اسلاموفوبیا۔ ایک ہتھیار


وکی پیڈیا، پی ای ڈبلیو اور دیگر شماریاتی اداروں کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق 19 صدی کے بعد سے بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کی آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ سال 2015 ء کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں اسلام کے ماننے والوں کی تعداد 1.8 ارب ہے جو تقریباً کل آبادی کا 24 فیصد ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق جس رفتار سے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے تو سال 2070 ء تک مسلمانوں کی آبادی دنیا بھر کے مسیحیوں سے زیادہ ہو جائے گی۔

مسلمانوں کی 62 فیصد آبادی ایشیائی ممالک جن میں انڈونیشیا، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، ایران اور ترکی میں مقیم ہے، جبکہ 22 % مسلمان عرب ریاستوں میں رہتے ہیں جہاں سے اسلام کا آغاز ہوا۔ صرف یہی نہیں بلکہ یورپ اور امریکہ میں جس طرح اسلام پھیل رہا ہے۔ پی ای ڈبلیو ریسرچ اسٹڈی کے مطابق آئندہ دو دہائیوں تک اسلام امریکہ کا دوسرا بڑا مذہب بن جائے گا۔ اسی طرح دیگر یورپی ممالک میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے اس کے مطابق فرانس اور جرمنی میں مسلمانوں کی بڑی آبادی مقیم ہے اور دیگر ممالک سے یورپی ممالک میں مسلمان تیزی سے ہجرت کر کے منتقل ہو رہے ہیں۔

یورپی ممالک کی ایک تحقیق کے مطابق 1990 ء سے بین الاقوامی امیگریشن میں سے نوے فی صد مسلمان یورپی ممالک میں آباد ہوئے ہیں۔ فرانس کے مسیحی گھرانوں میں تقریباً دو بچے پیدا کیے جاتے ہیں جبکہ وہیں رہنے والے مسلمان گھرانوں میں آٹھ بچے پیدا کرنے کی روایت ہے۔ شمالی فرانس میں جہاں کبھی چرچز کی تعداد زیادہ ہوا کرتی تھی اب وہاں مساجد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ وہاں رہنے والے نوجوانوں ( 20 سال یا اس سے کم عمر) میں سے 30 فیصد نوجوان مسلمان ہیں جبکہ بڑے شہروں میں تناسب 45 فیصد تک بھی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ 2025 ء تک فرانس میں ہر پانچواں شخص مسلمان ہو گا اور اگر تعداد اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو آئندہ صرف 40 سال بعد فرانس اسلامی ملک بن جائے گا۔ گزشتہ صرف تیس سال کے دوران برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی 82000 سے بڑھ کر 25 لاکھ تک ہو گئی ہے۔ اور صرف برطانیہ میں ایک ہزار سے زائد مساجد بن گئی ہیں، کہا جاتا ہے کہ چرچز کی بڑی تعداد مساجد میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ ہالینڈ میں پچاس فیصد نئے پیدا ہونے والے بچے مسلمان ہیں اور اس تناسب سے آئندہ 15 سال میں ہالینڈ میں مسلمانوں کی آبادی کل آبادی کا پچاس فیصد ہو جائے گی۔

روس میں 23 ملین مسلمان آباد ہیں۔ بیلجیم میں مسلمانوں کی آبادی 25 فیصد ہے اور تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بیلجیم میں حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق یورپ کا ہر تیسرا شخص مسلمان ہے۔ جرمنی کے اعداد و شمار کے مطابق جس تیزی سے اسلام کے ماننے والوں میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے بعد 2050 ء تک جرمنی بھی اسلامی ملک بن سکتا ہے۔ جس قدر تیزی سے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہے اسی طرح مسلمان یورپ، امریکہ اور دیگر ممالک میں اپنے حقوق کے لئے تقاضا کر رہے ہیں اور اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں پر حقوق کے لئے دباؤ بڑھا رہے ہیں۔

ادھر ہمارے وزیر اعظم صاحب اپنی فوج ظفر موج سمیت دنیا میں اسلاموفوبیا کا نعرہ لگا کر عوام کی ہمدردیاں بٹورنے میں مصروف عمل ہیں قطع نظر کہ ملک کے اندر دیگر عقائد کے ماننے والوں پر کیا گزرتی ہے۔ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے عوام کی سوچ کو محدود کر دیا جاتا ہے اور اس کام کے لیے صرف عمران خان ہی نہیں دیگر حکمران مختلف حربے استعمال کرتے رہے ہیں۔ حکمران اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے مذہب کا کارڈ استعمال کرتے ہیں۔

موجودہ حکمران اسلاموفوبیا کو نعرہ اور ریاست مدینہ کا تصور پیش کر کے عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اسلام کے نام پر سابق فوجی حکمران جنرل ضیا الحق نے گیارہ سال تک اقتدار پر قبضہ جمائے رکھا اور اس کے فیصلوں کی سزا ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ عام آدمی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے اس قدر محروم ہو چکا ہے کہ اسے کسی دوسرے تو کیا اپنی زندگی کی فکر نہیں ہوتی۔ مندرجہ بالا اعداد و شمار کے بعد بھی یہ کہا جائے تو کیا یہ منافقت نہیں تو کیا ہے؟

دنیا کے مسیحی ممالک میں جہاں مساجد او ر مدارس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے وہیں پاکستان میں دیگر عقائد کے ماننے والوں کی عبادت گاہوں کی غیر علانیہ ممانعت ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں ایک نئے مندر کی تعمیر کی بات پر جو ہنگامہ برپا کیا گیا اس سے اندازہ لگائیں کہ اسلام کے ماننے والے مندر کی تعمیر سے کس قدر خوفزدہ ہیں۔ ایک طرف ترکی میں چرچ کو مسجد بنانے پر خوشیاں منانے والے بھارت میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

بھارت کی ریاست میں میں برقعہ پوش خاتون کی حمایت کرنے والوں نے پاکستان میں اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کو صرف بات کرنے پر گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا۔ دیگر ممالک میں اسلام کی تبلیغ سمیت حقوق کے دعویدار مسلم اکثریتی ممالک میں چرچز، مندر یا ہیکل کی تعمیر سے کیوں گھبراتے ہیں؟ حیرانی ہوتی ہے کہ محمد بن قاسم، محمود غزنوی کو ہیرو طیب اردگان کے فیصلے کو درست اور بھارتی ریاست کرناٹک کی لڑکی کی حمایت کرنے والے گورنر سلمان تاثیر کی مخالفت کیسے کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments