روس اور یوکرائن کا مسئلہ – پس منظر اور پیش منظر


پس منظر

اس وقت روس اور یوکرائن کے درمیان چپقلش زبان زد عام ہے۔ راقم اپنے مضمون ”تقدیر امم“  میں یہ ذکر کر چکا ہے کہ کیوں روس کسی قیمت پر بھی کارپتھی پہاڑوں کے مشرق میں قابل ذکر فوجی طاقت برداشت نہیں کر سکتا۔ جبکہ مغربی ممالک یہ کوشش کر رہے ہیں کہ وہاں نیٹو کے مضبوط اڈے قائم کر لیں۔ چنانچہ انہوں نے بیلا روس اور یوکرائن میں بھی یہ کوشش کی۔ بیلا روس کے آمر نے روس کی مکمل حمایت کی جبکہ یوکرائن میں روس کو اس ضمن میں ناکامی ہوئی اور یورپ کے تائید یافتہ لیڈر بر سر اقتدار آ گئے اور انہوں نے نیٹو میں شمولیت کی خواہش کا اعلان بھی کر دیا۔

امریکہ کی جانب سے معاہدوں کی مسلسل خلاف ورزی

1990 میں جرمنی کے اتحاد کے موقع پر یہ طے ہوا تھا کہ برلن اور مشرقی جرمنی میں جوہری ہتھیار اور غیر ملکی فوجی تعینات نہیں ہوں گے۔ اس وقت کی سرکاری دستاویزات میں یہ بات صاف لکھی موجود ہے کہ مشرقی یورپی ممالک کو نیٹو میں شمولیت کی دعوت نہیں دی جائے گی۔ گو بطور معاہدہ نہیں بلکہ بطور یاداشت ایسا لکھا ہے، تاہم یہ بات بہرحال طے ہوئی تھی۔ اس وقت سے روس کا مطالبہ ہے کہ نیٹو مشرق کی جانب پیش قدمی نہ کرے۔ روس نے اس کے مطابق مشرقی جرمنی اور پولینڈ وغیرہ سے اپنی افواج نکال لیں۔ لیکن 1992 میں وارسا پیکٹ ختم ہونے کے بعد کہا جانے لگا اب وہ معاہدے موثر نہیں کیونکہ دوسرا فریق اب موجود ہی نہیں۔

1997 میں نیا معاہدہ کیا گیا کہ نیٹو مشرق میں مزید ”قابل ذکر“ افواج مستقل طور پر تعینات نہ کرے گی۔ یہ معاہدہ امریکہ اور جرمنی کی 1990 کی یقین دہانیوں کے مطابق تھا کہ نیٹو کا مشرق میں توسیع کا کوئی ارادہ نہیں۔ چنانچہ روس نے 1999 میں نیٹو کی مشرق میں توسیع اس شرط پر قبول کر لی۔ 1999 میں ہی مگر استنبول میں نیٹو نے یہ اعلان کیا کہ ہر ملک آزاد ہے کہ غیر جانبدار رہے یا کسی بھی معاہدہ میں شامل ہو۔ روس نے 2004 میں اس معاہدہ کی بھی توثیق کر دی۔

مگر امریکہ نے یہ کہہ کر توثیق کرنے سے انکار کر دیا کہ پہلے روس جارجیہ اور مولدوویا سے نکلے۔ آخر کار روس نے جارجیا سے تمام فوجی اور مولدووا سے ہتھیار نکال لئے مگر امریکہ نے پھر بھی معاہدہ کی توثیق نہ کی۔ ایک طرف تو معاہدہ نافذ نہیں کیا گیا دوسری طرف 2004 میں بالٹک ممالک کو نیٹو میں شامل کر لیا گیا اور وہاں نیٹو افواج بھی تعینات کر دی گئیں۔ بالٹک ممالک روس کی سرحد پر واقع ہیں، ماسکو سے 750کیلومیٹر کے فاصلہ پر۔

اس کے بعد سوال پیدا ہوا کہ 2007 میں جو مزید ”قابل ذکر مستقل جنگجو فوجی“ تعینات نہ کرنے کا معاہدہ ہوا تھا، جس کی توثیق امریکہ نے نہیں کی، تو اس اس سے کیا مراد ہے؟ امریکہ نے روس کے ساتھ مل کر یہ بات طے کرنے سے انکار کر دیا۔ اور ساتھ ہی یک طرفہ طور پر اپنے نیٹو حلیفوں سے بھی بات کیے بغیر ہی بحر اسود میں بحری جنگی جہاز متعین کر دیے۔ علاوہ ازیں امریکہ نے رومانیہ میں فوجی متعین کر کے کہا کہ وہ ”قابل ذکر اور مستقل“ نہیں۔ اسی طرح امریکہ نے نیٹو سے ماوراء ہی یہ اعلان بھی کر دیا کہ پولینڈ اور چیک رپبلک میں ”ایرانی میزائل خطرہ“ کے پیش نظر میزائل شکن نظام نصب کیا جائے گا۔ جو کہ اب نصب ہو چکا ہے اور درحقیقت روس کے خلاف ہی استعمال ہو گا۔

میزان عدل

انسانی نفسیات کا یہ نہایت افسوس ناک پہلو ہے کہ وہ جب طاقت میں ہوتا ہے تو اکثر زیادتی کرتا ہے۔ ”مصلحت“ ، ”حکمت“ ، ”وسیع تر قومی مفاد“ ، ”رٹ آف دی گورنمنٹ“ ، ”وقار“ ، ”عزت“ ، ”غیرت“ وغیرہ کے نام پر۔ چنانچہ مسلسل تنبیہ فرمائی: والسماء رفعھا ووضع المیزان۔ الا تطغوا فی المیزان۔ واقیموا الوزن بالقسط ولا تخسروا المیزان۔ یعنی آسمان بنایا گیا تو ساتھ ہی میزان بھی قائم کیا گیا۔ خبردار! میزان میں خرابی مت کرنا۔ انصاف پر قائم رہتے ہوئے توازن قائم کرنا اور میزان میں کمی بیشی مت کرنا! مکرر ذکر سے ظاہر ہے کہ آسمان درحقیقت میزان پر قائم ہے۔ جو میزان میں کمی بیشی کرے گا، ضرور اس پر آسمان ٹوٹ پڑے گا۔ دیر اگر ہے تو اندھیر ہرگز نہیں!

اس جگہ بھی مغربی طاقتوں نے سویت یونین کے زوال کے بعد یہ سمجھا تھا کہ اب ہم جو چاہیں کر لیں جو مرضی تشریحات کریں جیسے معاہدے چاہیں توڑ دیں۔ کبھی تو علیٰ الاعلان ایسا کیا گیا مثلاً ایران کے ساتھ معاہدہ توڑا گیا۔ اور کبھی چکمہ دے کر یا خود ساختہ تشریحات کر کے۔ کبھی نیٹو کا ممبر ہونے کے باوجود اس کے معاہدہ سے بالا اپنا الگ معاہدہ کر لیا کہ یہ ہمارا اور فلاں ملک کا باہمی معاہدہ ہے نیٹو کا نہیں۔

روس کی جوابی کارروائی

2008 میں نیٹو نے جارجیا اور یوکرائن کی شمولیت کا بھی عندیہ دیا۔ یہ وہ آخری تنکا تھا جس نے اونٹ کی کمر توڑ ڈالی۔ فرانس اور جرمنی نے اس وقت بہت کہا کہ روس کے تحفظات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ لیکن امریکہ نہ صرف اپنی بات پر اڑا رہا بلکہ اس کے حلیف جارجیا نے اگست 2008 میں روسی فوجیوں پر حملہ بھی کر دیا! روس نے جوابی فوجی کارروائی کرنے کے علاوہ جارجیا کے دو صوبوں کو آزاد تسلیم کر کے وہاں اپنی افواج بھی تعینات کر دیں تاکہ نیٹو شمولیت کا قصہ ہی تمام ہو۔

یورپی ممالک نے، جو کہ اسی سال فروری 2008 میں سربیا سے جنگ کر کے کوسوو کو آزاد ملک تسلیم کر چکے تھے، جارجیا کے معاملہ پر واویلا مچانا شروع کر دیا کہ یہ بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی ہے! اس کے بعد 2014 میں روس نے کریمیا پر قبضہ کر لیا تاکہ اسے سواسٹوپول کی بندر گاہ پر دسترس حاصل رہے اور امریکہ نے نیٹو سے بالا وہاں جو بحری جہاز تعینات کر رکھے تھے ان کا توڑ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی یوکرائن کے دو مشرقی صوبوں، جہاں روسی نسل کی اکثریت ہے، میں ”تحریک آزادی“ کی مدد شروع کر دی۔

کیوبا 1962ء

جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ روس کا مطالبہ یہ ہے کہ اسے اس بات کی یقین دھانی کروائی جائے کہ نیٹو مشرق میں مزید نہیں بڑھے گی۔ مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ یوکرائن ایک آزاد ملک ہے جس کے ساتھ چاہے معاہدے کرے۔ تاہم یہ بات میزان کے مطابق نہیں۔ 1962 میں کیوبا پر سویٹ یونین کے میزائل نصب کرنے کے اعلان پر امریکہ نے دنیا کو دو ہفتے تک ایک عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑا رکھا تھا۔ کیوبا بھی تو ایک خود مختار ملک ہے۔ اس وقت مگر دلیل یہ تھی کہ امریکہ کے اتنے قریب تباہ کن میزائلوں کی تنصیب ناقابل قبول ہے۔ یوکرائن بھی اسی طرح روس کی سرحد پر، ماسکو سے محض 500 کلومیٹر دور، واقع ہے۔ وہاں نیٹو کے اڈوں کا وجود روس کے لئے اتنا ہی ناقابل قبول ہے جتنا کیوبا میں روسی میزائلوں کی تنصیب امریکہ کے لئے ناقابل قبول تھی۔ مگر انتہائی ڈھٹائی سے یوکرائن کے معاملہ پر معیار بدل لیا گیا ہے۔

جرمنی اور برطانیہ کا کردار

حسب توقع، جس کا کچھ ذکر مضمون ”تقدیر امم“ میں کیا گیا تھا، برطانیہ نے یوکرائن کی بھر پور طرف داری کی ہے۔ برطانیہ کے پیش نظر صرف روس نہیں۔ وہ یورپ کو تقسیم کرنا اور مشرقی یورپ میں اپنا رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ اس کے مقابل پر جرمنی ایک مرتبہ پھر دو متضاد خواہشات کے درمیان پھنس گیا ہے۔ جرمنی چاہتا ہے کہ یورپ میں امن قائم رہے۔ یہ اس کی معاشی بقاء کے لئے ضروری ہے۔ حال ہی میں شدید امریکی مخالف کے باوجود روس سے جرمنی تک دوسری گیس پائپ لائن Nordstream 2 بچھائی گئی ہے۔

سابق جرمن چانسلر شروڈر گیس و تیل کی سب سے بڑی روسی کمپنی کے ڈائریکٹرز میں شامل اور صدر پوٹن کے ذاتی دوست سمجھے جاتے ہیں۔ اس وقت برسراقتدار جرمن SPD کے اکابرین سے انہوں نے گزشتہ ماہ روس کے معاملہ پر ملاقات بھی کی ہے۔ دوسری طرف جرمنی پھر سے German Angst میں گرفتار ہونے جا رہا ہے۔ اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے جس کی بنیاد جغرافیہ پر ہے۔

جرمنی چاہتا ہے کہ مشرقی یورپی ممالک روس کو اس سے دور رکھیں۔ وہ اگر نیٹو کے ممبر نہ بھی ہوں تو کم از کم روس مخالف ہی ہوں۔ چنانچہ یوکرائن میں یورپ دوست حکومت لانے میں جرمنی کا اہم کردار تھا۔ دوسری طرف وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ یورپ میں امن خطرہ میں پڑے اور سرد جنگ کی طرح کا ماحول پیدا ہو جو اس کی معیشت پر منفی اثر ڈالے۔ جرمنی کو روس کی گیس اور خام مال کی اشد ضرورت ہے اور اس کی بھر پور کوشش ہے کہ کوئی پر امن حل نکل آئے۔

کیا روس یوکرائن پر حملہ کرے گا؟

روس نے اپنی بات میں ”وزن“ پیدا کرنے کے لئے سوا لاکھ سے زائد فوج یوکرائن کی سرحدوں پر جمع کر لی ہے۔ وہ پہلے ہی مولدوویا میں افواج اتار چکا ہے۔ نیز یوکرائن کے دو مشرقی صوبے جہاں روسی قوم کی کثرت ہے، پہلے ہی روس کے زیر سایہ ہیں۔ یوکرائن اس طریق پر تین اطراف سے روس کے گھیرے میں ہے۔ مغربی طاقتوں کو اچھی طرح علم ہے کہ وہ روس کے مرکزی مفادات پر کاری ضرب لگا رہی ہیں اس لئے روس سے کسی بھی قسم کے رد عمل کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ روس کے ساتھ براہ راست تصادم کا نتیجہ ہولناک ہو گا۔ اسی لئے انہوں نے نہ صرف یوکرائن کی فوجی مدد نہیں کی بلکہ جو فوجی ماہرین وہاں موجود تھے وہ بھی نکال لئے ہیں۔ یوکرائن مغرب کے لئے اتنا بھی اہم نہیں کہ وہ اس کی خاطر عالمی جنگ کا خطرہ مول لے۔

غالب امکان ہے کہ روس یوکرائن میں بعض اڈوں پر مستقلاً اپنی فوجیں تعینات کرے گا۔ جیسا کہ جارجیا میں کر چکا ہے۔ اس کے لئے یوکرائن کے دونوں مشرقی صوبے، جہاں روسی قوم اکثریت میں ہے، مناسب ہیں۔ وہاں جارجیا کی طرح ”تحریک آزادی“ کو تسلیم کر کے اپنی فوجیں تعینات کر سکتا ہے۔ علاوہ ازیں روس جارجیا کے بعد یوکرائن کو مثال بنا کر مشرقی یورپی ممالک پر واضح کرنا چاہتا ہے کہ وہ نیٹو پر بھروسا نہیں کر سکتے۔ اس لئے ان کا مفاد اس میں ہے کہ روسی تحفظات کا خیال رکھیں۔

کیا روسی اقدامات درست ہیں؟

جہاں میزان میں خرابی کرنے پر مغربی ممالک زیر الزام ہیں وہیں روس بھی۔ خواہ روس کی مجبوری ہو اور وہ اپنی حفاظت کر خاطر یہ اقدامات کرے۔ بہرحال بین الاقوامی قوانین اور اخلاقی قوانین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ جارجیا اور یوکرائن کی آزادی کو پامال کرنے کا اسے کوئی حق نہیں۔ چنانچہ روس کے حصہ کا آسمان بھی ضرور اس پر ٹوٹ گرے گا۔ جو عدل سے تجاوز کرے گا، خواہ کسی دلیل سے، اس کا نتیجہ ضرور بھگتے گا۔ نظام عدل چلانے پر فائز فرشتے دلائل نہیں سنتے!

مستقل حل

اس مسئلہ کا پر امن حل اس طرز کی مفاہمت میں ہے کہ یوکرائن مغرب کے ساتھ منسلک تو رہے مگر اس بات کا ہمیشہ خیال رکھے کہ روسی مفادات پر کوئی ضرب نہ پڑے۔ نہ تو اپنے ہاں مغربی افواج کو جگہ دے، نہ روس کی تجارت کو متاثر کرے، نہ ہی یوکرائن کی روسی آبادی پر کوئی سختی کرے۔ مغربی ممالک اس بات کی یقین دھانی کروائیں کہ وہ مشرقی یورپ میں فوجیں تعینات نہ کریں گے۔ اسی طرح روس کو جارجیا اور یوکرائن وغیرہ میں آزادی کی تحریکوں کی حمایت بند کر کے وہاں سے اپنی فوجیں واپس بلانی چاہئیں۔

درحقیقت یورپ کو نیٹو سے بالا ایک یورپی دفاعی نظام تشکیل دینا چاہیے جس میں روس، مشرقی و مغربی یورپی ممالک سب شامل ہوں۔ آئندہ تمام مسائل وہاں حل کیے جائیں۔ نیٹو یورپ کے مسائل حل کرنے کا درست فورم نہیں نہ ہی کبھی اس کا یہ مقصد رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments