شدت پسندی کا علاج تلاش کرنا ہو گا


پاکستان کا ایک بنیادی مسئلہ انتہا پسندی اور شدت پسندی پر مبنی رجحانات ہیں۔ یہ مسئلہ محض مذہبی ہی نہیں بلکہ سیاسی، لسانی، علاقائی اور فرقہ وارانہ انتہا پسندی سے بھی جڑا ہوا ہے۔ ہمیں مرض کی شدت کا تو اندازہ ہے لیکن اس مرض کی درست تشخیص اور اس کے موثر علاج کرنے پر ہمیں کئی حوالوں سے داخلی تضادات، کمزور سیاسی کمٹمنٹ اور قومی عدم ترجیحات کا فقدان غالب نظر آتا ہے۔ اس مسئلہ نے ہمارا مقدمہ محض داخلی محاذ پر ہی نہیں بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر خارجی سطح پر بھی کمزور کر دیا ہے۔

ہم نے قومی سطح پر اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے کئی پالیسیاں اور قانون سازی سمیت انتظامی اقدامات کیے ہیں جن میں نیشنل سیکورٹی پالیسی، نیشنل ایکشن پلان، پیغام پاکستان، دختران پاکستان، سائبر پالیسی، تعلیمی اور مدارس اصلاحات کی تشکیل نو کی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر ان پالیسیوں پر عملدرآمد کا نظام یا تو کمزور ہے یا واقعی ہماری داخلی تضادات کی سیاست کو نمایاں کرتا ہے۔

سانحہ سیالکوٹ کا واقعہ ہو یا خانیوال کے شہر تلمبہ کا واقعہ جہاں شدت پسند مذہبی عناصر یا ہجوم کا ایک بڑا دستہ خود ہی وکیل بن جاتا ہے اور خود ہی جج بن کر اپنی مرضی اور منشا کے مطابق فیصلہ کر کے ریاست کی رٹ اور قانون کی چیلنج کر کے پورے ریاستی نظام کو تماشا بناتا ہے۔ توہین رسالت کے نام پر جو کچھ ہو رہا یہ محض دو واقعات نہیں بلکہ کئی برسوں سے اس کے تسلسل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم ہر بار ندامت کے ساتھ ہر سطح پر مذمت کرتے ہیں، واویلا مچاتے ہیں اور ریاستی و حکومتی سطح پر اس واقعہ کو آخری واقعہ قرار دیا جاتا ہے مگر ان واقعات کی روک تھام میں ریاست اور حکومت ناکام نظر آتی ہے۔

یہ منظرنامہ ظاہر کرتا ہے کہ تسلسل کے ساتھ اس ملک میں شدت پسندی بڑھ رہی ہے یا واقعی اس ملک میں شدت پسندی کی گہری علامات ہیں جن کا علاج تلاش کرنا ہو گا۔ ہمارا المیہ یہ ہی کہ اس میں محض ریاست یا حکومت کی کمزوری کا پہلو ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر سیاسی و سماجی نظام، مذہبی اور سیاسی قیادت، علمائے کرام، میڈیا، دانشور، شاعر، ادیب، مصنف، استاد اور سماجی راہنما سب ہی ان واقعات میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔

ایک منطق یہ دی جاتی ہے کہ لوگوں میں محرومی کی سیاست، وسائل کی کمی، سماجی، سیاسی اور قانونی عدم انصاف اور ریاستی کمزوری پر مبنی نظام ہی شدت پسندی کی اہم وجوہات ہیں۔ لیکن محض ان نکات کو بنیاد بنا کر جو انتہا پسندی پر مبنی مذہبی رجحانات ہیں ان کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ ہم بطور سماج جس انداز میں معاشرے کی تعمیر نو یا تشکیل نو کر رہے ہیں یا جو عادات و اطوار یا جو رویے و طرزعمل کو طاقت دے رہے ہیں وہی بڑا المیہ ہے۔

ہم مجموعی طور پر معاشرے کو یکجا کرنے کی بجائے معاشرے کی سیاسی، مذہبی، فرقہ واریت، لسانیت اور علاقائی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ اس تقسیم کا نتیجہ لوگوں میں ایک دوسرے کے بارے میں مختلف نوعیت کے تعصب، نفرت اور دشمنی کی بنیاد پر سامنے آ رہا ہے۔ ہم یہ بھول رہے ہیں کہ اس معاشرے میں مختلف مذاہب، فرقوں کے لوگ رہتے ہیں اور ہم اپنے مسائل یا اختلافات کو تشدد کے مقام پر لے جاتے ہیں۔ اگر ہمیں کسی فریق کے اقدام سے شکایت ہیں اور کسی کی مذہبی سمیت کسی بھی واقع پر دل آزاری ہوئی ہے یا کسی کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہم آئین اور قانون کی مطابق قانونی راستہ اختیار کرنے کی بجائے خود سے انصاف کرنا چاہتے ہیں۔

بظاہر یہ لگتا ہے کہ ہم معاشرے کی تربیت کے عمل میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ ناکامی عملی طور پر گھر، خاندان، معاشرہ، تعلیمی و سماجی و سیاسی نظام کی ہے جو لوگوں کو مہذب اور ذمہ دار شہری بنانے میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکا۔ مذہبی سطح پر ہمارے علمائے کرام اور جماعتوں کا کردار زیادہ سوالیہ نشان کے طور پر سامنے آتا ہے۔ کیونکہ کردار سازی اور قومی تعمیر نو بظاہر ہماری سیاسی ترجیحات میں بہت پیچھے کھڑی نظر آتی ہے۔

بطور مسلمان اور انسان ہماری کئی ذمہ داریاں ہیں۔ ان ذمہ داریوں میں سماجی آداب اور انسانیت کی قدر چاہے ان کا تعلق آپ کی سوچ اور فکر سے مختلف ہی کیوں نہ ہو کرنی چاہیے۔ یہ جو ہمیں عجیب سا بخار چڑھ گیا ہے کہ ہم ہی اعلی ہیں اور باقی سارے خراب یا گناہ کار ہیں اس خبط سے باہر نکلنا ہو گا۔ ہم ضرور اپنی سوچ اور فکر پر قائم رہیں لیکن دوسروں کی سوچ اور فکر جو آپ سے مختلف اس کو احترام دینا اور اپنے مزاج میں رواداری کو پیدا کرنا ہی ہمارا قومی درس کا حصہ ہونا چاہیے۔

عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ ہجوم کی کوئی نفسیات نہیں ہوتی اور ان کی کوئی پہچان بھی نہیں ہوتی۔ لیکن یہ تسلیم کریں یہ ہجوم کوئی اور نہیں ہم ہی لوگوں میں سے ہیں اور ان میں جو لوگ زیادہ اشتعال انگیزی یا ان میں نفرت کو پیدا کر کے ان میں اشتعال پیدا کرتے ہیں ان کی نشاندہی کرنا اور ان کو کیفر کردار یا جوابدہ بنانا ریاستی و معاشرتی ذمہ داری ہے۔ ایک بڑی بے حسی یہ ہے کہ ہجوم میں اس طرح کے واقعات میں عام لوگ جو وہاں تماشا دیکھتے ہیں یا ویڈیوز بناتے ہیں ان کی مزاحمت نہ ہونا یا تو ان کے ڈرپوک ہونے یا خوف زدہ ہونے کی نشاندہی کرتی ہے یا یہ لوگ بھی کسی نہ کسی شکل میں اس کا حصہ دار بن کر ان ہی لوگوں کو طاقت فراہم کرتے ہیں جو شدت پسندی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

اصل مسئلہ ان شدت پسند عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لانا اور سزا نہ دینے کا عمل بھی ہے جو بلاوجہ ان شدت پسند عناصر کو تقویت دیتا ہے کہ وہ زیادہ طاقت ور اور ریاست یا حکومت ان کے مقابلے میں زیادہ کمزور ہے۔ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ہمارا مجموعی تعلیمی نظام جن میں مدارس کا نظام بھی شامل ہے تنقیدی زمرے میں آتا ہے۔ کیونکہ جو لوگ شدت پسندی کے مرتکب ہو رہے ہیں وہ پڑھے لکھے لوگ ہیں اور بظاہر تعلیم کا ان کے طرز عمل پر کوئی بڑا مثبت اثر نہیں ہو رہا۔

ہمارا تعلیمی نظام تربیت کے نظام سے محروم نظر آتا ہے اور اس پر سونے پر سہاگہ کہ ہمارا میڈیا کا مجموعی نظام بھی لوگوں کی تعلیم و تربیت میں اپنا غیر معمولی کردار ادا نہیں کر سکا۔ شدت پسندی پر مبنی ذہن کی تشکیل کیے ہوتی ہے اور کیسے ایک فرد یا ہجوم اس کو اپنے مزاج کا حصہ بناتا ہے اس کا سیاسی، سماجی اور نفسیاتی تجزیہ کرنا ہو گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ مذہبی شدت پسندی کا شکار ہوتے ہیں ان کے دل و دماغ میں کون عصبیت بھرتا ہے اور اس کا ایجنڈا کیا ہے۔ کیوں ہم معاملات کو قانون کی دائرہ کار میں حل کی بجائے طاقت اور تشدد کی بنیاد پر حل کرنا چاہتے ہیں۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ مجموعی طور پر ریاست، حکومت اور معاشرہ کا ان واقعات پر ردعمل محض ردعمل کی ہی سیاست سے جڑا ہوتا ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے لانگ ٹرم، مڈٹرم اور شارٹ ٹرم پالیسی، اہداف اور حکمت عملی سمیت عملدرآمد کے نظام کا فقدان بڑا چیلنج ہے۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کا ریاستی بیانیہ کمزور ہے اور یہ لوگ ان جذباتی معاملات پر قوم کی راہنمائی کرنے کی بجائے اس کو سیاسی رنگ دے کر اپنے سیاسی فوائد کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

پولیس کا مجموعی نظام بھی سمجھوتوں یا ڈر اور خوف کا شکار نظر آتا ہے اور بعض اس طرح کے واقعات پر پولیس کی موجودگی پر ہونا اور ان کی مجرمانہ خاموشی بھی سنگین مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس لیے اب وقت آ گیا ہے ہمیں اس مجموعی صورتحال پر سماجی و سیاسی نظام کا بڑے پیمانے پر پوسٹ مارٹم کرنا ہو گا۔ یہ مرض کینسر جیسے مرض کی نشاندہی کرتا ہے اور اس کا علاج بطور معاشرہ ہم عملی طور پر ڈسپرین کی گولی سے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ صورتحال غیر معمولی صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے اور اس کے لیے ہمیں غیر معمولی اقدامات درکار ہیں۔ یہ کام محض قانونی بنیاد یا انتظامی بنیادوں پر ہی ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے سماج کی سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشرتی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے۔ یہ کام محض تن تنہا ریاست یا حکومت نہیں کر سکتی بلکہ اس کے لیے معاشرے کے تمام ذمہ دار فریقین کو باہمی حکمت عملی سے شدت پسندی کا علاج تلاش کرنا اور عملدرآمد کرنا ہو گا۔ کیونکہ اگر ہم نے اس مرض کا فوری سدباب نہ کیا تو اس کی آگ ہمیں بطور معاشرہ ایک بڑی لپیٹ میں لے گا جو زیادہ خطرہ ثابت ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments