پاکستان میں عورت مارچ متنازع کیوں


علمی یوم خواتین، سب سے پہلے 28 فروری کو 1909 میں امریکا میں منایا گیا، پہلی عالمی خواتین کانفرنس 1910 میں کوپن ہیگن میں منعقد کی گئی، 8 مارچ 1913 کو یورپ بھر میں خواتین نے ریلیاں نکالیں اور پروگرام منعقد کیے اور اب برسوں سے 8 مارچ کو عالمی سطح پر یوم خواتین منایا جاتا ہے

یہ دن پاکستان میں بھی آٹھ مارچ کو منایا جاتا ہے لیکن اس میں بہت اختلافات سامنے آئے ہیں میری جسم میری مرضی، اور کئی طرح کے اور الفاظ اور جذبات سے منایا جاتا ہے۔ اس کے خلاف مذہبی جماعتوں کے عورتیں بھی یوم حیاء مناتی ہیں۔ کئی دن باقی ہیں لیکن ابھی سے ایک دوسرے کے خلاف تنقید ہو رہی ہیں۔ ہم نے پاکستان کو اسلام کے نام پر حاصل کیا ہیں آگر ہم اس رہنماؤں کے قربانیاں تسلیم کرتے ہیں تو یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ یہ قربانیاں کس لیے دی ہیں آگر واقعی اسلام کے لیے ہیں تو اس پر عمل کرنا ہو گا اسلام نے عورت کو جو حقوق دی ہے وہ کسی مذہب نے نہیں دی۔

وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے ’عورت مارچ‘ کے انعقاد کی اجازت نہ دینے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ عورت مارچ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مسئلہ حقوق نسواں سے زیادہ اسلامی نظام معاشرت سے ہے۔

وفاقی وزیر نے وزیر اعظم عمران خان کو لکھے گئے خط میں کہا کہ ہر سال عورتوں کے حقوق اور ان کے احترام کے عہد کو دہرانے کے لیے 8 مارچ کا دن ’یوم خواتین‘ کے طور پر منایا جاتا ہے جس میں حقوق نسواں کے علمبردار افراد اور ادارے خواتین کے حقوق کو بیان کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کو ختم کرنے کا عزم دوہراتے ہیں۔

نورالحق قادری نے تجویز دی کہ 8 مارچ 2022 کو ’بین الاقوامی یوم حجاب‘ کے طور پر منایا جائے اور دنیا بھر میں بسنے والی ان مسلمان خواتین سے یکجہتی کا اظہار کیا جائے جنہیں مذہبی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لیے سخت جدوجہد اور امتیازی حقوق کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس دن پر اقوام متحدہ کی توجہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمان خواتین کے ساتھ لباس پر روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کی جانب مبذول کرائی جائے اور ان سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ مسلمانوں کی مذہبی آزادی کا خیال رکھتے ہوئے ہندوستان کی حکومت سے اس امتیازی سلوک کو ختم کرائے۔

وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ خواتین کے عالمی دن پر جو چاہے عورت مارچ کرے یا حجاب مارچ کرے جمہوری مارچ کو روکنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی جماعتوں کی خواتین حجاب مارچ کر سکتی ہیں تو دیگر خواتین کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں خواتین مارچ کر سکتی ہے تو یہاں کیوں نہیں۔

ادھر چیئرمین پاکستان علماء کونسل و نمایندہ خصوصی وزیر اعظم پاکستان برائے بین المذاہب ہم آہنگی محمد طاہر محمود اشرفی، مولانا نعمان حاشر، وغیرہ نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں تمام اجتماعات جلوس، مارچ، کانفرنسوں کے لیے ضابطہ اخلاق مقرر ہے۔ عورت منتظمین بھی پابندی کریں گزشتہ سال عورت مارچ کے دوران جو زبان، بینرز، لہجہ استعمال کیا گیا وہ کسی صورت پاکستان اور اسلامی اقتدار کے مطابق نہیں تھا اور پاکستان اور آئین کے خلاف ورزی تھی۔ اور کہا کہ اس سال عورت مارچ کے منتظمین سے حکومت کو واضح طور پر یہ بات تسلیم کروانی چاہیے شریعت اسلامیہ، اور پاکستان کے عوام کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھیں گے۔ کہ وہ پاکستان کے آئین، آئیں پاکستان میں متفق ہو کر آئین اور شریعت کے اندر اور معاشرے کی اصلاح کے لیے ایک آواز ہو کر باطل کو شکست دے اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments