توہین مذہب کے الزام میں ہجومی تشدد


سری لنکن باشندے پریانتھا دیاوردھنا کا وحشیانہ قتل زیادہ پرانا واقعہ نہیں۔ سیالکوٹ میں وزیر آباد روڈ ایک گنجان آباد سڑک ہے جہاں 160 سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں۔ سینکڑوں افراد جمع تھے، مگر کسی نے انسانی جان کو نہیں بچایا اور حد درجہ سفاکی، بربریت کا مظاہرہ کیا، انسانیت کی موت پر، ایک شخص کی جان کنی کے وقت ویڈیوز بنائی۔

اس دل خراش واقعہ کو وزیراعظم پاکستان نے ایک شرم ناک دن قرار دیا تھا۔ شرم ناک صرف ایک دن نہیں تھا، شرم ناک ہمارا معاشرہ ہے۔ شرم ناک وہ مائنڈ سیٹ ہے جس کے تحت یہ انسان دشمن لوگ آئے دن سنگ دلی اور بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ شرم ناک وہ شرپسند عناصر ہیں جو ایسے واقعات کے بعد ایسے لوگوں کو ہار پھول پہناتے ہیں۔ توہین مذہب کے قانون کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا بھی ایک شرم ناک فعل ہے۔

اس شرم ناک واقعہ کے فوراً بعد میاں چنوں کے مشتاق احمد کی درخت سے لٹکی لاش ملی جو کہ شیزو فرینیا کا مریض تھا۔ مسجد کے احاطے میں 50 سالہ ذہنی مریض مشتاق احمد کو کمرے میں بند کر کے مشتعل جنونیوں نے تشدد کر کے مارا۔ کمرے میں انسانی خون کے دھبے آج بھی موجود ہیں۔ سب سے پہلے اعلان کیا گیا کہ مسجد میں ایک ایسا شخص موجود ہے جس نے مذہب کی توہین کی ہے اور اس کے بعد اسے اینٹیں ماری گئیں ڈنڈے برسائے گئے اور تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔ لاش کو درخت پر کئی گھنٹوں تک لٹکائے رکھا، سر عام لاش کی بے حرمتی کی گئی اور ساتھ ویڈیوز بھی بن رہی تھیں۔ جسد خاکی کی حالت خراب تھی، جسم کا کوئی حصہ سلامت نہیں تھا۔ اور ایک بار پھر احترام آدمیت کا جنازہ دھوم سے نکلا۔

اس شرم ناک واقعہ کے بعد ڈاکٹر نے اس کی ذہنی بیماری کی تصدیق کر دی اور میڈیکل ریکارڈ پولیس کو پیش کیا۔ اطلاعات کے مطابق مشتاق احمد کی ہلاکت سے قبل ہی پولیس کو اس واقعے کی اطلاع مل چکی تھی لیکن اس کے باوجود بھی پولیس انھیں بچانے میں ناکام رہی۔

ایسے اندوہ ناک دل خراش واقعات اب معمول کی بات ہے۔ پاکستان میں ایک مدت سے توہین مذہب کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ الزام کا صحیح یا غلط ہونا بھی ضروری نہیں۔ ایک شخص پہ قرآن جلانے کا الزام لگا کر بھیڑیوں کے آگے پھینک دیا بعد میں معلوم ہوا کہ پراپرٹی ڈیلر تھا اور الزام جھوٹا تھا۔ قانون سے بالاتر ہو کر لوگوں کو تشدد کر کے جان سے مار دیا جاتا ہے اور سفاکی سے ان کی لاش کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ مشتعل ہجوم کی طرف سے گھروں، دکانوں گرجا گھروں مندروں پولیس اسٹیشنوں کو بھی آگ لگا دی جاتی ہے۔ معاملہ صرف اقلیتوں تک محدود نہیں۔

13 اپریل 2017 کو خیبر پختونخوا میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کو اسی یونیورسٹی کے طلبہ اور اہلکاروں نے توہین مذہب کا الزام لگا کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ مذہبی جنونی مشال خان کو مار مار کر سیڑھیوں سے لڑھکاتے رہے۔ کوئی اس کے سر، کوئی کمر تو کوئی بدن کے کسی اور حصے پر گملا، پتھر اور لاٹھی مارتا رہا۔ برہنہ حالت تھی، اس کے ہاتھ کی دس کی دس انگلیاں توڑ دی گئی تھیں۔ اس کا بدن لہولہان تھا۔ مگر سفاک درندہ صفت لوگوں کا غصہ کم نہیں ہو رہا تھا۔ تحقیقات کے بعد توہین مذہب کے الزامات بھی جھوٹے نکلے، معاملہ ذاتی دشمنی کا تھا۔ محض چند مخالف لڑکوں نے ہجوم کو ورغلا کر اپنے مقاصد حاصل کیے۔ انصاف آج تک نہیں ملا۔

پہلے غیر مسلم پر ایسے الزامات لگتے تھے، اب مسلمان بھی اس طرح کے الزامات کی زد میں ہیں۔ کیوں کہ زیادہ تر مقدمات ذاتی عناد و رنجش یا جائیداد کے جھگڑوں کی وجہ سے درج کیے جاتے ہیں۔ ہمارا پورا معاشرہ ہی مذہبی انتہا پسندی میں مبتلا ہو چکا ہے، خصوصاً صوبہ پنجاب میں تو صورت حال بہت ہی ہولناک ہے۔ ریاست کے تمام اداروں میں مذہبی انتہا پسندی اپنی جڑیں مضبوط کرچکی ہے۔ اور شہریوں کو ہر قسم کی مذہبی، مسلکی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

بی بی سی کے مطابق گزشتہ 3 دہائیوں میں تقریباً 600 مسلمان، 500 احمدی، 200 مسیحی اور درجنوں ہندوؤں پر توہین مذہب کا الزام لگ چکا ہے۔ اور اصل تعداد اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کم از کم 1000 ہندو، مسیحی اور سکھ برادری کی خواتین کا ہر سال جبری طور پر مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے، تاہم مذہب کے حوالے سے جبری تبدیلی کے درست اعداد و شمار موجود نہیں ہیں اور ممکنہ طور پر ایسے کیسز کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کا بل کیوں مسترد ہو گیا؟ پاکستان میں طاقتور مذہبی حلقوں کا خیال ہے کہ اقلیتوں کو پہلے ہی ملک میں مکمل آزادی حاصل ہے، اس لیے کسی نئے بل کی ضرورت نہیں۔ اسی حوالے سے ایسی تجاویز آئیں کہ اگر الزام غلط ثابت ہو جائے تو الزام لگانے والے کو سخت سزا دی جائے لیکن مذہبی تنظیموں کی طرف سے اس کی بھرپور مخالفت کی گئی۔ اگرچہ بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر یہ بہت ضروری ہے کہ اس حوالے سے کوئی پیش رفت کی جائے۔

یہ ماننا مضحکہ خیز ہے کہ پاکستان میں مسلمان تو کسی حساس معاملہ پر کھلے عام بات نہیں کر سکتے لیکن غیر مسلم سرعام توہین مذہب کر لیتے ہیں۔

قیام پاکستان کے وقت تمام شہریوں کو مساوی اور یکساں حقوق دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یہاں پر ہر پاکستانی شہری کو اس کے جائز اور آئینی حقوق کے ساتھ ساتھ مذہبی آزادی بھی حاصل ہونی تھی۔ ہمارے پرچم میں سفید رنگ ان کی نشاندہی کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پرتشدد رویے اور انتہا پسندی آخر کیسے اس قدر فروغ پا رہی ہے، کشت و خون کے بازار کو گرم کرنے کے محرکات کیا ہیں؟

یہ 20,21 سالہ باریش نوجوان اس پیڑ کے کڑوے پھل ہیں جن کا بیج آپ نے تین سے چار دہائی پہلے لگایا تھا۔ سیالکوٹ سانحہ پر فواد چودھری نے ٹویٹ کی تھی ”ہم نے معاشرے میں ٹائم بم لگا دیے ہیں ان بموں کو ناکارہ نہ کیا تو وہ پھٹیں گے ہی اور کیا کریں گے۔“

ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ بچے غیر تعلیم یافتہ ہیں۔ مشال خان کیس میں پڑھے لکھے یونیورسٹی کے لڑکے تھے۔ انسانی حقوق کی باہمت کارکن سبین محمود اور آغا خانی شہریوں کی بس پر حملہ کرنے والا سعد عزیز آئی بی اے گریجویٹ اور باقی ساتھی بھی سرسید اور جامعہ کراچی کے طالب علم تھے۔ اسلامی جمیعت طلبہ میں شمولیت کے بعد القاعدہ سے تعلق جڑ گیا اور پھر وہی دہشت گردی کے شرم ناک واقعات۔

اس کے علاوہ ایسے لوگوں اور جماعتوں سے دیگر پوشیدہ سیاسی مقاصد اور مفادات حاصل کیے جاتے ہیں۔ تعلیمی ادارے بھی انتہا پسندوں کی آماج گاہ بن چکے ہیں۔ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت سیکولر تنظیموں کو ہٹا کر مذہبی تنظیموں کو سپورٹ کیا گیا۔ ملک بھر کے طلبا ہوسٹلز سے پولیس نے متعدد بار کالعدم جماعتوں کے دہشت گرد گرفتار کر کے غیر قانونی اسلحے کی بھاری مقدار برآمد کی ہے۔ اشتعال انگیز اور انتہاپسندانہ لٹریچر مدرسوں اور درس گاہوں میں کھلے عام تقسیم کیے جاتے ہیں۔

تمام دانش ور، ارباب علم، حاکم اعلیٰ سے بھی گزارش ہے کہ پاکستان میں ہونے والے ظلم و بربریت کے واقعات کا تجزیہ ویسے ہی کریں، جیسے آپ بھارت میں ہونے والے واقعات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ کشمیر فلسطین شام اور برما کا درد اس وقت محسوس کریں، جب اپنے وطن میں اپنے ہم وطنوں کے ساتھ مذہب، مسلک، قوم، زبان اور زمینی فرق کو بنیاد بنا کر ظلم نا کیا جاتا ہو۔

یہاں یہ بات ہمیشہ یار رکھنے کی ضرورت ہے کہ مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں، عقائد سب جگہ مختلف ہوتے ہیں، ریاست کا وعدہ ہوتا ہے کہ تمام مذاہب اور عقائد کی آزادی کے حقوق کا احترام کیا جائے۔ اس معاملہ میں جبر کی تو کسی صورت اجازت نہیں۔ نوجوان نسل سے بھی گزارش ہے کہ خدارا معاشرے میں لوگوں کے حقوق کا استحصال نا کریں۔ اپنی انفرادی سوچ اختیار کریں۔ قدیم روایات سے نکل کر اپنا نظریہ رکھیں۔ حق اور سچ کو کسی دوسرے کی عینک سے نہیں اپنی نگاہ سے دیکھیں۔ ورنہ لوگ آپ کو اسی طرح استعمال کرتے رہیں گے۔

مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے کر رواداری برداشت اور برابری کے اصول کو اپنانا ہو گا۔ یہ ہے دین اور یہی رسول نبی آخر الزمانﷺ کی سنت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments