جوگی جہلمی۔ ایک درویش صفت پنجابی شاعر (2)۔


جوگی کی زندگی کی طرح اس کی زبان میں بھی تکلف ہے۔ وہ بڑی بڑی باتیں بڑی سادگی سے کہہ جاتا ہے۔ جوگی اپنے محبوب سے شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم صبح شام غیروں سے ملتے ہو لیکن مجھ سے بات نہیں کرتے۔ ہمیں جدائی کی آگ میں اور زیادہ نہ جلاؤ۔ اسی خوبصورت خیال کو انہوں نے اپنی اس رباعی میں پیش کیا ہے۔

نال غیراں صبح شام پھر نیں میرے نال کیوں نہیں کردا گل سجناں
بہریوں اگ تے ہجر دا تیل پا کے او بے ترس کر ترس نہ تل سجناں
غیراں نال وعدے پختہ کاریاندے سہانوں دس جاویں اج کل سجناں
جوگی بناں تیرا ہمدم کون بنسی جدوں گیا تیرا جوبن ڈھل سجناں

( جوگی جہلمی اپنے محبوب سے شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ اے میرے محبوب تم صبح شام غیروں کے ساتھ گھومتے ہو لیکن مجھ سے تم بات کیوں نہیں کرتے ہو۔ ہماری جدائی کی آگ پر تیل ڈال کر ظالم بن کر تم میری بے بسی کے مزے لیتے ہو۔ ہمیں اس طرح نہ جلاؤ۔ تم میرے رقیبوں کے ساتھ تو بڑے پکے وعدے وحید کرتے ہو لیکن ہمیں تم اپنا پلا نہیں پکڑاتے بلکہ ہمیں ٹرخاتے رہتے ہو۔ اے میرے محبوب سنو، جب تمہارا یہ جوبن اور جوانی ڈھل جائے گی اس وقت تمہارا ساتھی کون بنے گا۔ اس وقت تمہیں جوگی کے سوا اور کوئی نہیں پوچھے گا۔ )

یہ دنیا ہمیشہ سے فانی ہے۔ پنجابی کے سب ہی بزرگ صوفی شعرا نے اس دنیا کو فانی جانا ہے اور اس سے دل لگانے کو منع کیا ہے۔ میاں محمد بخش نے فرمایا تھا۔

( دنیا نال نہ گئی کسے دے ٹر ٹر گئے اکلے ٭ اوہ بھلے جنہاں چھنڈ رکھے اس دوڑھوں ہتھ پلے )

جوگی جہلمی بھی ایک درویش صفت شاعر تھے جنوں نے اس دنیا میں کبھی ہوس و زر کی تمنا نہیں کی بلکہ اپنی ساری زندگی سادگی میں ہی گزار دی۔ اسی سادگی کا اظہار ان کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔ دنیا کی بے ثباتی کے بارے میں آپ اس رباعی میں فرماتے ہیں۔

کس بھروسے تے مغرور بیٹھا ا یں اوڑک اندر جانڑاں رل سجناں
واری اپنی نال پئے ہون ودیا اج کسے وی کسے دی کل سجناں
تیرا زندگی دا بھی ایہہ ڈھ جانڑیں رہنا قائم نہیں اس محل سجناں
لکھاں آئے جوگی لکھاں کوچ کر گئے لگی رہے گی ایہہ چلو چل سجناں

( تم کس کے سہارے پر اتنے مغرور ہو کر بیٹھے ہوئے ہو۔ شاید تمہیں پتہ نہیں کہ آخرکار اس مٹی میں ہم نے بھی مٹی ہو کر مل جانا ہے۔ یہاں سب کی باریاں لگی ہوئی ہیں کسی نے آج اس فانی دنیا سے رخصت ہونا ہے اور کوئی کل اسی جہان فانی کو چھوڑ جائے گا۔ اس فانی زندگی کا تمہارا یہ محل بھی سدا قائم نہیں رہے گا بلکہ اس نے ایک دن زمین بوس ہو جانا ہے۔ جوگی تم سے پہلے بھی لاکھوں لوگ اس دنیا میں آئے اور لاکھوں آ کر چلے گئے۔ یہ چل سو چل تو ازل سے لگی ہوئی ہے اور ابد تک یہ قائم رہے گی۔ )

بیتتے وقت کے ساتھ دنیا میں بے شمار تبدیلیاں آتی ہے اور یہ تبدیلی ہمارے رہن سہن اور ہماری معاشرت میں بھی آتی ہے۔ دنیا میں کسی بھی شے کو دوام نہیں ہے دنیا اور اس کی ہر شے فانی ہے۔ ہمارے دیہاتوں کو شہروں نے نگل لیا ہے۔ پنجاب کے دیہات گاؤں اور قصبوں کی ثقافت زوال پذیر ہے۔ نہ اب وہ پہلے جیسے گاؤں رہے ہیں اور نہ ہی موجودہ گاؤں میں وہ پرانی تہذیب نظر آتی ہے۔ جوگی جہلمی نے اس ساری تبدیلی کو اپنے الفاظ میں اس طرح پیش کیا ہے۔

ایتھے صورتاں کہیاں کہیاں نہ رہیاں
پھلاں ورگیاں ایتھے دہیاں نہ رہیاں
کتھے گئے پنڈاں دے کوٹھے کچیرے
اکو جیے بوہے اکو جہے بنیرے
ا وہ اٹھ کے تے جٹیاں سویرے سویرے
کوئی ریڑکے مدانی کوئی چکی پئی پھیرے
ا وہ گوہلے پڑوہلے اوہ گہیاں نہ رہیاں
پھلاں ورگیاں ایتھے دہیاں نہ رہیاں
لکھاں شہنشاہ آئے دنیا دے اتے
جنہاں سر تے سن تاج لعلیں پروئے
نہ چل سکے موت اگے حیلے نہ بتے
رضایاں تلائیاں چوتہیاں نہ رہیاں
پھلاں ورگیاں ایتھے دھہیاں نہ رہیاں

(یہاں سب کچھ تبدیل ہو گیا ہے۔ کیسی کیسی صورتیں تھیں جو اب نہیں رہیں۔ کتنی پھولوں جیسی شکلیں تھیں وہ بھی نہیں رہیں وہ سب رخصت ہو گئی ہیں۔ کہاں گئے گاؤں کے وہ پرانے کچے گھر جن کے ایک جیسے دروازے ہوتے تھے اور ایک جیسی ہی منڈیریں تھیں۔ وہ منظر یاد آتے ہیں جب گاؤں کی سب گوریاں صبح سویرے سویرے اٹھ کر اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتی تھیں کوئی دودھ میں مدھانی ڈال کر دودھ بلوتیں۔ ان میں سے کوئی چکی میں دانے پیستی تھیں۔

وہ پرانی چیزیں اب ختم ہو گئی ہیں۔ وہ چیزیں اب ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ وہ پھولوں کی طرح خوبصورت لوگ نہیں رہے۔ اس دنیا میں لاکھوں شہنشاہ آئے جن کے تاج پر ہیرے جواہرات جڑے ہوئے تھے لیکن ایک دن وہ بھی رخصت ہو گئے۔ موت کے آگے کوئی حیلہ بہانہ نہیں چل سکتا۔ اب وہ رضائیاں، تلائیاں اور بسترے سب ختم ہو گئے ہیں۔ پھولوں والی وہ شخصیتیں نہیں رہیں۔ )

تاریخ جہلم میں جوگی جہلمی پر لکھے گئے ایک تعارفی مضمون میں مشہور شاعر اور ادیب انور مسعود کے ان کے بارے میں تاثرات منقول ہیں وہ کہتے ہیں۔ ً جوگ صرف جنگلوں میں ہی نہیں ملتی شہروں میں بھی جوگی پیدا ہوتے ہیں۔ جوگی جہلمی ایک ایسا ہی جوگی ہے اور جہلم شہر میں اس جوگی کی وہی حیثیت ہے جو صحرا میں لالے کی ہوتی ہے۔ یہ لالہ اب جنگل نہیں بلکہ لب دریا ہے۔ دریا زندگی کی علامت ہے اور جوگی کی زندگی پر فکر کرنے کے ایک انداز کا نام ہے۔ اس جوگی کا انداز فکر وہ نہیں جو زندگی کے مفروروں کا ہوتا ہے بلکہ اس کی شاعری میں زندگی کے ہنگاموں میں گھر کر زندگی کا سراغ لگنے کا رجحان ملتا ہے۔ ً

تاریخ جہلم کے مصنف انجم شہباز سلطان جوگی جہلمی پر لکھے اپنے مضمون میں مزید رقم طراز ہیں کہ چند نمایاں فکری اور فنی پہلووں کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جو میں نے جوگی کی شاعری کے مطالعہ سے محسوس کیے ہیں۔ جوگی کی نظم چاننی ان کی شاہکار منظومات میں سے ہے۔ چاننی جوگی کی آنکھوں نے دیکھی ہے۔ وہ حسن فطرت سے والہانہ لگاؤ کی علامت ہے۔ کہیں چاندنی گوٹے اور کناری کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ کہیں کلی کلی کو اس نے روپ کی رانی بنایا ہوا ہے۔ لطیف اتنی ہے کہ خیال سے زیادہ پتلی ہے۔ ٹیلہ ٹیلہ رشک طور بنا ہوا ہے اور دور دور تک چھنا ہوا نور پھیلا ہوا ہے۔ نظم کی نغمگی ایسی ہے جیسے چاند کی کرنیں گنگنا رہی ہوں۔

چاننی
دیہناں چرو کے دی جھروکے وچوں بٹ بٹ چناں مینوں لگدی پیاری تیری چاننی
نچن کوارے ناچ کرناں کواریاں ایہہ چنا توں کوارا ایں کواری تیری چاننی
ٹانواں ٹانواں تارا کوئی کتے کتے وسدا اے کتے کتے گوٹا تے کناری تیری چاننی
اچے نیویں ٹبے سارے مینوں جاپدے نیں دور دور کرناں کھلاری تیری چاننی
کل کلی روپ رانی بنی ہوئی اے باغ وچہ پھل پھل اتے پھلکاری تیری چاننی
خیال نالوں پتلا پتنگ تیرا چاننا اے پونڑواں نور اے نیاری تیری چاننی
سرگ ویلے دن جدوں ابھرنے دے نیڑے ڈھکا پھیکی پھیکی پیندی جائے واری تری چاننی
دیہندیاں آئی دیہندیاں جاں نمی نمی پوہ پھٹی اڈ گئی مار کے اڈاری تیری چاننی
پھوڑی تے تر ڈالیا تاریاں نے مار کچھے ویکھیا نہ مڑ کے وچاری تیری چاننی
جہنے جہنے مانگواں سی چانناں ایہہ لیا ہویا دینی پئی موڑ کے تے ساری تیری چاننی
اوس ویلے جوگی دے وی دیدیاں نوں لو لگی ماری جدوں ہجر کٹاری تیری چاننی
جھڑ گئے پتے جدوں اوہدوں مینوں پتہ لگا چنا توں ادہارا سی اد ہاری تیری چاننی

(جوگی جہلمی نے چودھویں رات میں چاند کی چاندنی کا نظارہ اپنے تخیل کے مطابق لکھا ہے۔ چودھویں رات کو چاند اور اس کی چاندنی دونوں جوبن پر ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اے چاند اس حسین رات جھروکوں سے جھانکتی ہوئی تیری چاندنی مجھے ٹکر ٹکر دیکھتی کتنی پیاری لگتی ہے۔ سب نوجوان لڑکے بالے اور الہڑ دوشیزائیں ناچ رہے ہیں۔ کیونکہ اے چاند تم جتنے الہڑ ہو اور ایسی ہی نویں نکور کنواری تمہاری چاندنی ہے۔ کوئی اکیلا تارا کہیں کہیں نظر آتا ہے اور کہیں گوٹے کناری لگی تیری چاندنی نظر آتی ہے۔

اے چاند تمہاری چاندنی ہر سو اس طرح بکھری پڑی ہے کہ اس میں چھوٹے بڑے سب ٹیلے مجھے نظر آ رہے ہیں۔ تمہاری چاندنی کی وجہ سے باغ میں ہر کلی پر جوبن آ گیا ہے اور وہ روپ کی رانی بنی ہوئی ہے۔ چمن میں ہی ایک پھول بھی چاندنی سے جوان ہو گیا ہے اور چاندنی بھی ایک خوبصورت پھول کی طرح چمن میں نظر آ رہی ہے۔ میرے خیال میں سے بھی مہین اور باریک تیرا چانن ہے اور سفید روئی سے بھی سفید اور نیاری تیری چاندنی ہے۔ سحری کے وقت جب تیرا جانے کا وقت قریب آیا تو تیری چاندنی پھیکی پڑ گئی تھی۔

اور جیسے ہی صبح کا سپیدہ نمودار ہوا تو ایک دم ہی اڑان بھر کر تمہاری چاندنی اڑ گئی۔ جاتے جاتے بیچاری چاندنی شبنم سے تر ڈالیوں اور ستاروں کو کی مڑ کے نہ دیکھ سکی۔ جس جس نے بھی چاند سے چاندنی ادھار لی ہوئی تھی اسے وہ ادھار لی ہوئی چاندنی واپس کرنی پڑی۔ اس وقت جوگی کی آنکھوں کو جدائی کا احساس ہوا جب چاندنی نے جدائی کی تیز کٹار اس کے سینے میں گھونپ دی۔ جب چاندنی کے سب سبز پتے جھڑ گئے تو مجھے یہ احساس ہوا کہ چاند تم بھی ادھارے تھے اور تمہاری چاندنی بھی ادھاری تھی۔ چاند جب جوبن پر

ہوتا ہے تو ہر شے اس کی چاندنی میں نہائی ہوتی ہے۔ چاند کی چاندنی کائنات کی ہر شے کی خوبصورتی میں اضافہ کر دیتی ہے۔ لیکن پھر جب رات ڈھلنے پر چاند کا جوبن ڈھلنا شروع ہوتا ہے اور چاند نی بھی پھیکی پڑ جاتی ہے اور پھر رخصت ہو جاتی ہے۔ اس ساری کیفیت کو شاعر نے اپنے اشعار میں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے )

نوٹ۔ اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ زیل کتب اور مضامین سے استفادہ کیا گیا ہے۔
1) ۔ تاریخ جہلم۔ مصنف انجم شہباز سلطان۔ مطبوعہ بک کارنر جہلم۔
2) ۔ مندراں۔ جوگی جہلمی۔ مطبوعہ واصف پرنٹنگ پریس جہلم

3) ۔ خیال نال موت ہے، خیال نال زندگی۔ جوگی جہلمی مضمون ڈاکٹر غافر شہزاد۔ روزنامہ اوصاف۔ اشاعت 31 اکتوبر 2017


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments