میاں صاحب کے بچے


وطن عزیز پر یہ کیسا موسم اتر آیا ہے کہ رکھ رکھاؤ روا داری، ایک دوسرے کے عقائد کا احترام، ہمدردی خلق اور درگزر جیسے بنیادی معاشرتی آداب عنقا ہوتے چلتے جاتے ہیں۔ شرف انسانیت نیست و نابود ہے۔ سگ آوارہ کو مارنا مشکل جب کہ ایک جیتے جاگتے اپنے ہی جیسے انسان کی جان لینا آسان بنا دیا گیا ہے۔ نفرتوں کے بیج تناور درخت بن گئے ہیں۔ معاشرتی تقسیم کو اقلیتوں کے نام پر ہم نے روا رکھا اور چپ رہے۔ اپنے ہی بھائی بندوں پر دائرہ حیات تنگ کرتے چلے گئے اور شرافت خاموش رہی۔

مذہب کو ہم نے اکثریت کے گھر کی باندی بنا کر رکھ دیا۔ جمہور کے مذہب کے آگے باقی مذاہب اور عقائد کی کم تری ہم نے جائز سمجھ لی۔ اکثریت کو اختیار دے دیا کہ وہ اقلیت کے ساتھ جو چاہیں سلوک کریں کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا۔ جس کا کام معاشرے میں امن و امان، بھائی چارہ قائم کرنا اور محبتوں کی بنیادیں گہری کرنا تھا وہی نفرتوں کا سب سے بڑا پرچارک بن گیا۔ مسجد کے امام نے، عبادت گاہ کے متولی نے، مزار کے مجاور نے اپنی اپنی مسجد، اپنی اپنی عبادت گاہ اور اپنا اپنا مزار قرار دے لیا۔ عبادت گاہیں اور مساجد ذاتی ملکیت شمار ہونے لگیں جہاں انسان اختلاف عقیدہ کے ترازو پر تولے جانے لگے۔

سوچتا ہوں جب ارض پاک پر سب سے پہلی مسجد کے دروازے پر جلی حروف میں آویزاں کیا گیا کہ یہ مسجد فلاں مخصوص طبقے کی ہے اور اس میں فلاں فلاں عقیدہ رکھنے والے قدم رکھ کر اسے ناپاک نہ کریں، ورنہ کارروائی کی جائے گی۔ ایسی مساجد میں جانے والوں میں کوئی ایک بھی رجل رشید نہیں تھا جو ملاں کا ہاتھ روک سکتا۔ کوئی ایک بھی صاحب فہم و فراست نہیں تھا کہ آواز حق بلند کرتا۔ کوئی ایک بھی مذہبی، معاشرتی اور اخلاقی اقدار کی حفاظت کرنے والا نہیں تھا کہ مسجد کے امام، عبادت گاہ کے متولی سے پوچھ سکتا کہ یہ تقسیم کس لئے؟

معاشرے میں رکھی نفرت کی بنیاد کس بنا پر استوار کی جا رہی ہے؟ ہم چپ رہے، شرافت گونگی بنی رہی اور منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر مست رہی۔ ہم آنکھیں بند کر کے تباہی کی طرف چلتے رہے۔ گھٹن اور تعفن زدہ اندھیری منزلوں کی طرف گامزن رہے۔ یہ سمجھتے رہے کہ میرا مذہب، میرا عقیدہ دوسرے کے مذہب اور عقیدے سے بہتر اور بالا تر ہے۔ میں جنت الفردوس میں داخل ہونے والا اور دوسرا ہر فرد واحد تحت الثٰری گمنامی کے اندھیروں میں غائب ہونے والا ہے۔ مسجد کا امام، عبادت گاہ کا متولی ہمیں تقسیم کرتا رہا اور ہم تقسیم ہوتے رہے۔

گاؤں کا امام جسے کوئی دور جاتا ہے کہ میاں صاحب یا میاں جی کہا جاتا تھا۔ میاں جی کے منہ سے کلمہ خیر کے علاوہ کچھ نکلتا نہیں تھا۔ شادی بیاہ میں وہی میاں جی، تجہیز و تکفین میں وہی مشترکہ میاں جی، عقیقہ اور جنازہ میں وہی سب کے امام، میاں جی۔ بچوں کو دین سکھانے اور اخلاقیات کا درس دینے میں جتے ہوئے میاں جی۔ بے ضرر، نفع رسان وجود، شرافت اور نیکی کی چلتی پھرتی مثال میاں جی۔ لیکن پھر میاں جی کے بچے مولوی بن گئے، مولوی سے علامہ بنے اور علامہ سے حضرت کے درجے پر خود کو فائز کر لیا۔

ایک مقابلہ شروع ہوا۔ ضرور تھا کہ ہر ایک کے الگ الگ پیرو کار بھی ہوں، نعرے مارنے والا ہجوم بھی ہو۔ جبہ و دستار کو سر آنکھوں پر بٹھانے والے بھی ہوں۔ شان و شوکت، عمدہ سے عمدہ گاڑی، اچھے سے اچھا گھر، سیکورٹی کے نام پر باڈی گارڈز اور ہزاروں دیگر لوازمات پورے کرنے کے لئے ”میاں جی کے بچے“ ہمیں تقسیم کرتے رہے اور ہم تقسیم ہوتے چلے گئے۔ یہ عناصر عوام کو اپنی کھیتی سمجھ کر ہر طرف سے اس پر چڑھ دوڑے اور برباد کرتے چلے گئے۔

آج ہم ایک دوسرے کے عقیدہ کو برداشت کرنا دور کی بات ایک دوسرے کی شکل سے بھی متنفر ہیں۔ صرف عقیدے کی بنا پر صرف مذہبی اختلاف کی بنا پر رستہ بدل لیتے ہیں۔ بلکہ اب تو کمزور کو رستہ بدلنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ آج ہم اپنے ایمان کے مطابق عمل کرنا اتنا ضروری نہیں سمجھتے جتنا اپنے عقیدے کو دوسرے پر زبردستی لاگو کرنا سمجھتے ہیں۔ صرف اختلاف مذہب اور عقیدہ کی بنیاد پر ہم اپنے ارد گرد کسی دوسرے مذہب اور عقیدے والے کو برداشت نہیں کر نا چاہتے۔

مد مقابل اگر کمزور ہے تو اس کی جائیداد ہتھیانا، اس کے کاروبار کو نقصان پہنچانا، اس کی فیملی کو عدم تحفظ کا احساس دلانا اور موقع ملتے ہی جان لینے سے بھی دریغ نہ کرنا اپنا فرض سمجھ بیٹھے ہیں۔ ”میاں جی کے بچے“ جو اب بڑے بڑے ”علامے“ بن چکے ہیں خوش ہیں کہ ان کی روزی روٹی اور رعب داعب اس تقسیم کے صدقے قائم ہے۔ جتنا اندھا میرا عقیدہ، جتنا میں دوسرے فرقے والے کے لئے خطرناک اتنا ہی میں مذہبی لبادہ اوڑھے ملاں کی ہتھیلی کا چھالا۔

گزشتہ دو ماہ میں پاکستان میں ہونے والے جنونیت کے واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ ہم کس قدر ان عناصر کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن چکے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہی مسجد و منبر ایک وقت میں کسی انسان کی جان لینے، کسی کو سنگسار کرنے، کسی کو زندہ جلانے، کسی کو ڈنڈوں اور پتھروں سے مارنے، اس کے اعضا کاٹ کر لاش کی بے حرمتی کرنے کی ہجوم کو ترغیب دیتے ہیں۔ اعلان جہاد کرتے اور دین و دنیا میں سرخرو ہو کر حوض کوثر کے خواب دکھاتے ہیں۔

پھر وہی مسجد و منبر اگلے ہی روز ثواب دارین حاصل کرنے کے لئے نماز جنازہ میں شرکت کا اعلان کرتے ہیں۔ ستم در ستم یہ ہے کہ دونوں مواقع کے لئے ہجوم میسر ہے۔ میاں جی کا ایک بچہ ایک انداز سے ہمیں ایندھن بنا کر اپنا رزق سمیٹتا ہے تو دوسرا بچہ دوسرے طریق سے اپنی سلطنت قائم رکھے ہوئے ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments