امریکی کاروباریوں کی ایمانداری اور ہمارے کی دھوکہ دہی


سال 2007 کے ستمبر کا مہینہ تھا ایک کورس کے سلسلے میں امریکہ جانے کا اتفاق ہوا وہاں پر لیپ ٹاپ کی ضرورت پڑی تو الیکٹرانکس کی بڑی شاپ بیسٹ بائے میں داخل ہوا لیپ ٹاپ کی قیمت کی ادائیگی کے لئے کا ؤنٹر پر پہنچا تو ایک لڑکا ایک استعمال شدہ لیپ ٹاپ اور اس کی بکھری ہوئی ایکسیسریز لئے مجھ سے پہلے ڈیوٹی پر موجود شخص سے بات کر رہا تھا جس نے اس سے لیپ ٹاپ لے کر پیسے واپس لوٹا دیے میری باری آئی تو میں نے ویسے ہی پوچھ لیا کہ یہ کیا آپ نے استعمال شدہ لیپ ٹاپ بغیر پیکنگ کے ہی واپس لے لیا ہے تو اس نے بتایا کہ یہ کمپنی کی پالیسی ہے کہ کچھ مقررہ وقت دو ہفتے یا کچھ زیادہ میں اگر کوئی خریدی گئی اشیا کے معیار سے مطمئن نہ ہو تو وہ اسے پوری قیمت لے کر واپس کر سکتا ہے (کمپنی کی وہی پالیسی اب بھی ہے جوان کی ویب سائٹ پر موجود ہے ) ۔ بڑی حیرت ہوئی کہ میں جس اسلامی ملک سے تعلق رکھتا تھا وہاں تو ایسی کوئی پالیسی نہیں دیکھی یا میری نظر سے نہیں گزری حالانکہ سامان کی تبدیلی اور واپسی تاکیداً اسلام کی بنیادی تعلیمات اور پیغمبر اسلام صلعم کی احادیث سے ثابت ہے۔

اسی ٹرپ کے دوران جس چیز کی مجھے سب سے زیادہ فکر رہتی تھی وہ حرام حلال خوراک کی ہوتی تھی کہ کہیں کسی حرام جانور کا گوشت نہ کھالوں۔ جہاں بھی جاتا دکاندار یا ہوٹل والے سے پہلے پوچھتا کہ جو چیز میں کھانے لگا ہوں اس میں سور کا گوشت یا تیل تو شامل نہیں۔ کبھی کبھی تو میرے دوست بھی میرا مذاق اڑاتے کیونکہ میں فریش یا ڈرائی فروٹ لیتے ہوئے بھی یہی سوال کرتا تو وہ کہتے کہ اس میں حرام چیز کیسے ڈل سکتی ہے۔ مجھے نہیں یاد کہ کسی دکاندار نے مجھے دھوکے سے کوئی ایسی چیز بیچی ہو جو مجھے نہیں چاہیے تھی یہاں تک کہ نیو آرلینز نامی شہر کے کلبوں اور پبز والے علاقوں سے گزرتے ہوئے بھی جب کہا کہ کچھ حلال چاہیے کیونکہ میں مسلمان ہوں تو ”گناہوں کے اس بازار میں“ بھی کسی نے مجھے اپنے منافع یا کاروبار کے لئے حرام چیز کو حلال کر کے نہیں بیچی۔ یہ سب اس شہر میں ہو رہا تھا جہاں پر چوروں اور لٹیروں کی بہتات کی وجہ سے ہمیں ایک سو ڈالر سے زیادہ رقم ساتھ لے کر چلنے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ ہر گلی اور نکڑ پر جانے کہاں سے کوئی نکل کر آپ کو لوٹ لے ہم اس شہر میں دو تین چار سے کم تعداد میں نہیں پھرتے تھے۔

ایسا بھی نہیں کہ جیسے امریکہ میں سب کچھ ٹھیک ہے وہاں بھی لوگ ضرور دھوکہ دیتے ہوں گے اور اس کی حکومت کی تو بہت سی پالیسیاں ایسی ہیں جن پر ہم سب کو اعتراض ہے کہ وہ دنیا کے وسائل پر قبضے اور اپنے تسلط کے قیام کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے اور کر بھی چکا ہے جس پر پھر کسی اور کالم میں تفصیلی بات ہوگی لیکن اس کے معاشرے میں لوگوں کو دھوکہ نہ دینے کے میرے اس تجربے نے ذہن میں اس وقت سر اٹھایا جب پچھلے دنوں ویسے ہی ایک چھوٹے سے تجارتی معاملے میں ایک دوست کے ساتھ پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور جانے کا اتفاق ہوا

وہاں پر جب ہمارے کچھ میزبان دوستوں کو معلوم ہوا کہ میرا دوست اپنی پراڈکٹ کو ایک قریبی دوسرے بڑے شہر میں بھی سپلائی کرنے کا پلان بنا رہا ہے تو انہوں نے بغیر وقت ضائع کیے کہا کہ اس شہر کے تاجر پیسوں کی ادائیگی میں بہت تکلیف دیتے ہیں اور وہی ہوا جب ہمارے دوست نے وہاں ایک تاجر کو اپنا مال بیچا اور ادائیگی کے وقت اس نے ایک اچھی خاصی رقم روک لی اور بہانہ بنایا کہ اس کے پاس جو مال آیا تھا وہ خراب تھا اس سے پوچھا کہ کیا آپ نے ایک ماہ پہلے مال وصول کرتے ہوئے اس کے خراب ہونے کی شکایت کی تھی تووہ خاموش ہو گیا۔ وہی پر احساس ہوا کہ مال لینے والا دھوکے کو اپنی کامیابی سمجھ بیٹھا ہے اور اس نے ایسا کر کے سپلائی کرنے والے کے اعتماد کو خراب کر دیا ہے وہ اب ہر کسی سے ڈر کر سپلائی کرے گا۔

اپنے شہر پشاور میں غیرملکی سامان کی خریداری کے لئے مشہور ایک بہت بڑی مارکیٹ کا تو ”اصول“ ہی اس بنیاد پر بنایا گیا ہے کہ مال ایک بار خرید لیا تو واپسی تو ایک طرف تبدیلی بھی نہیں ہوگی حالانکہ خود میں اس حدیث کو پڑھ چکا ہوں کہ جس نے خریدار سے مال واپس لیا اس پر جنت واجب ہو گئی اور پھر صحابہ کرام میں سے بعض نے صرف اسی لئے دکانیں کھولیں کہ کوئی سامان خرید کر واپس کردے۔ اس بڑی مارکیٹ میں سامان خراب ہو یا ٹھیک بس آپ نے خرید لیا تو واپسی کا کوئی امکان نہیں اور اس کی پوری یونین گاہک کے خلاف کھڑی ہوجاتی ہے جس بے چارے یا بے چاری کو پیسے چھوڑ کر جان بچانے کی فکر وہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

شہر کے بڑے بڑے شاپنگ سنٹرز کے دروازوں پر جھوٹے رعایتی اشتہار لگا کر لوگوں کو راغب کیا جاتا ہے لیکن اندر جاکر پتہ چلتا ہے کہ جو چیز آپ کو پسند ہے اس پر تو یہ رعایت ہے ہی نہیں۔

شکر الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور ہم سب کو اسلام کے بنیادی کاروباری و تجارتی اصول زبانی یاد ہیں لیکن عملی کاروبار کرتے ہوئے ہم میں سے کتنے لوگ ان پر عمل کر کے گاہک کو مال کا نقص بتاتے ہیں؟ ناپ اور تول پورا کرتے ہیں؟ کسی سے مال خریدتے ہوئے اس کی اچھی چیز کو قیمت کم کرنے کے لئے ناکارہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرتے؟ گاڑیوں کے کاروبار میں آپ کو کوئی گاڑی چاہیے ہو تو اس کی قیمت ایک ہوگی اور آپ وہی گاڑی واپس بیچیں تو اسے ناکارہ بتا کر کیسے سستی قیمت پر خریدنے کو کامیابی سمجھا جاتا ہے؟ زمینوں کے سب سے بڑے کاروبار میں لوگوں کو کسی اور کی زمین اپنے نام پر بتا کر کیسے بیچی جاتی ہے اور کیسے حکومتوں کو رشوت دے کر اپنی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو دھوکے سے لوگوں کو بیچا جاتا ہے ؟ ایک ہزار سوال ہیں جو ہر موڑ پر ذہن میں سر اٹھاتے ہیں۔

ہمارے کتنے تاجروں کے ذاتی، یا تاجر تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے تاجر ونگز کے کاروباری اصول گاہک کی خیرخواہی اور اس کی فلاح کی بنیاد پر وضع کیے گئے ہیں۔ کہ اسے سامان ٹھیک، پورا اور صحیح نرخ پر دیا جائے گا۔

ہم سب حکومت سے تو نرخوں میں اضافے کی شکایت کرتے ہیں لیکن کیا نجی کاروبار میں منافعے کی کوئی حد کہیں مقرر ہے؟ کہ ایک چیز جو دکاندار کو سو روپے میں ملتی ہے وہ اس پر کتنا منافع کمائے تو جائز ہو گا اور اس سے زیادہ جائز نہیں ہو گا۔

ان سب کاروباروں کے کرنے والے مندی کے نام پر پریشان ہیں لیکن ان میں سے کتنوں کو یاد ہو گا کہ کثرت کے مقابلے میں برکت اہم ہوتی ہے اور اگر ہم کسی کو کچھ بیچتے ہوئے اسے وہی چیز دیں جو ہم اپنے لئے پسند کرتے ہیں تو اس کے کیا روحانی اور مالی فوائد ہوسکتے ہیں۔ ہم دھوکہ دینے والے تاجر کو کامیاب سمجھ لیتے ہیں لیکن اپنے شہروں میں بہتر طریقے سے کاروبار کے ذریعے لوگوں کو فائدہ پہنچانے والے کسی کاروباری کو اپنا آئیڈیل نہیں بناتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments