محمد اکرم ڈوگر : اپنی مثال آپ


کمال کا مزاج کہ اگر ایک دفعہ بھی کسی سے مکالمہ ہو جائے تو ملنے والا یہ تاثر لیے بغیر نہ رہ سکے کہ ”بات تو ٹھیک ہے“

یہ الگ بات کہ دیے گئے دلائل، مخالف کے خیالات اور تصورات سے یکسر مختلف ہوں۔ ایسا شاید اس لئے ممکن ہوتا کہ جب بات کی، پوری سچائی سے، ریاکاری کے بغیر، خلوص دل سے اور اس جذبے کے ساتھ کہ مقابل مجھ سے متاثر ہو نہ ہو، اپنا شعور استعمال کرتے ہوئے، بس حقیقت کو جان سکے اور معاملے کو صحیح تناظر میں دیکھ سکے۔ اسی مشن کو لے کر ہر محفل، ہر نشست، ہر بیٹھک اور ہر اجتماع، جہاں شرکت کی، اپنا نقطہ نظر، پورے جوش و خروش اور دیانت داری سے پیش کیا۔

مختصراً ، اگر اس شخصیت کو الفاظ میں بیان کرنا ہو تو اسے سادگی، معصومیت، خلوص، ذہانت، سنجیدگی، اور صاف گوئی کا مجموعہ کہا جاسکتا ہے۔ یہ خصوصیات اس قدر خالص انداز سے کارفرما تھیں کہ احباب کو یہ خدشہ ہمیشہ لاحق رہتا تھا کہ کسی سنجیدہ موضوع پر ہونے والی بے لاگ گفتگو میں، جانے کب، کون صاف گوئی کا ہدف ہو جائے کہ اس راہ میں دوستی اور تعلق اپنی جگہ، مگر اس بنا، رعایت کی کوئی گنجائش نہیں۔ جھکاؤ، جانب داری، اور ملمع کاری، یہ الفاظ اس ڈکشنری میں موجود نہ تھے جو وہاں استعمال میں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر خاص و عام اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ اگر کوئی بات اس طرف سے کہی گئی ہے تو وہ یقیناً مستند، معتبر اور ماننے والی ہو گی۔

عام گفتگو ہو یا خاص تبادلہ خیال، دلائل اور منطق ایسی کہ سننے والا قائل ہونے پر آمادہ نظر آئے۔ اسی سبب سیاست، ادب اور ثقافت کے سرگرم شہسوار بھی اپنی رائے سازی کے لئے اس موجودگی سے باتوں باتوں میں موتی سمیٹنا چاہیں۔ ان میں وہ بھی شامل ہوتے جو ہم خیال تھے اور وہ بھی جو علیحدہ نقطہ نظر کے مالک تھے۔ دونوں فریق اس یقین اور اعتماد کے ساتھ شامل گفتگو ہونے کے خواہش مند ہوتے کہ اس محفل میں جو موضوع بھی زیر بحث ہو، کوئی حقیقت پسندانہ اور مدلل بات ہی سننے کو ملے گی۔ اسے کتابوں اور اہل علم سے مسلسل رابطہ رکھنے اور ذہنی کثرت کا نتیجہ کہیں یا دانش کا ٹھہراؤ کہ بات چیت، ہر دو فریق کو ہمیشہ متاثر کن دکھائی دیتی۔

کتابوں سے ایسا ربط کہ اگر کسی دن ورق گردانی نہ کی تو کوئی غیر حاضری کا الزام نہ دھر دے۔ اسی طرح اچھی کتابوں کی تلاش ایک نہ ختم ہونے والی خواہش کی طرح ہمیشہ ہر کام پر افضل رہی۔ جہاں اور جب اس تلاش میں کسی نئی دریافت کا سامنا ہوا، اسے کبھی خود تک محدود نہ رکھا اور سارے احباب کو اس میں شریک کیا کہ کہیں کوئی اس نعمت سے محروم نہ رہ جائے۔

ایک مقام وہ بھی آیا کہ بلدیاتی نظام کا حصہ بنے مگر عملی اور عقلی اعتبار سے معاشرتی چلن کی بعض روایات کا حصہ بننے سے احتراز کیا اور متعلقہ تمام حلقوں میں منادی کرا دی کہ صرف ان چیزوں کی حمایت ہوگی جو درست، مناسب اور حق بہ جانب ہوں گی۔ اس طرح غیر معمولی طور پر اور عام ڈگر سے ہٹ کر، اپنی صفوں سے، جہاں محسوس ہوا، کھل کر اختلاف بھی کیا اور اپنے مخالفوں کی صحیح باتوں پر جہاں دل نے تائید کی، انھیں جی کھول داد بھی دی۔ گویا دل اور ذہن جس نکتے پر متفق ہو جائیں، اس پر کسی بھی حالت میں کبھی سمجھوتہ نہ کرنے کی ٹھان لی۔

ذہنی آزادی کا یہی رجحان ملازمت میں بھی حائل ہوا۔ ایسے آزاد منش انسان کو، نو بجے سے پانچ بجے کی پابندی میں، ایک ہی مقام پر قید کرنا سراسر پر کاٹنے کے مترادف تھا۔ سو مختصر عرصہ معاشرتی دباؤ میں اپنی ایم اے صحافت کی ڈگری کے حوالے سے، ایک اخبار میں رہ کر یہ تجربہ بھی کیا اور شدید ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ سیلانی کے لئے ٹھہرنا تو جیسے، زندگی سے کنارا کشی ہوئی۔ سو ہمیشہ آزاد فضاؤں میں ہی پرواز کی۔ مگر یہ پرواز کبھی تنہا نہ رہی کہ دوست بنانا اور دوستی نبھانا عادت ثانیہ بن چکا تھا۔ فیصل آباد شہر سے دور، اور موٹر وے سے قریب، زمین خریدنے اور اس حوالے سے اس کی منصوبہ بندی میں خوشی اور طمانیت کا نمایاں پہلو یہ تھا کہ اب جو دوست یا دوستوں کے دوست، دوسرے شہروں سے آئیں گے، وہ پہلے یہاں پڑاؤ ڈالیں گے، پھر انھیں شہر کے اندر لایا جائے گا۔

یہ دوستانہ آرزو ہمیشہ کے لئے تشنہ رہ گئی کہ کون جانتا ہے کہ کس کے کوچ کا وقت، کب مقرر ہے۔
محمد اکرم ڈوگر زندگی کے کارواں سے مئی 2020 میں جدا ہوئے
20 فروری ان کی سالگرہ کا دن ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments