مونتاژ ( افسانے ) فارحہ ارشد


مقالہ : راشد جاوید احمد

آج اردو ادب تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے جہاں ایک طرف نت نئی اصناف وقت کی ضرورت کے تحت پیدا ہو رہی ہیں تو دوسری طرف پہلے سے موجود اصناف میں فنی اور فکری سطح پر انقلابی تبدیلیاں دونوں سطحوں پر ہو رہی ہیں یعنی ادب تخلیق کرنے والے اور ادب پڑھنے والے اس سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں پوری دنیا میں آئے روز تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں ادب میں نئے نئے تجربات کیے جا رہے ہیں مقابلے کی فضا قائم ہے عالمی سطح پر اردو ادب کی شناخت برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے ادب کو جدید رجحانات اور دوسرے عالمی ادب کے ہم پلہ بنانے کے لیے خود کو رجعت پسندی قدامت پسندی سے آزاد کر کے ایک معیاری ادب تخلیق کریں جو ہر سطح پر اپنی شناخت قائم کرے یہی وقت کی ضرورت بھی ہے اور تقاضا بھی۔ اور یہ تقاضا محترمہ فارحہ ارشد نے ”مونتاژ“ کی صورت میں کما حقہ پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔

” مونتاژ“ فارحہ ارشد کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے جس میں 22 مختصر افسانے ہیں۔ جو موضوعات کے اعتبار سے اپنے اندر بہت تنوع کے حامل ہیں۔ نئے موضوعات ڈھونڈنا اور ان پر افسانہ بننا ایک مشکل امر ہے لیکن فارحہ ارشد اس میں ہر طرح سے کامیاب دکھائی دیتی ہیں۔ اس کتاب کا ہر افسانہ ایک مفصل گفتگو کی مانگ کرتا ہے لیکن ان تمام افسانوں پر بات کروں تو مضمون طوالت کا شکار ہو گا اس لیے چند افسانوں کے ذکر تک ہی محدود رہوں گا۔

” بی فور دی ایور آفٹر“

ایک بہت ہی خوبصورت کہانی ہے جس میں پرکھوں کے فن تعمیر کی زبوں حالی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ افسانے کی ڈکشن، جزئیات اور فن تعمیر میں استعمال ہونے والی اشیاء کے ذکر سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ افسانہ نگار شاید اسی فنکار برادری کا فرد ہے۔

” توبہ سے ذرا پہلے“

جبر، طاقت اور دہشت کے ماحول اور چھوٹی بڑی زمینداریوں کی اندرونی سازشوں پر یہ کہانی اپنی تکنیک کی بنا پر ایک بیانیہ کہانی تو ہے ہی لیکن علامتی پہلو بھی لیے ہوئے ہے۔ یوں بیان اور علامت کے اس امتزاج نے کہانی کو قد آور کر دیا ہے۔ مائی بلقیسی اس کہانی کا ایک توانا کردار ہے۔

”زمین زادہ“

کمال بنت ہے اس کہانی کی۔ آج تک مذہبی شدت پسندوں کے بارے میں جو کہانیاں لکھی گئی ہیں وہ ان کے غیر انسانی رویوں اور افعال پر لکھی گئی ہیں۔ لیکن اس کہانی میں اس زہریلے ماحول سے مراجعت کا ذکر ہے۔ کوئی ایسا بھی ہو سکتا ہے جیسا اس کہانی کا مرکزی کردار ہے۔ حیرت ہے اس ممکنہ مراجعت پر ان ظالموں کے ظلم کی داستانیں لکھنے والوں کی نظر کیوں نہیں پڑی۔ مصنف کی ہر سطر سے واضح ہوتا ہے اس کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ گہرا ہے۔ ٖفارحہ ارشد یقیناً اس ماحول میں نہ کبھی رہی ہوگی نہ قریب سے دیکھا ہو گا لیکن یہ کہانی مراجعت کی رننگ کمنٹری ہے۔

” تلووں سے چپکا آخری قدم“

بینائی جانے کے صدمے سے دوچار فرد کی نفسیات کو بہت عمدہ طریقے سے افسانے میں ڈھالا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ افسانہ نگار نے اس کردار کا دکھ یوں محسوس کیا ہے کہ گویا سب اسی پر بیت رہا ہے اور یہی حسن تخلیق ہے۔

” ڈھائی گز کمبل کا خدا“

اس افسانوی مجموعے کی ایک عمدہ کہانی ہے۔ اسے کسی قسم کی تشریح کی ضرورت نہیں۔ ہمارے سماج میں، تیسرے درجے کے باسیوں کے ساتھ جو بیت رہی ہے اور جو مائنڈ سیٹ برسوں سے چلا آ رہا ہے اسے بہت ہی واضح صورت دی گئی ہے اس افسانے میں۔

” حویلی مہر داد کی ملکہ“

ایک اور عمدہ کہانی۔ اس معاشرے کی کہانی جہاں عورت کو عورت تو دور کی بات، انسان بھی نہیں سمجھا جاتا، برتنے کی ایک چیز سمجھا جاتا ہے اور شہری ماحول میں تو ایک کموڈیٹی گردانا جاتا ہے۔ کچھ سطریں اس کہانی کی قابل ستائش ہیں جیسے کہ

”ذہانت کو اگر سیدھا رستہ نہ ملے تو ٹیڑھے میڑھے رستوں سے ’بہنے‘ لگتی ہے۔“
” ہونہہ۔ بے چاری عورت“ ۔ مگر وہ عورت کو برتنے والا عورت کو جانتا ہی کتنا تھا۔ ”
”روپ کی دھوپ کہ چیل انڈا چھوڑے۔“
روپ کی اس تیز چلچلاتی دھوپ سے تشبیہ نئی اور درجہ کمال کی ہے۔

اس موضوع پر کوئی ایک ہزار کہانی لکھی گئی ہوگی اور لکھی جائے گی لیکن اس میں جو سوال اٹھایا گیا ہے وہ کسی نے پہلے نہیں اٹھایا۔ عورت کو برتنے والا عورت کو جانتا ہی کتنا ہے

” دنا نیر بلوچ“

بہت ہی غور طلب افسانہ ہے جس میں ایک منفرد ٹریٹمنٹ نظر آتی ہے، براہ راست قاری کو نہ صرف متاثر کرتا ہے بلکہ شعور و آگہی بھی فراہم کرتا ہے۔ میں نے اس افسانے کو خاص طور پر ایک قاری کی نظر سے پڑھا ہے کہ میں نقاد نہیں ہوں۔ ادب کا ایک عام سا قاری ہوں۔ اس نے میرے دل و دماغ کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے، تو میں یہ سوچتا ہوں کہ فارحہ ارشد کا دماغ جب یہ کہانی بن رہا ہو گا تو کیا بیت رہی ہوگی۔ ایسی واردات کو دل سے لکھنے کے بعد لکھنے والے کے قلم سے سیاہی کی جگہ خون نہ ٹپکے تو اور کیا ہو گا۔

مجسمہ سازی، امن پسندی اور محبت کی علامت ہے اور مجسمہ ساز کا یہ کہنا کہ میرا پوسٹ مارٹم جلدی سے کردو۔ بذات خود ایک مزاحمتی جملہ ہے۔ اس لحاظ سے حساس اور تیکھے موضوع پر یہ ایک مزاحمتی افسانہ بنتا ہے۔ زمینی حقائق کو خوبصورت افسانوی رنگ دینا اور نت نئے موضوعات پر بے خوف لکھنا، فارحہ ارشد کو افسانہ نگاروں میں ممتاز بنا دیتا ہے۔ اس افسانے کا کینوس آفاقی ہے وہ اس لیے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں مقامی اور عالمی طاقتیں مل کر وہاں کے رہنے والوں کے پیروں تلے سے جو ان کی مٹی کھینچ رہی ہیں اور ظالمانہ کھیل کھیل رہی ہیں اسے اس افسانے کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔

گل زعفران، مٹی کی خوشبو، ایک سی ہجر کی خوشبو، موت کا عطر، ٹیڈ ٹاک، وینگوف، زرتشت اور اہرمن کا ذکر محترمہ فارحہ ارشد کے گہرے مطالعے، مشاہدے اور افسانے میں ڈھالنے کی زبردست تخلیقی صلاحیت پر دلیل ہے۔ مقصدیت سے بھرپور اس خوبصورت فن پارے کے لیے افسانہ نگار کو ڈھیروں داد۔

”شریکا“

موضوع کے اعتبار سے اگرچہ اس افسانے میں کوئی چونکا دینے والی یا نئی بات نہیں لیکن یہ فارحہ ارشد صاحبہ کا ایک بہت جاندار عمدہ اور مضبوط ڈکشن کا افسانہ ہے۔ جبر، طاقت اور دہشت کے ماحول اور چھوٹی بڑی زمینداریوں کی اندرونی سازشوں پر یہ تاثراتی کہانی اپنی تکنیک کی بنا پر ایک قدآور کہانی ہے۔

”مسکراہٹوں کی چھمکیں۔ تنی گردن کا بانکپن۔ خالی پیٹ تو اندام نہانی۔ گالی۔ سانپ کی کینچلی اترنے کے بعد نیا نکور پن۔ مچھر سے فرعون کے سر میں جوتے۔ کمال کہانی ہے، کمال اس لیے کہ کوئی اور افسانہ نگار ہوتا تو شاید اس عام سی بات سے کہانی نہ بنا پاتا کچرا بنا دیتا۔ لیکن اس عام سی بات میں پورا استحصالی نظام اور وراثتی جبر پوشیدہ ہے جسے محترمہ فارحہ ارشد نے خوبصورت الفاظ میں مصور کر دیا ہے۔ راست بیانیے کا یہ افسانہ کسی قصہ پارینہ کو بیان نہیں کرتا بلکہ پیشکش کے لحاظ سے آج کے دیہی ماحول کی تجسیم ہے۔

”اماں ہو مونکھے کاری کرے ماریندا“

کیا غضبناک افسانہ ہے۔ کیا عمدہ اور مضبوط ڈکشن ہے۔ واہ۔ سانول تو ہر جوان ہوتی لڑکی کے من میں ہوتا ہے اور ہمارے ہاں جبر کے ماحول میں سانول ہاتھ آ جائے تو اسے مار دیا جاتا ہے یا پھر سانول کی سانولی کو کاری کیا جاتا ہے۔ کہانی صرف سانول کی حد تک ہی نہیں بلکہ اس سانول کے اندر عورت ذات کی ساری محرومیاں، نا اسودگیاں اور نہ پوری ہونے والی خواہشیں اور ضرورتیں بطور استعارہ موجود ہیں۔ یہ خواہشیں، نا آسودگیاں، ضرورتیں۔ کبھی کسی نے نہ پوچھی ہیں نہ محسوس کی ہیں۔ اور پڑھے لکھے معاشروں میں تو جہیز میں ایک کتاب بھی دی جاتی تھی۔ بیوی کو مزید غلام بنانے کے لیے۔ افسانے کی تمام سطریں خوبصورت ہیں۔ جس لوکیل میں لکھا گیا ہے وہاں کی زبان کی چاشنی پوری طرح لطف دے رہی ہے۔

” چولی کیا تنگ ہوئی کہ چنری کا گھونگھٹ بھی اسے چھپانے میں ناکام نظر آنے لگا۔“
” ہمرچو اور ملہار گاتے طالب و مطلوب کے درمیان ہجر آن کھڑا ہوا۔“
کیا خوبصورت لائنیں ہیں۔ شاعری ہے یہ۔ واہ

” چال میں ٹھمریاں جاگیں“ ۔ اتنا خوبصورت فقرہ۔ میں نظر باز ہرگز ہرگز نہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ اب جب بھی کسی ایسی چال والی کو دیکھا تو لا محالہ ٹھمریوں کے جاگنے پر نظر ضرور اٹھ جائے گی۔

” دس گھنٹے کی محبت“

بہت جاندار افسانہ ہے۔ زلزلے کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں ہونے والا استحصال ایسا ہے کہ اس پر قلم ضرور اٹھنا چاہیے تھا۔ قلم اٹھا اور خوب اٹھا۔ درد، کسک، تکلیف، سبھی کچھ پرویا گیا اس میں۔ جس خطہ زمین کے ہم باسی ہیں وہاں عورت کا استحصال کرنے کے لیے کسی حادثے یا آفت کی ضرورت یا جواز نہیں ہوتا بلکہ عورت گھر میں ہو یا دفتر میں یا کھیت کھلیان میں، ایک ضرورت کی چیز سمجھی جاتی ہے اور اس افسانے میں اسی بات کا برملا پیغام ملتا ہے۔ یہ ڈکشن دیکھئے ذرا۔

” دل کی زمین بنا کسی کشش ثقل کے خلا بن گئی
محبت کو اپنے تن من پر کسی وحی کی طرح اترتے دیکھا۔
بانہ اور زوئی ڈارلنگ

ایک بہت ہی عمدہ اور تاثراتی کہانی ہے۔ سرخ دیواروں والی عمارتوں میں زیادہ تر حیثیت کو تولا جاتا ہے، ٹیلنٹ کو نہیں۔ ان عمارتوں کے مکینوں میں سے شاید ہی کوئی وہاں کے رہن سہن بود و باش یا اخلاقیات سے اختلاف رکھتا ہو کہ سب کو ایک ہی نصاب کے تحت پروان کیا جاتا ہے اور یوں وہ سب وجود رکھتے ہوئے بھی عدم ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ ”میری موجودگی کو“ عدم موجودگی ”میں بدلنے کا حق کسی کو نہیں۔“ تو اسے عمارت کے مالک حوصلہ افزائی نہ کر کے ٹھڈے لگاتے ہیں اور اگر کہیں باہر سے کسی خوشگوار ہوا کا سہارا لینا چاہیں تو فضا مسموم پاتے ہیں اور آخر کار سمجھ نہیں پاتے کہ کمی کہاں ہے۔ اس خوبصورت کہانی کو ”میری موجودگی کو“ عدم موجودگی ”میں بدلنے کا حق کسی کو نہیں“ کے عنوان تلے پڑھنا چاہیے۔

” آدھی خود کشی“
اپنا پیٹ بھرا ہوا ہو تو دوسروں کا خالی کیسے نظر آئے۔ یہ ہے اس کہانی کی کلید۔ کیا عمدہ ڈکشن ہے
” یہ بوڑھی مائی جس کے چہرے پر اتنی جھریاں نہیں جتنے آنسوؤں کے نیل پڑے ہیں“
” بیٹوں پر آسرا نہ کرنا۔ پتر ذات اپنے بکھیڑوں میں مائی باپ کو بھول جاتی ہے۔ “
” سانپ چنبیلیوں پر زہر تھوکتے رہیں گے اور خوشبو وہیں پڑی کہیں گلتی سڑتی رہے گی۔“

”مورخ میری تاریخ نہ لکھنا“

ماضی میں تاریخ لکھنے والوں میں سے بیشتر نے واقعات کو اپنے ذہن اور نظریے کے مطابق دیکھا اور پھر اپنی پسند نا پسند کے مطابق واقعات کو مسخ کر کے اپنی مرضی کی تاریخ تعمیر کی۔ یہ مورخ، بادشاہوں، حکمرانوں اور امرا کے ملازم تھے اس لیے وہی لکھتے تھے جس سے ان کے آقا خوش ہوتے تھے۔ ویسے بھی ہماری تاریخ ایک خاص طبقے کی فتوحات، جنگوں اور عیاشیوں تک محدود ہے اور عوام کی زندگی اور ان کی سرگرمیوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔

فارحہ ارشد کا یہ افسانہ، مورخ میری تاریخ نہ لکھنا ان عوام کے جذبات و احساسات کی تاریخ ہے۔ انہوں نے مورخ کو تو تاریخ لکھنے سے منع کر دیا ہے لیکن جو تلخ اور سچی تاریخ انہوں نے اس افسانے میں لکھ دی ہے اس نے اس افسانے کو ایک بڑا افسانہ بنا دیا ہے۔ اس میں کسی پر شکوہ حکمران کا ذکر نہیں بلکہ یہ کرم دین اور اللہ دتے کی جھکی کمروں کی تاریخ ہے۔ یہ تاریخ ہے ڈھلتی عمر میں بیٹوں کی جگہ مشقت کرنے والوں کی۔ یہ تاریخ ہے دھانی اور کیسری چنریوں کے پامال ہونے کی اور یہ تاریخ ہے بچیوں کی گڑیوں سے گڑیوں کی شادی کرنے کی۔

یہ تاریخ ہے اس منظر کی جو جیسا ہے ویسا نظر نہیں آتا اور آتا ہے تو ادھورا۔ فارحہ ارشد کے اس تاریخی پنے میں آدھے دروازے کا استعارہ، اگنے اور لگنے والی بھوک اور جسم کی بھوک، بے بسی اور تلخی عوامی شعور کی عکاسی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ شہید زندہ تو کہلائے جاتے ہیں لیکن وہ زندوں والا کام نہیں کر پاتے۔ اور اس سے بڑا سوال جو اس بے حد خوبصورت افسانے میں اٹھایا گیا ہے جسے ہم سب سوچتے ہیں لیکن کہنے کی ہمت نہیں رکھتے کہ کس کی لڑائی کس نے کس کے لیے لڑی۔ واقعی کوئی مورخ اس قدر سچی اور تلخ تاریخ نہیں لکھ سکتا۔ یہ افسانہ آنے والی نسلوں کے لیے سچی تاریخ کا ایک باب ہو گا۔

ان چند افسانوں کے علاوہ، آدھی خود کشی، امیر صادقین تم کہاں ہو، گرہن گاتھا، ننگے ہاتھ، ایک تصویر خدا کے بغیر اور امیر صادقین، ایک سے بڑھ کر ایک افسانہ ہے۔ میں ان پر بھی بات کرنا چاہتا تھا لیکن طوالت مجھے روک رہی ہے۔ ایک افسانے کا عنوان ہے ”بوسکی! کہانی ابھی ادھوری ہے“ یہ ایک منفرد اسلوب کی جدید کہانی ہے اور جیسے کہ فارحہ ارشد نے خود کہیں لکھا ہے کہ کتاب شائع ہونے کے بعد انہیں یہ کہانیاں پرانی لگنے لگی ہیں اور وہ کچھ نیا لکھنا چاہیں گی۔ بے شک فارحہ کے ذہن اور قلم میں اتنی طاقت ہے کہ وہ نہ صرف نیا سوچ سکتی ہیں بلکہ اسے افسانے میں منقلب بھی کر سکتی ہیں۔

بہت سے ہم عصر افسانہ نگاروں کے برعکس، فارحہ ارشد زمین زادوں کی کہانیاں لکھ رہی ہیں اور ان کے افسانوں میں ان کا مطالعہ، مشاہدہ، جزئیات، رمزیت، بیانیے کا فسوں، حقیقت نگاری، ترقی پسندی، بے باکی، سوچ اور فن قصہ نگاری اوج کمال پہ نظر آتا ہے۔ ان افسانوں میں قاری کو سماجی ناہمواریوں کا ذکر بھی ملے گا اور معاشرے میں بڑھتے ہوئے نفسیاتی معاملات بھی۔ یہ افسانے ہمیں زندگی کے درد بھرے اور سکھ بھرے دونوں منظر نامے دکھاتے ہیں۔ افسانوں کے موضوعات اور فنی تخلیق سے افسانہ نگار کی عصری آگہی کا پتہ ملتا ہے۔

بلاشبہ فارحہ ارشد ایک اہم افسانہ نگار کے طور پر ایک منفرد اسلوب بنا چکی ہیں اور فکشن سے محبت کرنے والے اس اسلوب کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کی محبت میں بھی گرفتار ہوئے بغیر رہ نہیں سکیں گے۔

کتاب کا سرورق ابراہیم رامے نے بنایا ہے جو مناسب ہے۔ دستاویز مطبوعات نے اس کتاب کو عمدہ طریقے سے شائع کیا ہے اور کتاب فون نمبرر 03334344716 پر رابط کرنے سے دستیاب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments