کراچی میں مجرموں کے آگے قانون بےبس کیوں


کراچی پاکستان کے شہروں میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر ہے۔ جہاں ملک بھر سے لوگ کراچی میں ملازمت کے لئے آتے ہیں وہیں کراچی کاروباری افراد کی توجہ کا بھی مرکز ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی رپورٹ کے مطابق اہالیان کراچی سالانہ 570ارب سے زائد کا ٹیکس دیتے ہیں۔ اس اعتبار سے حکومتوں کو کراچی پر سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے تھی اور اہالیان کراچی کو سب سے زیادہ سہولیات فراہم کرنا بھی اعلی ’حکام کی ذمہ داری تھی لیکن ہوا کچھ اور۔ بین الاقوامی جریدے نے کے مطابق کراچی دنیا رہائش کے اعتبار سے دنیا کے دس بدترین شہروں میں شامل ہے۔ کراچی کے خراب انفرا سٹرکچر، صحت کی ناقص صورتحال، تعلیم کی بدحالی اور ٹریفک کے دباؤ کے باعث کراچی دنیا کے بدترین شہروں میں شامل ہوا۔

کراچی میں جہاں سہولیات کا فقدان ہے وہیں اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں لوگوں کی جان اور مال بھی محفوظ نہیں۔ ڈاکو اور لٹیرے شہر کی گلیوں میں دندناتے پھرتے ہیں اور قانون ان کے آگے بے بس نظر آتا ہے۔ کبھی یہ ماں کے سامنے بیٹے کو گولی مار دیتے ہیں، کبھی کسی صحافی کو نشانے بنا دیتے ہیں اور کبھی کوئی عالم دین یا سیاستدان ان کی گولی کی رینج میں آ جاتا ہے۔ حکومت کسی کی بھی ہو قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ذمہ دار کوئی بھی ہو ہر بار دو چار پولیس اہلکاروں کو معطل کر کے انکوائری کمیٹی بنا کر معاملہ ٹھنڈا کر دیا جاتا ہے لیکن شہریوں کی حفاظت کے لئے عملی اقدامات نہیں کیے جاتے۔

گزشتہ 6 سال کے دوران 343 افراد ڈاکوں کے ہاتھوں اس شہر لاوارث میں جان کی بازی ہار گئے۔ 2021 میں ڈکیتی پر مزاحمت کے دوران 64 افراد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے جبکہ تین سو سے زائد زخمی ہوئے۔ جمعرات کی صبح کراچی کے علاقے بن قاسم میں کئی ڈاکووں نے ایک ساتھ گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی سی سی ٹی وی پر نظر پڑتے گھر کے مالک نے فائرنگ شروع کردی جس سے ایک ڈکیت موقعے پر ہی ہلاک ہو گیا۔ جمعہ کی صبح نجی ٹی وی چینل کے صحافی کراچی میں ڈاکووں کی گولی کا نشانہ بن گئے جنہیں اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ جنوری کی کرائم رپورٹ کے مطابق صرف ایک ماہ میں دو ہزار پانچ سو شہری موبائل فون سے محروم ہوئے۔ 180 کی گاڑیاں چوری ہوئی جبکہ 16 گاڑیاں اسلحے کے زور پر چھینی گئیں۔ چار ہزار تین سو شہری اپنی موٹر سائیکلوں سے محروم ہوئے۔

نواز شریف دور میں کراچی میں ایک منظم آپریشن کیا گیا تھا جس کے بعد شہر کے حالات خاصے بہتر ہو گئے تھے لیکن اب ایک بار پھر اسٹریٹ کرائم کا جن بے قابو ہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پولیس اور دیگر ادارے اسٹریٹ کریمنلز کے آگے بے بس ہیں یا کچھ کالی بھیڑیں مبینہ طور پر ان کا ساتھ دے رہی ہیں۔ کراچی میں شہریوں کا قتل ایک بار پھر معمول کی بات بنتا جا رہا ہے، شہر میں اغوا کے واقعات بھی رپورٹ ہو رہے ہیں۔ گو کے حالات ابھی ماضی کی دہائیوں جیسے نہیں ہوئے لیکن بہت تیزی سے حالات کا رخ اسی جانب گامزن ہے۔

اہالیان کراچی اپنے ٹیکس کے بدلے میں ہمیشہ خاموش ہی رہے ہیں، یہاں نہ انفرا سٹرکچر بہتر ہوا، نہ ہی ٹرانسپورٹ کے نظام میں بہتری آئی، قبضہ مافیا بھی شہریوں کو لوٹنے سے باز نہ آیا اور سیوریج پانی اور گیس کا نظام بھی بہتر نہ ہوا لیکن کیا اب ایک بار پھر شہری ماضی کی طرح غیر محفوظ ہوجائیں گے اور حکومت اس پر بھی کوئی ایکشن نہیں لے گی؟

تمام ہی سیاسی جماعتیں خود کو کراچی کا وارث اور نمائندہ سمجھتی ہیں لیکن افسوس کہ ان حالات پر اظہار افسوس اور مذمت کے بجائے ان جماعتوں سے کچھ نہ ہوسکا۔ حکومتی جماعتیں اپنے مطلب کے قوانین بھی بناتی ہیں اور بل بھی پاس کرتی ہیں، ان میں اپوزیشن کی مرضی شامل نہ ہو تو وہ بھرپور احتجاج بھی کرتی ہیں اور اپنی بات منوا کر خوشی کے بھنگڑے بھی ڈالتی ہیں لیکن کیا یہ وی آئی پیز شہریوں کے لئے بھی کچھ کرنا چاہتے ہیں؟

کراچی میں اب ایک بار پھر گرینڈ آپریشن کی ضرورت ہے۔ شہر میں بدامنی عروج پر ہے۔ جہاں اس کا ایک سبب مہنگائی ہے وہاں اس حقیقت کو بھی ماننا ہو گا کہ ملک بھر سے جرائم پیشہ افراد نے کراچی کا رخ کر لیا ہے۔ شہریوں کو گولیاں مارنے والوں کی دلیری بتا رہی ہے کہ سسٹم کی کالی بھیڑیں ان کی پشت پناہی کر رہی ہیں یا پھر سب ہی ان کے آگے بے بس ہیں۔ شہید ہونے والے صحافی کے بھائی اور صحافتی تنظیموں نے حکومت اور پولیس کو ملزمان کی گرفتاری کے لئے 72 گھنٹے کا وقت دیا ہے اس کے بعد بھرپور احتجاج اور اسمبلی کے گھیراؤ کی دھمکی دی ہے لیکن یہ مسئلہ اب کسی ایک شعبے کے افراد کا نہیں کراچی کے ہر شہری کا ہے۔ اہالیان کراچی کو اپنی جان اور مال کی حفاظت کے لئے آواز اٹھانا ہوگی ورنہ یونہی لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔

آپریشن کے نتیجے میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی میدان میں آئیں گی اور بین الاقوامی پریشر بھی برداشت کرنا ہو گا لیکن حکومت کے پاس اب اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں اور یہ آپشن وقت کی اہم ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments