انسان کو بوڑھا ہونے دیں مگر انسانیت کو ضعیف نہیں


اللہ کی تمام مخلوقات میں سب سے افضل، جسے اشرف المخلوقات کہا گیا ہے، اگر گرنے پر آئے تو درندہ بن جائے اور مقصد حیات کو پا لے تو ولی کہلائے، جس کے مقام کو حالی صاحب نے بہت خوبصورتی سے بیان فرمایا ہے :

فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

دراصل ہر چلتا پھرتا وجود آدمی تو ہے لیکن انسان نہیں، انسان ہونا ایک اعزاز ہے جس کے لئے شرط ہے کہ وجود کے اندر انسانیت ہو۔ اگر دل میں کسی کا درد نہیں، روح میں دوسرے کی تڑپ نہیں، مخلوق خدا کی تکلیف کا احساس نہیں، دوسروں کی خوشی میں خوش ہونا نہیں آتا تو وہ آدمی تو ہے لیکن انسان نہیں۔

آئیے اب بنی آدم کی دونوں اقسام کو ان اشعار میں بھی دیکھ لیتے ہیں
انسان کی عظمت کو ترازو میں نہ تولو
انسان تو ہر دور میں انمول رہا ہے
یا پھر شاعر نے انسانیت سے خالی وجود کے بارے میں خوب کہا
جنگل میں سانپ شہر میں بستے ہیں آدمی
سانپوں سے بچ کے آئیں تو ڈستے ہیں آدمی

ہر گزرتا لمحہ موت کی طرف ایک قدم ہے، وہ موت جو ایک نئی زندگی کی ابتداء ہے، ایک کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی، کیا ہم اس کے لئے تیار ہیں؟

زیادہ تر کا جواب ہو گا ”نہیں“ ، کیونکہ ابھی تو ہمیں آدمی سے انسان بننا ہے، آج رہنے دیں، کل توبہ کر لیں گے، ایسا کل جو کسی نے دیکھا ہی نہیں۔ جیسے بزرگی کے لئے بزرگ ہونا ضروری نہیں اسی طرح ہر کسی کا بڑھاپے تک پہنچنا بھی ضروری نہیں، قبرستان شیر خوار سے لے کر بوڑھے تک سب سے بھرے پڑے ہیں، کس کی باری کب آ جائے کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ کی ذات کے۔

گزرتے وقت کو روک لینا یا بڑھاپے کو آنے سے روک کر جوانی کو مستقل کر لینا تو کسی کے اختیار میں نہیں لیکن انسان بن کر انسانیت کو جوان رکھنا ہمارے بس میں ہے۔ انسانیت کو کبھی نہ مرنے دیں، امر ہو جائیں گے۔

اللہ تعالی نے ہر بشر کو اس کا وجود اتنا مکمل اور جدا عطا کیا ہے کہ ہر کوئی اپنے اندر ایک الگ دنیا رکھتا ہے، تخلیق کائنات کا محور جس کی ہر ہنسی کے پیچھے دکھ اور ہر غم کے بعد خوشی رکھ دی گئی ہے، جسے دے کر بھی آزمایا جاتا ہے اور لے کر بھی جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا

”اور ہم تمہیں برائی اور بھلائی سے آزمانے کے لیے جانچتے ہیں“ الانبیا 35

اصل امتحاں ہے جب تکلیف میں مسکرایا جائے اور رب کی مصلحتوں پر نہ صرف صبر کیا جائے بلکہ شکر بجا لایا جائے کیونکہ وہ اپنے پسندیدہ بندوں کو زیادہ آزماتا ہے۔

ہر مسکراتا چہرہ اپنے اندر ایک الگ غم سموئے ہے۔ یہ عارضی زندگی ایک ایسا امتحانی مرکز ہے جہاں ابدی زندگی کے لئے جانچا جاتا ہے اور تیار کیا جاتا ہے۔

اولاد آدم کے لئے زندگی کی حقیقتوں سے نہ بچنا ممکن ہے اور نہ انکار کرنا، چاہے وہ حقیقتیں مشکلات کی شکل میں آشکار ہوں یا آسانیوں کی صورت میں نمودار ہوں، صبر اور شکر ہر حال میں لازم ہے۔

رشتوں کو زنگ لگنے سے بچائیں۔ خود غرضی کو درمیان میں نہ آنے دیں۔ رشتے پیار کے لئے ہوتے ہیں استعمال کے لئے نہیں۔ اس مادی دنیا میں مادہ پرستی نے رشتوں کو بہت کمزور کر دیا ہے۔ اپنی زندگی میں سے ”میں“ کو نکال دیں، رشتے ترو تازہ ہو جائیں گے، بولتے وقت ضرور سوچیں کہ الفاظ کو ادا کرتے ہوئے ہم رشتوں اور ان پر اعتماد کو کمزور تو نہیں کر رہے ہیں۔ محبت میں دکھاوے سے پرہیز کیجئے، منافقت کو زندگی سے نکال دیں، رشتوں کو دھوکہ نہ دیں، جیسا کھلی آنکھوں کے سامنے ویسا ہی روپ آنکھ سے اوجھل ہونے پر ہو۔ محسنوں کو یاد رکھیں اور مکافات عمل کے لئے تیار رہیں۔

انسانیت کا درس یہی ہے، اپنے غموں پر صبر و شکر کے ساتھ مخلوق خدا کے غموں کو بانٹیں۔
ہر کسی کے لئے آرام کا باعث بنیں اور انسانیت کو کبھی ضعیف نہ ہونے دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments