مکافات عمل اور کامیابی کا مدیبائی فارمولا


چند دن پہلے ایک نجی چینل کے ٹاک شو میں پاکستان تحریک انصاف کے منحرف صحافی نے کچھ گفتگو کی۔ پروگرام کی میزبانی کرنے والی خاتون نے ایک وزیر موصوف، کہ جن کو حال ہی میں وزیراعظم ہاؤس میں منعقدہ ایک تقریب میں، حسن کارکردگی پر توصیفی سند عطا کی گئی تھی۔ ان کی کارکردگی کے بارے میں شریک تجزیہ کاروں سے سوال کیا تو منحرف صحافی نے کہا کہ ان کی کارکردگی سابقہ خاتون اول کی کتاب میں درج ہے۔ اس کی وہاں موجود باقی تجزیہ کاروں نے بھی تائید کی اور تمام شرکاء استہزائیہ ہنسے بھی۔ ایک پینل ممبر نے پیمرا قوانین کی جانب توجہ دلائی اور بات آگے بڑھ گئی۔

یہ بات دراصل اس کتاب میں موجود وزیر موصوف کی کردار کشی سے متعلق تھی۔ پیمرا بھی فوراً حرکت میں آیا۔ چینل مالکان کو شوکاز اور پروگرام آف ائر۔ مزید یہ کہ منحرف صحافی جو کسی دور میں پاکستان تحریک انصاف کے لابیر اور فنڈ ریزر بھی رہے تھے ان کے خلاف بھی شکایت کر دی گئی۔ ایک وفاقی ادارے نے صبح سویرے صحافی کے گھر پر دھاوا بولا اور ان کو گھر سے گرفتار کر لیا۔ طالب علم اس سارے قضیے میں اتنا کہ پائے گا کہ کردار کشی اور بدکلامی شرف انسانیت سے بھی نیچے ہے کجا کہ یہ قومی سیاست کی سرکاری زبان بن جائے۔ اس کے ساتھ ہی ریاست کا آئین ہر حال میں مقدم اور بالا دست رہنا چاہیے۔

لیکن کیا یہ کردار کشی کا پہلا واقعہ تھا، کیا جو پارٹی آج زد پہ ہے کل اس کے سینیئر ترین رہنماؤں نے اپنے مخالفین کی بالکل اسی طرز پر کردارکشی نہیں کی تھی۔ آج حکومتی پارٹی مخالفین کی بدکلامی اور ذاتی حملوں سے خاصی نالاں اور غضب ناک نظر آتی ہے۔ اس کے جواب میں مخالفین یہ کہتے ہیں کہ ماضی قریب میں پاکستان تحریک انصاف، اس کے وزراء بشمول سربراہ تحریک جس طرح کا لب و لہجہ مخالفین کے لئے اختیار کیے ہوئے تھے اور جس طرح کی زبان ان کے بارے میں استعمال کی گئی اور ذاتی حملے اور کردار کشی کا وتیرہ اپنایا گیا، تو یہ سب مکافات عمل ہے اور تحریک انصاف والے اپنا بویا کاٹ رہے ہیں۔ انسان جو بھی بوئے گا اسی کی فصل کاٹے گا۔ عاصی کرنالی صاحب کا شعر ہے کہ

”مکافات عمل خود راستہ تجویز کرتی ہے
خدا قوموں پہ اپنا فیصلہ جاری نہیں کرتا ”

آئیے تاریخ سے سیکھتے ہیں کہ قوم کی تعمیر میں کردار کی مضبوطی اور بلند اخلاق کس قدر ضروری ہیں اور کتنا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ نیویارک شہر، ارون ڈیوس ہال اور 21 جون 1990، حالیہ تاریخ کے سب سے عظیم رہنما ’نیلسن منڈیلا مدیبا‘ کو ٹاؤن ہال میٹنگ میں ایک امریکی سیاسی مبصر اور محقق ’کین ایڈلمین‘ سوال کرتا ہے ’جناب منڈیلا ہم آپ کی نسلی امتیاز کی جدوجہد کے حامی ہیں لیکن جب آپ کے انسانی حقوق کے حالیہ ماڈل دیکھتے ہیں تو ہمیں کسی قدر افسوس ہوتا ہے کہ حال ہی میں آپ نے تین دفعہ یاسر عرفات سے ملاقات کی اور ان کی مدح سرائی کی، کیوبا کے فیڈل کاسترو سے ملاقات کی اور ان کی حمایت کی اور لیبیا کے معمر قذافی سے ملے اور ان کی حمایت کی جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق ان کا انسانی آزادیوں کا ریکارڈ بہت خراب ہے۔ تو کیا یہ آپ کے انسانی آزادیوں کے ہیرو ہیں، اور کیا آپ ان میں سے کسی ایک کو جنوبی افریقہ کا اگلا صدر بنانا چاہیں گے؟ ”۔

ایک بڑے ملک میں پلا بڑھا، خبط عظمت کا مارا ہوا ترم خان سیاسی تجزیہ نگار اپنے تئیں یہ سمجھ رہا تھا کہ ایک افریقی ملک کے بوڑھے رہنما کو اس نے بری طرح گھیر لیا ہے۔ اور مرزا نوشہ اسداللہ خان غالب کے بقول‘ تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے ’کے مصداق امریکی سیاسی مبصرین نے اس کا مقدور بھر انتظام بھی کیا ہوا تھا۔

مگر ان کو شاید یہ علم نہیں تھا کہ انتہائی اونچے خواب جینے والا، نسلی امتیاز اور انسانی حقوق کی خاطر ظلم کی بھٹی میں پک کر کندن بن جانے والا یہ بوڑھا رہنما اب لافانی ہو چکا ہے۔ منڈیلا اپنے دائمی وقار اور متانت کے ساتھ یوں گویا ہوا“ ایک سیاسی مبصر کی بنیادی غلطیوں میں سے ایک، یہ سوچنا ہے کہ ان کے دشمنوں کو ہمارے دشمن ہونا چاہیے۔ کسی بھی ملک کے بارے میں ہمارا رویہ ہماری جدوجہد کے بارے میں اس ملک کے رویے سے طے ہوتا ہے نا کہ کسی تیسرے ملک کی پسند اور نا پسند سے۔”

اور پھر کتنی ہی دیر نیویارک کا ٹاؤن ہال تالیوں سے گونجتا رہا منڈیلا کے اعزاز میں منعقدہ اس تقریب میں منڈیلا سے امریکنوں نے بہت سخت سوالات کیے اور منڈیلا کو نیچا دکھانے کے لئے کیے، لیکن امریکنوں کی منصوبہ بندی کے سامنے منڈیلا کی ہمالیائی استقامت اور دائمی وقار نے‘ نیلسن مدیبا منڈیلا ’کو ساری دنیا کے سامنے اور اونچا اور باوقار کر دیا۔

اس عظیم رہنما نے قوموں کی تقدیر بدلنے کا خواب دیکھنے والوں کے لیے دس رہنما اصول وضع کیے جو اپنے قارئین کے لئے پیش خدمت ہیں۔

پہلا اصول احترام باہمی
دوسرا بے مثال استقامت
تیسرا وقت کا بہترین استعمال
چوتھا غیر مرعوب رویہ
پانچواں عاجزی
چھٹا بڑے اور عظیم خواب
ساتواں تاریخ سے سیکھنا
آٹھواں جذبات پر قابو
نواں مقصد کے لیے جان تک قربان کرنے کا جذبہ
اور
دسواں کامیابی کا پختہ یقین

دوستو اس عظیم ترین رہنما نے یہ دس اصول اپنی ساری زندگی جی کر دکھائے آئے اور آج ’منڈیلا مدیبا‘ کامیابی، استقامت اور انسانی حقوق کا استعارہ ہیں۔ ان دس اصولوں میں بھی سب سے پہلا اصول احترام باہمی ہے۔ ’نیلسن منڈیلا مدیبا‘ نے ٹاؤن ہال کی اسی نشست میں یہ بھی فرمایا تھا کہ ”اگر آپ موقع اور وقت کے ساتھ اپنے نظریات بدلتے رہتے ہیں تو آپ کسی قوم کے رہنما نہیں بن سکتے۔“

محمد سجاد آہیر xxx

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد سجاد آہیر xxx

محمد سجاد آ ہیر تعلیم، تدریس اور تحقیق کے شعبے سے ہیں۔ سوچنے، اور سوال کرنے کا عارضہ لاحق ہے۔ بیماری پرانی مرض لاعلاج اور پرہیز سے بیزاری ہے۔ غلام قوموں کی آزادیوں کے خواب دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔

muhammad-sajjad-aheer has 38 posts and counting.See all posts by muhammad-sajjad-aheer

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments