زبانوں کے عالمی دن پر


فیس بک نئی نئی آئی تو اس پر نوے فی صد مواد انگریزی میں ہوتا تھا۔ کیونکہ اس وقت فیس بک پر تمام دنیا کا مواد بلا تخصیص ہر وال پر شو ہوتا تھا۔ اے آئی اتنی ترقی یافتہ نہیں ہوئی تھی اور لوگ فیس بک پر لکھنا لکھانا بھی شروع نہیں ہوئے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ کمیونٹیاں وجود میں آئیں۔ ہر ملک، علاقے اور مخصوص طبقات کو صرف ان کا متعلقہ مواد دکھایا جانے لگا۔ ہر ملک کے لوگوں میں اپنی اپنی زبانوں میں لکھنے کا رواج ہوا۔ اس زمانے میں ”تحریک اردو“ نام کا ایک پیج وجود میں آیا۔

اس کے بانی کا مشن تھا کہ اردو کو خالص ترین اور اصلی شکل میں رائج کیا جائے۔ ان صاحب کے نزدیک اردو کی تعریف کچھ یوں تھی۔

اردو= 40 فی صد عربی+ 40 فی صد فارسی + 10 فی صد ہندی + 10 فی صد ترکی۔

اس کے علاوہ وہ تمام زبانوں کے الفاظ کو خارج از اردو سمجھتے تھے اسے بیرونی تہذیبوں سے اثرات سے پاک کرنا چاہتے تھے۔

کی بورڈ کو کلیدی تختہ کہتے تھے اور ٹچ سکرین کو ”شیشہ ء لمس“ ۔

بہر حال ہم کسی کی کھوپڑی میں اپنا دماغ فی زمانہ تو نہیں ڈال سکتے۔ لہذا ان کی لمبی لمبی پوسٹیں پڑھ کر خاموش ہو جاتے۔ پھر فیس بک نے ان کا پیج بند کر دیا اور ساتھ ہی ان کی تحریک بھی بند ہو گئی۔

اب ایک محترمہ ملیحہ ساجد منظر عام پر آئی ہیں۔ جنہوں نے سندھی زبان کو اس کے ”اصلی“ رسم الخط میں رائج کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔

یہ فرماتی ہیں کہ سندھی کا موجودہ رسم الخط بیرونی حملہ آور تہذیبوں کی نشانی ہے۔ ”اصلی“ سندھی رسم الخط یہ ہے جو موہنجو داڑو کے زمانے کا ہے اور اس مقصد کے لئے انہوں نے اس رسم الخط کے حروف کو انٹرنیٹ پر بھی لوڈ کروایا ہے کہ اسی میں لکھیں۔

موہنجو دڑو کی تہذیب آج سے پانچ ہزار سال قبل کی تہذیب تھی۔ قابل غور امر یہ ہے کہ موہنجو دڑو والے کیا ٹنڈو اللہ یار کے کسی اندھے کنویں میں سے نمودار ہوئے تھے؟

وہ بھی تو کہیں نا کہیں سے آئے تھے کہ نہیں؟ تو بھئی وہ رسم الخط پھر ”خالص“ کیسے ہو گیا؟

رہی بات بیرونی حملہ آوروں کی تو بھئی ہر بیرونی حملہ آور اپنے ساتھ اپنی ”سوغاتیں“ لاتا ہے۔ جیسے آریہ سنسکرت لائے تھے۔ سنسکرت کے معنی ”پوتر“ یعنی ”خالص“ کے ہیں۔ بھئی کہاں سے خالص ہو گئی؟

آویستا اور رگ ویدا کی زبان میں آدھے سے زائد الفاظ مشترک ہیں جن کی جڑیں روسی اور سائبیرین بولیوں سے جا ملتی ہیں۔

خالص زبان کا اس دنیا میں کوئی وجود نہیں ہے۔ دنیا کی ہر زبان مختلف بولیوں، لہجوں اور زبانوں کا ملغوبہ ہیں۔ ایک وقت میں رائج زبانوں میں تبدل ہوتے ہوتے یہ بالکل مختلف اور نئی زبانوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور پرانی زبانیں مردہ ہوجاتی ہیں۔

دنیا میں فقط ایک زبان خالص ہے اور وہ ریاضی کی زبان ہے۔
کوئی بھی زبان اپنی قدیم حالت میں برقرار نہیں رہ سکتی۔

ہم آپ جس زبان، محاوروں اور لہجوں میں بات کر رہے ہیں آگے آنے والوں کے لئے یہی زبان قدیم اردو ہو جائے گی اور بگڑتے بگڑتے کسی اور زبان کا روپ دھار لے گی۔ جیسے ہمارے لئے اردو کی اولین تحریروں میں سے ایک پیراگراف پڑھنا بھی ایک مشکل امر ہے۔ ایسے ہی آنے والے ہماری تحریروں پر ہنسیں گے۔

شیخ غلام ہمدانی مصحفی کا ایک مصرعہ جسے اس زمانے میں شاہی دربار سے باقاعدہ ایوارڈ ملا تھا ملاحظہ فرمائیں۔

”واللہ تو شاعر نہیں بھانڈ ہے بھڑوے“

یہ انہوں نے سید انشا اللہ خاں انشا کی ہجو میں کہا تھا۔ اس وقت کی زبان و ادب کا شاہکار تھا۔ کیا آج ہم اردو کی علمی و ادبی تحاریر میں یہ زبان استعمال کرتے ہیں؟

فقط تغیر کو زمانے میں ثبات ہے۔

زبان کے زندہ رہنے کے لئے ایک خاص زمانہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس میں آمیزش آنا شروع ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ہر آنے والی نسل کے ساتھ دنیا میں نئے خیالات کا ظہور ہو رہا ہے۔ نئے الفاظ جنم لے رہے ہیں۔ ہم اسے نہیں روک سکتے۔ سرائیکی زبان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

تاریخی اعتبار سے سرائیکی زبان کا ظہور سندھی اور پنجابی کے ملاپ سے ہوا۔ اب اس میں آمیزش آ رہی ہے۔ دیگر زبانوں کے الفاظ شامل ہو رہے ہیں۔

اسرائیل نے پشت و گردن کا زور لگا کر عبرانی زندہ کی۔ فقط تیس فی صد زندہ کر پائے۔ باقی ستر فی صد قدیم عبرانی کوئی مائی کا لال نہ پڑھ سکتا ہے نہ معنی جانتا ہے۔ جو تیس فی صد زندہ کی تھی اس میں سے ایک عام اسرائیلی 5 فی صد بھی معیاری عبرانی نہیں بولتا۔ سب ایسے عبرانی بولتے ہیں جیسے ہم پنجابی مکس اردو، سندھی مکس اردو، پختو مکس اردو اور انگریزی مکس اردو بولتے ہیں۔ وہ بھی عربی مکس عبرانی بولتے ہیں جو عربی سے ملتی جلتی ہے۔ اگر غور سے سنیں تو دونوں میں فقط اتنا فرق ہے جتنا سندھی و سرائیکی میں۔

سٹیٹ آف اسرائیل کا نام عبرانی میں ”مدینة اسرائیل“ ہے۔
اب بتائیں عربی نام لگتا ہے کہ نہیں لگتا؟

دنیا میں مردہ زبانوں کی فہرست میں سنسکرت کا نام آیا تو ہمسائے بھارت کو اوبلا چوبلی لگ گئی (ابلا چوبلی کا ترجمہ ناممکن ہے کہ یہ میری مادری زبان انبالوی کا لفظ ہے جس کے دو مفاہیم یہ ہیں۔ ایک تو بچے کی پیٹ کے کیڑوں کے باعث مقعد کے مقام ہر ہونے والی خارش سے اچھل کود، دوسرا آپ اسے ہڑک اٹھنا بھی کہہ سکتے ہیں )

ہمسائے کا موقف تھا کہ سنسکرت کی مرتیو اسم بھو ہے اسے جیوت کرنا ہو گا۔ بس سارا مذہبی لٹریچر کھنگال کر عبرانی کی طرز پر از سر نو زبان کو ترتیب دیا۔ کالی داس سمیت چند بڑے نام اور ان کا کام پاتال لوک سے کھود کر نکالا۔ پنڈت اور مہا پنڈت سر جوڑ کر بیٹھے تو وہی ڈھاک کے تین پات ہاتھ آئے۔ ستر فی صد ناقابل فہم بقیہ تیس فی صد کو رائج کیا۔ یونیورسٹیوں میں ایم فل پی ایچ ڈی کی ڈگری متعارف کرائی۔ اب کہتا ہے میرے پاس باقاعدہ دو ہزار سنسکرت کا سپیکر ہے۔

زبانوں کے عالمی ماہرین و مبصرین اس دعوے کی تصدیق کرنے تشریف لے گئے تو پتا چلا کہ وہ دنیا کے واحد دو ہزار سپیکر ہیں جن کی مادری زبانیں تامل، تیلوگو، ملیالم، ہریانوی، پنجابی اور راجستھانی ہیں۔ بولتے وہ ہندی/ اردو ہیں۔ صرف سنسکرت پڑھ سکتے ہیں۔ سمجھ سکتے ہیں اور بول سکتے ہیں۔ اور بولتے بھی ایسے ہیں جیسے میں انگریزی بولتا ہوں۔ یعنی آآآآآآا، یو نو، آئی مین، آآآآآآآا، ایکچوئلی، بیسیکلی، دس از کالڈ، آئی ایم گوئنگ ٹو سکول۔ ۔ وغیرہ۔

بس نام لکھوانا تھا زندہ زبانوں میں وہ عبرانی کی طرح انہوں لکھوا دیا۔

قدیم زبانوں کی حفاظت ”آثار قدیمہ“ کی طرح قدیم کتابوں، عجائب گھروں اور مذہبی اور قدیم تصانیف یا پیٹنگز کے فن پاروں کی صورت میں تو ہو سکتی ہے روزمرہ بول چال کی صورت میں نہیں۔

”ذمہ واری“ سے کہہ رہا ہوں۔
محمدعلی افضل۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments