اردو ترجمے میں ثقیل اصطلاحوں کا مسئلہ


ہمارے زمانے میں ادب کی زبوں حالی کا شاید سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہم نے زبان کی اہمیت سے انکار کر دیا ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ کسی پودے کو زمین سے اکھیڑ کر اس کی پرورش محض روشنی، ہوا اور پانی کی پھواروں پر کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہمارا ادیب زبان کا شعور حاصل کیے بغیر شعر کہنا چاہتا ہے، افسانہ لکھنا چاہتا ہے اور مضمون انشا کرنا چاہتا ہے۔ کم و بیش یہی حال تراجم کے سلسلے میں ہے۔

ہمارے ہاں ترجمہ اکثر وہ لوگ کر رہے ہیں جو دوسری زبانوں سے تو شاید کسی قدر واقف ہوں مگر اردو کی تہذیب اور رچاؤ سے یکسر نابلد ہیں۔ انھیں کسی انگریزی اصطلاح کو اردو میں منتقل کرنا نہ صرف غیر ضروری معلوم ہوتا ہے بلکہ وہ فی الحقیقت یہ صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ دوسری جانب نظریاتی سطح پر اردو ترجمے کے حوالے سے بعض شدید غلط فہمیاں رواج پا گئی ہیں جن کے پیچھے باقاعدہ سیاسی مفادات کا کارفرما ہونا بعید از قیاس نہیں۔

اس ضمن میں سب سے بھاری اعتراض جو میری نظر سے گزرا ہے وہ نہ صرف اردو بلکہ زبان ہی کے حوالے سے ایک بڑی نادانی اور کج فہمی پر مبنی ہے۔ یہ اس طبقے کا ادعا ہے جو یا تو اردو کے مقابل انگریزی زبان کے رواج و شیوع کا قائل ہے یا اگر اردو تراجم کو روا بھی سمجھتا ہے تو انگریزی اصطلاحات کو بعینہٖ اردو میں نقل کر دینا چاہتا ہے۔ مثال کے طور پر ان لوگوں کا خیال ہے کہ لاؤڈ سپیکر کو مکبر الصوت یا مینیو کو لائحہ کہنا مضحکہ خیز ہے۔

سمجھنا چاہیے کہ کسی چیز کے عجیب و غریب یا مضحکہ خیز لگنے کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ آپ اس کے عادی نہ ہوں۔ تمدنی زندگی کا ہر وہ مظہر جو معاشرتی یا انفرادی سطح پر تسلیم شدہ معیارات سے مطابقت نہ رکھتا ہو، عجیب معلوم ہوتا ہے۔ ایک معاشرے سے دوسرے معاشرے کا سفر بہت سی عجیب چیزوں کو ہم پر منکشف کرتا ہے۔ وہ فی الحقیقت عجیب نہیں ہوتیں۔ دوسرے معاشرے کے لوگ انھیں عین فطری سمجھتے ہیں۔ ہمیں عجیب لگنے کی وجہ محض یہ ہوتی ہے کہ ہم ان کے عادی نہیں ہوتے۔ گویا کسی چیز کے انوکھے نظر آنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ فی الاصل اور فی ذاتہ انوکھی ہے بلکہ محض یہ ہے کہ ہم اس نوعیت کی چیزوں سے شناسا نہیں۔

اب اس کلیے کو ترجمہ شدہ اصطلاحات پر منطبق کر کے دیکھیے۔ معلوم ہو گا کہ لاؤڈ سپیکر کا لفظ ہم سے کوئی فطری مطابقت یا طبعی موافقت نہیں رکھتا بلکہ محض بڑے پیمانے پر رائج ہونے کی وجہ سے ہمیں ٹھیک محسوس ہوتا ہے۔ اس کے مقابل مکبر الصوت اس لیے اجنبی اور عجیب لگتا ہے کہ ہمارے ہاں بولا نہیں جاتا۔ لاؤڈ سپیکر نہ بولا جاتا تو وہ بھی اتنا ہی عجیب سنائی دیتا۔ الفاظ ابلاغ کے لیے کسی معاشرے کا طے شدہ اور متفق علیہ معیار ہوتے ہیں۔

یہ کوئی آسمانی اور الوہی مظہر نہیں ہیں جن کو انسانی فطرت یا طبیعت سے براہ راست تعلق ہو۔ اردو میں ہر اصطلاح خواہ وہ انگریزی سے در آئی ہو یا ترجمہ کی گئی ہو، اول اول اجنبی اور انوکھی ہی معلوم ہو گی۔ رفتہ رفتہ جب اس کا شیوع ہو جائے گا اور ہر کس و ناکس اسے برتنے لگے گا تو بالکل ایک معمول کا لفظ محسوس ہونے لگے گی۔ زبان کا یہی قاعدہ ہے جو ہمیشہ سے اور ہر جگہ چلا آتا ہے۔

انگریزی زبان میں رائج سائنس اور قانون کی اکثر اور ادبیات و علوم عمرانی کی بیشتر اصطلاحات اپنے مادہ جات کے اعتبار سے لاطینی اور یونانی وغیرہ زبانوں سے ماخوذ ہیں۔ حتیٰ کہ نئی اصطلاحیں وضع کرنے میں بھی انھی زبانوں سے استفادہ کرنے میں عار نہیں سمجھا جاتا۔ پھر کیا برا ہے کہ ہم اردو زبان کے لیے اصطلاحات تراشتے ہوئے عربی، فارسی اور ہندی کو کام میں لائیں؟ انگریزی والوں کا رشتہ لاطینی اور یونانی سے جتنا ہے اس سے کم تو ہمارا ان زبانوں سے نہیں۔ خاص تکنیکی اصطلاحات البتہ ادق ہوتی ہیں۔ خود انگریزی پڑھنے والے بھی ان کے لیے لغت ہی سے رجوع لاتے ہیں۔ ہمارے لوگ بھی فرہنگ دیکھ لیا کریں تو یہ ان پر کوئی انوکھی قدغن نہ ہو گی۔ دیکھنی تو ہر صورت میں پڑے گی مگر غیر کی زبان کے الفاظ کھنگالنے سے ہزار درجے بہتر ہے کہ اپنی زبان کی لغت دیکھ لی جائے۔

ہمارا مدعا یہ ہے کہ اردو میں ترجمہ اردو زبان کی سمجھ رکھنے والے لوگوں کو کرنا چاہیے اور ضرور کرنا چاہیے۔ جو لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں انھیں سمجھ لینا چاہیے کہ زبان کوئی ایسی شے نہیں جس کا انسانی فطرت سے تعلق ہو۔ یہ محض معاشرتی طور پر اتفاق رائے سے پیدا ہونے والا ایک مظہر ہے۔ وہ اتفاق رائے آپ اردو اصطلاحات پر ہونے نہیں دیتے اور پھر فرماتے ہیں کہ اردو اصطلاحات عجیب و غریب معلوم ہوتی ہیں۔ ترجمہ کرنے والوں کو بھی اتنا فہم ہونا چاہیے کہ وہ نہ صرف اصطلاح سازی میں بدیسی زبانوں سے حتی الوسع اجتناب کریں بلکہ ان زبانوں سے استفادہ بھی خوب سوچ سمجھ کر اور ہمارے اجتماعی لسانی ذوق کو سامنے رکھ کر کریں جو اردو کی مائیں ہیں۔ اس سے ایک طرف ہمارا ربط اپنے تمدن اور تاریخ سے بہتر اور زیادہ مضبوط طور پر استوار ہو گا اور دوسری جانب اجنبیت اور غرابت کے عنصر کو بھی ہر ممکن حد تک کم کیا جا سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments