سیندک لیز کی توسیع اور حصے میں ایڈجسٹمنٹ


حکومت پاکستان نے ایم سی سی کو سیندک منصوبے کی لیز میں 2022 سے 2037 تک 15 سال کی مدت کے لیے توسیع کر دی ہے۔ معاہدے کی نئی تجدید کے مطابق پاکستان کا حصہ 50 سے بڑھ کر 53.47 فیصد ہو گیا ہے، جبکہ بلوچستان کی رائلٹی 5 سے بڑھ 5.6 ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ، نئی لیز کے مطابق، چین 45.5 ملین امریکی ڈالر اضافی سرمایہ کاری کرے گا۔

نظرثانی شدہ شرائط کے مطابق MCC 0.7 ملین امریکی ڈالر سالانہ کرایہ کے طور پر اور LME کاپر کی قیمت کے لیے مزید 0.5 ملین امریکی ڈالر ادا کرے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چین سیندک کی مشرقی سمت کی طرف سے شروع کردے گا۔

ایم سی سی کے مطابق 2020 میں اس کا منافع 12 ارب تھا جو کہ 2021 میں 13 ارب روپے رہا۔ جبکہ گزشتہ 14 سالوں میں ( 2003 سے 2017 تک) صوبے کو صرف 7.1 ارب روپے ملے ہیں۔ شروع سے بلوچستان کی رائلٹی 2 فیصد تھی جو 2009 میں بڑھا کر 5 فیصد کر دی گئی۔ آغاز حقوق بلوچستان پیکج کے بعد صوبائی حصہ بڑھا کر 30 فیصد کر دیا گیا۔ بلوچستان کو وہ حصہ کچھ سالوں تک ملا۔ لیکن، SML اور ایف بی آر کے درمیان جھگڑے کی وجہ سے وہ حصہ روک دیا گیا۔

معاہدے سے یہ سوال اٹھایا جانے لگا ہے کہ کیا 18 ویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کو منصوبے کی ملکیت کا حق ہے؟ بلوچستان بار بار اس معاملے کو اٹھاتا رہا ہے اور وفاقی حکومت سے اس منصوبے کی ملکیت کا مطالبہ کرتا رہا ہے جبکہ وفاقی حکومت اس مطالبے کو اس بنیاد پر مسترد کرتی رہی ہے کہ اس نے منصوبے میں 30 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے اگر بلوچستان وفاقی حکومت کو 30 ارب روپے فراہم کرتا ہے۔ تو وفاقی حکومت منصوبے کے تمام منافع کو صوبے کو حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کر سکتی ہے۔

جبکہ دوسری طرف بلوچستان کے سابق سیکرٹری خزانہ محفوظ علی خان کا کہنا تھا کہ ہم نے وفاقی حکومت کو بتایا کہ وفاقی حکومت مذکورہ ریونیو پہلے ہی وصول کر چکا ہے پھر بھی ہم قسطوں پر دینے کو تیار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے قبل ایم سی سی اور ایس ایم ایل کو 5 ملین ڈالر کرایہ کے طور پر ادا کر رہا تھا جو کہ نئی لیز میں بھی جاری رہے گا۔ بلوچستان کا مطالبہ ہے کہ یہ کرایہ اسے دیا جائے نہ کہ ایس ایم ایل کو۔

اگر ہم آرٹیکل 172 ( 3 ) پر نظر ڈالیں جو کہتا ہے کہ ”موجودہ وعدوں اور ذمہ داریوں کے تابع، صوبے کے اندر معدنیات کا تیل اور قدرتی گیس یا اس سے ملحقہ علاقائی پانی کا منافع اس صوبے اور وفاقی حکومت میں مشترکہ اور یکساں طور پر وسیع ہو گا۔“ لیکن، محفوظ علی خان کا کہنا ہے کہ دھاتی اور غیر دھاتی معدنیات آئینی طور پر صوبے کا حق ہے اور وفاقی حکومت کا 30 ارب روپے کا مطالبہ غیر منطقی اور غیر آئینی ہے۔ ہاں تیل اور گیس میں دونوں کا حصہ 50۔50 % ہے۔ اس کے علا وہ آغاز۔ حقوق بلوچستان پیکج کے بعد صوبے کا حصہ جو 30 فیصد تک بڑھا دیا گیا۔ جو کہ ایف بی آر اور ایس ایم ایل کی باہمی چپقلش کی وجہ سے وہ 30 فیصد حصہ بھی روک دیا گیا تھا، ان دونوں معاملات کو وفاقی حکومت کے ساتھ باہمی گفت و شنید کے ساتھ اٹھایا جائے اور ضرورت پڑنے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments