حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دلچسپ فیصلے


شیر خدا حضرت سیدنا علی المرتضی ؓ کی ذہانت اور انصاف پر مبنی فیصلے پورے عرب میں مشہور تھے اسی لئے مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے

لوگ بھی اپنے تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لئے حضرت علی ؓ سے رجوع کیا کرتے تھے۔ آپؓ اپنے علم و فراست سے جب کوئی فیصلہ سناتے تو لوگ اس فیصلے کو دل سے قبول کرلیتے کیونکہ آپؓ ہمیشہ عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ اس دور میں آپؓ نے علم ریاضی کے حوالے سے ایسے ایسے تاریخی فیصلے کیے کہ بڑے بڑے ریاضی دان ان فیصلوں پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔

ایک مرتبہ تین آدمیوں میں سترہ اونٹوں کی تقسیم پر جھگڑا ہو گیا وہ انصاف پر مبنی فیصلہ کروانے کے لئے حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مسئلہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ”ہمارے پاس 17 اونٹ ہیں جس میں سے ایک کا حصہ کل اونٹوں کا آدھا ( 1 / 2 ) ہے جبکہ دوسرے کا حصہ تہائی ( 1 / 3 ) اور تیسرے کا کل اونٹوں کا نواں حصہ ( 1 / 9 ) بنتا ہے، اگر اونٹوں کو ذبح کر کے تقسیم کیا گیا تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا اس لئے آپؓ کوئی ایسی تدبیر بتا دیں کہ اونٹ ذبح کیے بغیر ہمارے درمیان تقسیم ہوجائیں اور ہمارا آپس کا جھگڑا ختم ہو جائے۔

“ حضرت علی ؓ نے ان تینوں کی بات سننے کے بعد بیت المال سے ایک اونٹ منگوایا اور ان 17 اونٹوں میں شامل کر دیا، اب اونٹوں کی کل تعداد 18 ہو گئی تھی، آپ ؓ نے بتائے گئے حصوں کے مطابق اونٹوں کی تقسیم شروع کردی۔ آپؓ نے پہلے شخص، جس کا حصہ تمام اونٹوں میں آدھا تھا اسے 18 اونٹوں کے آدھے اونٹ یعنی 9 اونٹ دے دیے، اس کے بعد آپؓ نے دوسرے شخص جس کا حصہ تہائی بنتا تھا اسے 18 اونٹوں کا تہائی یعنی 6 اونٹ دے دیے اور پھر آخر میں آپؓ نے تیسرے شخص جس کا حصہ کل اونٹوں میں سے نواں بنتا تھا اسے 18 اونٹوں کا نواں حصہ یعنی 2 اونٹ دے دیے۔ اس طرح آپ ؓ اپنی ذہانت اور دانشمندی سے تینوں آدمیوں میں بالترتیب پہلے کو 9، دوسرے کو 6 اور تیسرے کو 2 اونٹ جن کا کل 17 بنتا ہے، بغیر کاٹے تقسیم کر دیے جبکہ ایک اونٹ جو بیت المال سے منگوایا گیا تھا، اسے واپس بیت المال بھجوا دیا گیا۔ (خلفائے راشدین، ص: 126 ملخصاً)

حضرت علی ؓ کے عدل و انصاف کا ایک اور دلچسپ واقعہ بہت مشہور ہے۔ دو شخص سفر پر نکلے ہوئے تھے، کھانا کھانے کے لئے کسی جگہ پر اکٹھے بیٹھ گئے۔ ایک کے پاس 5 روٹیاں اور دوسرے کے پاس 3 روٹیاں تھیں۔ اسی دوران وہاں سے ایک تیسرے شخص کا گزر ہوا۔ دونوں نے اس تیسرے شخص کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور مل کر روٹیاں کھانے لگے، کھانے کے بعد تیسرا شخص وہاں سے جاتے ہوئے دونوں کو روٹی کی قیمت کے طور پر آٹھ درہم دے گیا۔ اب ان دونوں میں آٹھ درہم کی تقسیم پر جھگڑا شروع ہو گیا۔

جس کے پاس پانچ روٹیاں تھیں اس کا کہنا تھا کہ روٹی کے حساب سے اس کے پانچ درہم اور دوسرے کے تین درہم بنتے ہیں جبکہ دو سرا جس کے پاس تین روٹیاں تھیں وہ آٹھ درہم برابر تقسیم کرنے پر بضد تھا۔ آخر کار دونوں یہ معاملہ لے کر حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ آپؓ نے ساری بات سننے کے بعد تین روٹی رکھنے والے شخص سے فرمایا ”تمہارا ساتھی جو تمہیں دے رہا ہے اسے قبول کرلو کیونکہ انصاف کے مطابق تمھارے حصہ میں صرف ایک درہم آتا ہے۔

“ یہ سن کر وہ شخص حیران ہو گیا اور عرض کیا ”آپؓ مجھے سمجھا دیں کہ کیسے میرا حق صرف ایک درہم بنتا ہے؟“ آپؓ نے فرمایا کہ ”روٹیوں کی کل تعداد آٹھ تھی اور کھانے والے تم تین آدمی تھے، اگر ایک روٹی کے تین ٹکڑے کیے جائیں تو 8 روٹیوں کے کل 24 ٹکڑے بنتے ہیں جو تینوں میں برابر تقسیم کریں تو ہر ایک کے حصہ میں آٹھ روٹی کے ٹکڑے آتے ہیں، تم نے اپنی 3 روٹیوں کے 9 ٹکڑوں میں سے 8 ٹکڑے کھا لئے اور باقی ایک ٹکڑا بچا جبکہ تمہارے ساتھی نے اپنی 5 روٹیوں کے 15 ٹکڑوں میں سے 8 ٹکڑے کھائے تو باقی 7 ٹکڑے بچے، اس طرح تیسرے شخص نے تمہاری روٹیوں میں سے ایک ٹکڑا کھایا اور تمہارے ساتھی کی روٹیوں میں سے 7 ٹکڑے کھائے لہذاء انصاف کے مطابق تمھارا ایک درہم اور تمہارے ساتھی کے 7 درہم بنتے ہیں۔“ اس منصفانہ تقسیم پر دونوں متفق ہو گئے اور پانچ روٹی والے نے سات درہم اور تین روٹی والے نے ایک درہم لے لیا۔ (استیعاب، 3 / 207 ملخصاً)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments