معلم اول


محمد ﷺ قرآن پاک کے شارح ہیں۔ ان کے بغیر قرآن مجید کے احکام کو سمجھا نہیں جا سکتا۔ مثال کے طور پر قرآن پاک میں نماز ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے مگر نماز پڑھنے کے آداب و اوقات اور طریقہ آپ ﷺنے بتائے ہیں۔ سنت رسول ہر عہد کے لئے رہنمائی کا ذریعہ ہے۔

”قرآن میں اللہ فرماتا ہے“ تمھارے لیے اللہ کے رسول میں ایک نمونہ تقلید ہے

اسلامی تعلیمات کی تبلیغ و اشاعت کے حوالے سے رسول اکرم ﷺ کو معلم اول کا مقام حاصل ہے۔ آپ ﷺ نہ صرف مکہ، مدینہ اور اس کے مضافات میں اسلام کی تبلیغ کا مشکل فریضہ سر انجام دیا بلکہ وحی کی صورت میں نازل ہونے والے احکامات کی تشریح بھی فرماتے رہے۔ آپ کا طریقہ تعلیم سادہ اور عام فہم تھا۔ لب و لہجہ مناسب تھا آپ کی باتیں سننے والوں کے دلوں میں فوراً اتر جاتی تھیں

آپ کے طریقہ تدریس کی خصوصیات مندرجہ ذیل تھیں
سادہ اور عام فہم انداز بیاں
مناسب اور متوازن لہجہ
شفقت اور نرمی
مختصر اور جامع خطاب
وعظ کا انداز
قول و فعل میں مطابقت
صبر و استقامت
حکیمانہ انداز
شیریں بیانی

آنحضور ﷺکا انداز بیان سادہ اور عام فہم تھا۔ سننے والے ان کی باتوں کو فوراً سمجھ جاتے تھے آپ کا لب و لہجہ نہایت متوازن ہوتا تھا آپ کی آواز نہ تو بہت زیادہ بلند ہوتی اور نہ ہی زیادہ دھیمی۔ آپ اپنی آواز کے اتار چڑھاؤ کو موقع محل کی مناسبت سے استعمال کرتے تھے اس طرح آپ کا خطاب پر کشش بن جاتا تھا اپنے خطاب کے دوران سامعین کے ساتھ نہایت شفقت اور نرمی کا برتاؤ کرتے تھے۔ رسول اکرم ﷺ کا خطاب مختصر اور جامع ہوا کرتا تھا آپ غیر ضروری باتوں سے اجتناب کرتے تھے اور کم سے کم وقت میں اہم باتوں پر روشنی ڈالتے تھے۔

اپنے خطاب کے دوران مثالوں سے وضاحت کرتے تھے وہ قوموں کے عروج و زوال کے اسباب اور واقعات سے واقف تھے۔ خطاب کے دوران مناسب موقعوں پر واقعات کی مثالوں سے وضاحت کرتے تھے۔ آپ اللہ کے سب سے برگزیدہ نبی تھے آپ کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہ تھا وہ بچپن ہی سے صادق اور امین کے القابات سے پکارے جاتے تھے آپ جس کام کی تلقین کرتے تھے وہ خود بھی کرتے تھے اس طرح آپ اپنی تعلیمات کا ایک عملی نمونہ تھے

علم کا شہر ہونے کے باعث آپ کی فہم و فراست اور حکمت کی کوئی حد نہ تھی آپ کا وعظ حکیمانہ باتوں سے مزین ہوتا تھا۔ آپ کی ذات مبارکہ صبر و استقامت کا عملی نمونہ تھی آپ نے زندگی بھر صبر و استقامت کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ ہجرت سے پہلے قریش مکہ نے آپ ﷺ پر بہت سختیاں کیں۔ مگر آپ نے پھر بھی ان کی بہتری کی دعا مانگی۔ آنحضور ﷺ نہایت شیریں دہن تھے۔ آپ کا کلام فصاحت و بلاغت کا عمدہ نمونہ تھا آپ کی شیریں بیانی سننے والوں کو مبہوت کر دیتی تھی۔ جب آپ کلام فرماتے تو صحابہ کرام اس طرح جذب ہو جاتے کے حرکت تک نہ کرتے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں

پروفیسر ڈاکٹر حافظ عبدالخالق کی کتاب امور علم التعلیم سے ماخوذ
خصوصی کاوش


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments