کبھی اپنے آپ کو ٹی وی پر نہیں دیکھا۔‘‘

ہم  نے انہیں ریکارڈ کیا اور بعد میں ٹی وی پر وہ آن ایئر بھی ہوئے لیکن آن ایئر ہونے سے پہلے ان کی وفات ہو گئی۔ سائیں لطیف کی شخصیت میں مقامی دانش واضح دکھائی دیتی تھی۔ کمال کے خوبصورت انسان تھے۔

ہمیں معلوم ہوا کہ کوئی صاحب ہیں، جو ہمیں ایک مقامی فنکارہ کے گھر لے جائیں گے۔

بتایا گیا کہ فنکارہ کا نام مریم ناز ہے اور مائی بھاگی کے خاندان سے تعلق ہے۔ مٹھی میں بائی پاس پر ایک جگہ گاڑی رکوائی گئی، جہاں کوئی گھر نہیں تھا۔ پوچھا کہ یہاں کیوں رکوایا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ سامنے نظر آنے والے جھونپڑے مریم ناز کے ہیں۔ جھونپڑوں میں کم و بیش دس سے زائد کتورے پھر رہے تھے۔ دو تین جھونپڑوں کے بیچ میں ایک صحن تھا۔ یہاں بھی کتے اور ان کے بچے مزے سے بیٹھے دھوپ سینک رہے تھے۔

انہی کے درمیان پانچ چھ چھوٹے چھوٹے بچے بھی کھیل رہے تھے۔ مریم ناز کو ہماری آمد کا پتہ تھا، اس لیے وہ مقامی لباس میں ملبوس تھیں۔ مریم ناز بہت خاموش نظر آئیں۔ شاید اپنے گھر کی حالت کو دیکھ کر ایک خوددار انسان والی خاموشی تھی لیکن ماحول میں ایک بوجھل پن سا تھا۔

مریم ناز نے کچھ سوالوں کے جواب اکھڑے اکھڑے سے دیے۔ وہ مسلسل اپنے جھونپڑوں اور صحن میں کتوروں کو دیکھ رہیں تھیں۔ لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ محبت کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے اور بغیر لفظوں کے سہارے بھی دوسروں کے دل کو متاثر کر دیتی ہے تو یوں سمجھیے کہ میرے دل میں مریم کے حوالے سے شدید احترام نے اس کو متاثر کرنا شروع کر دیا۔

میرے احترام یا محبت میں کوئی بناوٹ نہیں تھی۔ جب میں نے اس کو احساس دلا دیا کہ ہم بالکل ایسے بیٹھے ہیں جیسے اپنے گھر میں ہوں اور یہ ہمارے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ آپ سے ملاقات ہو رہی ہے۔ یہ کہتے ہوئے میں اپنے دل میں کہہ رہا تھا کہ بہن یوں سمجھو ایک چھوٹے آدمی کی تمہاری جیسی ایک بہت قد آوور شخصیت سے ملاقات ہو رہی ہے۔

کچھ دیر بعد مریم نے چہکنا شروع کر دیا۔ اب وہ ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھیں۔ انہوں نے ہمیں گانے سنائے جو ہم نے ریکارڈ کیے۔ اس کے بعد میں نے مریم کو کہا کہ کیا وہ ہمیں اپنا گھر نہیں دکھائیں گی؟ مریم کے چہرے پر سرخ رنگ آیا اور آ کر چلا گیا۔ میں نے مریم کو کہا کہ دیکھو اس ملک میں بڑے اچھے لوگ بھی ہیں، جن کو جب علم ہو گا کہ اتنی بڑی فنکارہ کس کسمپرسی میں رہ رہی ہے تو وہ مدد کریں گے۔ باقی اگر میری بہن اجازت نہ دینا چاہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مریم اٹھیں اور ہمیں ایک جھونپڑی کی جانب لے گئیں۔

جھونپڑی کے اندر داخل ہوئے تو ایک چارپائی پر ایک مریض لیٹا ہوا تھا، جس کا تعارف مجھے یاد نہیں مریم نے کیا کروایا تھا۔ اندر چند بوسیدہ رضائیاں تھیں اور رضائیوں کے اوپر دو بلیاں آرام کر رہی تھیں۔

ذہانت مریم ناز کی ایک ایسی صفت ہے، جو چھپائے نہیں چھپتی تھی۔ ہنس کر کہنے لگیں، ”جس طرح آپ لوگوں کے ہاں ایک بڑا کمرہ ہوتا ہے ناں، جس کو نہ جانےکیا کہتے ہیں، مشکل سا لفظ ہے، یہ ہمارا وہ والا کمرہ ہے۔

پوچھنے لگیں! کیا کہتے ہیں آپ لوگ اس بڑے کمرے کو؟ میں نے کمزور اداکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ مریم پتہ نہیں اس وقت مجھے یاد نہیں۔ ڈرائنگ روم بتا بھی دیتا تو کیا فرق پڑنا تھا لیکن سچ پوچھیے ہمت نہیں ہوئی۔ دوبارہ سے قہقہہ لگاتے ہوئے بولیں کہ چلیں جو بھی کہتے ہیں ہمارا یہ وہی والا بڑا کمرہ ہے۔

اس کمرے سے باہر نکلتے ہوئے کہنے لگیں، ”میرے حصے میں بس یہی ہے۔‘‘ میں نے پوچھا کہ کیا مطلب، یہ تینوں جھونپڑیاں آپ کی نہیں ہیں؟ کہنے لگیں نہیں ان میں سے باقی دو بھائیوں کی ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے شوہر کیا کرتے ہیں؟ بتانے لگیں کہ کیسے وہ وفات پا گئے اور اب کن مشکلات میں بچوں کو پال رہی ہوں۔

میں نے پوچھا کہ مریم آپ کے بچے بہت پیارے ہیں کیا کبھی آپ ان کو ڈانٹتی تو نہیں ہیں؟ مریم نیاز کے چہرے پر افسردگی تھی کہنے لگیں کہ نہیں لیکن غریب ہوں ناں، کبھی تنگ پڑتی ہوں تو ڈانٹ بھی دیتی ہوں۔

میں نے مریم سے پوچھا کہ یہ جو آپ نے خوبصورت لباس پہن رکھا ہے یہ کہاں سے بنوایا ہے؟ مریم نے فورا اپنے لباس کی جانب شرماتے ہوئے نگاہ کی اور اس تعریف پر بہت خوش ہوئیں۔ لباس کو دکھاتے ہوئے بولیں، ”میں شادیوں پر جاتی ہوں تو وہاں گانے بجانے سے پیسے وصول ہوتے ہیں۔ میں نے بچت کی اور آج سے چار سال پہلے یہ لباس خریدا۔‘‘

اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں، ”لیکن یہ بہت مہنگا ہے۔ لیکن یہ لینا بھی ضروری تھا کہ کبھی ٹی وی والے آ جاتے ہیں کبھی کسی فنکشن پر جانا پڑتا ہے۔‘‘ میں نے ڈرتے ڈرتے مریم سے پوچھا کہ مریم یہ بہت خوبصورت اور نفیس لباس ہے تو یہ مہنگا بھی ہو گا تو ویسے ہی پوچھنا چاہتا ہوں کہ کتنے کا لیا تھا؟ مریم نے آنکھیں پھیلاتے ہوئے کہا،”پورے چار ہزار کا۔‘‘

مجھے نہ جانے کیوں لگا کہ مریم ٹی وی اور فنگشن والی بات کو جواز بنا کر اپنا احساس جرم چھپا رہی تھی۔ چار ہزار کا لباس لینا اس کے نزدیک بھلا ایک جرم سے کم کیا ہو گا۔ ایسی ننگی غربت اور چار ہزار کا لباس، وہیں کھڑے کھڑے میرا قد مزید چھوٹا ہو گیا۔ مریم ناز کے ساتھ ایک بونا چل رہا تھا اور بونے کی نگاہیں عظیم مریم ناز کے پاؤں سے نہ ہٹتی تھیں۔

آگے گئے تو جھونپڑوں کے ساتھ اینٹوں کا ایک چھوٹا سا ڈھیر پڑا تھا اور ایک چھوٹے سے کمرے کی نامکمل بنیادیں سی نظر آئیں۔ مریم ناز نے پھر قہقہہ لگایا، ”یہ اینٹوں [اینٹیں] ہیں؟ میں بہت امیر ہوں ناں تو یہ میں نے اینٹوں خریدی تھیں کہ ایک پکا کمرہ بنواوں گی۔ رشتہ داروں نے مذاق بنایا کہ خواب بڑا دیکھ لیا ہے تم نے، لیکن میں بضد تھی۔ یہ اینٹوں لے لیا لیکن پھر پیسے ختم ہو گئے۔‘‘ مریم ناز نے پھر قہقہہ لگایا۔

یہ قہقہے کسی بھی ذہین فرد کی مانند مریم ناز کا مدافعتی نفسیاتی نظام تھا لیکن ساتھ میں کھڑے بونے کے لیے یہ سر پر پڑتے جوتے تھے۔ مریم ناز مسلسل مجھے یہ جوتے ماری جا رہی تھی۔ ناسمجھی میں مریم ناز مجھے بے حد تکلیف پہنچا چکی تھی۔

میں تھوڑی دیر کتے کے بچوں کے پاس بیٹھ گیا۔ ان کی تعریف کیا کی کہ مریم ناز کی خوشی دیکھنے کے لائق تھی۔ مریم ناز بھی ساتھ بیٹھ گئیں اور ان کی شرارتوں اور ان کے ناموں کے بارے میں بتانے لگیں۔ کتے کے یہ ڈھیر سارے پیارے بچے اور مریم ناز اور ان کے بھائیوں کے بچے ہر وقت اکھٹے رہتے دکھائی دیے۔

مریم ناز کتے کے بچوں، پیارے پیارے کتوروں کی تعریف پر کیوں اس قدر خوش ہوئیں؟ کیونکہ مریم ناز کے گھر میں اس کے سوا تھا کیا؟

واپس آیا تو تیس قسطوں میں پہلی قسط مریم ناز کی آن ایئر کروائی اور قسط میں حکومت اور مخیر حضرات سے اپیل کی کہ مریم ناز کی مدد کریں۔ کچھ عرصے کے بعد دوبارہ اپنے پروگرام میں لائیو دکھا کر اپیل کی۔ ابھی حال ہی میں ایک بین الاقوامی میڈیا کے ادارے نے بھی ان کی کوریج کی۔ اپنے پاس سے جو کچھ بن پایا کیا لیکن سمجھ یہ نہیں آئی کہ مریم ناز کی باری آئے تو حکومت اور مخیر حضرات چھٹی پر کیوں چلے جاتے ہیں؟

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments