روداد سفر حصہ 8


کچھ اصولوں کا نشہ تھا کچھ مقدس خواب تھے
ہر زمانے میں شہادت کے یہی اسباب تھے

تائیوان پانچ چھ سال گزارنے کے بعد وہاں کی حسین یادیں اور کچھ مشاہدات کے ہمراہ، میں واپس پاکستان پہنچ گیا۔ ائرپورٹ پر اترتے ہی امیگریشن عملے اور کسٹم والوں سے واسطہ پڑا تو یقین محکم ہو گیا کہ ہم ابھی تک اسلام کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہیں، کیونکہ اسلام کے قلعے کے سرکاری ملازمین، جن سے بیرون ملک سے آنے والوں کا سب سے پہلے واسطہ پڑتا ہے، انہیں ان کی توقع کے مطابق ہم ”سلامی“ بھی پیش نہ کر سکے۔ یقین جانیں ایسی صورتحال تو ہمیں مشرک مسیحیوں، فلپائنی اور کافر بدھسٹ تائیوانیوں کے ہاں بھی پیش نہیں آئی۔ یہاں تو ہر کوئی ایسے دیکھ رہا تھا کہ میں ہی کولمبس ہوں جو امریکہ کے ریڈ انڈینز سے سونے کے خزانے، کے ٹو ( K 2 ) سگریٹ کے عوض لے آیا ہوں اور اس خزانے پر ائرپورٹ کے عملے کا بھی حق قائم ہوتا ہے۔ خیر ہم بھی پاکستانی تھے، مسکین صورت بنا کر دو ہزار بچا کر باہر نکلے، ٹیکسی پکڑی اور اپنے گھر پہنچ گئے۔

لیکن سوال یہ تھا کہ کیا اسلام صرف نمازوں اور روزے اور حج کا نام ہے۔ کیا اس میں ناجائز زیادتی، ناجائز ذرائع آمدن کی ممانعت نہیں ہے۔ یہ تو بنیادی انسانی اخلاقیات ہے کیا وہ ہم پر وہ لازم نہیں ہیں۔

پاکستان میں تین چار سال قیام کیا لیکن دل تھا کہ کہیں لگ نہیں رہا تھا۔ باہر کی دنیا کوئی اور ہی دنیا تھی، جبکہ یہاں سب کچھ رکا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ وہاں دیکھنے سیکھنے کو بہت کچھ تھا اور یہاں وہی مصنوعی سا لبادہ ہر ایک شخص اوڑھے ہوئے تھا، زیادہ تر لوگوں کو اپنے سے زیادہ دوسروں کے بارے میں فکر مند پایا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ یہاں وہی کچھ تھا کہ کبھی اسلام خطرے میں تو کبھی ملک نازک حالات سے گزر رہا ہوتا۔ کچھ عرصہ تک لوگوں کے ان سوالوں کے جواب دیتا رہا کہ کب آئے ہو اور کتنی چھٹی ہے؟ ایک ہی ماہ گزرا تو لوگ پوچھنے لگے کب جاؤ گے، کہیں پکے پکے تو نہیں آ گئے؟ گویا اپنا ہی وطن بے گانہ ہو گیا ہو۔

اس عرصے میں لوگوں کی سوچیں بہت تنگ سی محسوس ہوتی تھیں۔ جیسے لکیر کے فقیر ہوں۔ یہ نعرے سن کر بہت حیرت ہوتی کہ سویت یونین کو ہم نے شکست دی، اب ہم امریکہ کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔ ان نعروں کے برعکس دنیا نے دیکھا کہ سویت یونین اور امریکہ تو خوشحال ہی رہے، لیکن انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا خواب دیکھنے والے اب ساری دنیا سے بھیک مانگ رہے ہیں۔ یہ کیسی فتح ہے جس میں فرشتوں کے لشکر بھی اترے لیکن پھر بھی بدحالی دور نہ ہو سکی۔

جماعت اسلامی کے ایک مقامی اجتماع میں، میں نے کچھ سوالات امیر صاحب کے سامنے رکھے، انہوں نے جواب دینے کے بجائے مجھ پر لبرل اور مغربی تہذیب سے متاثر ہونے کا فتویٰ لگا دیا۔ ان کے اس رویے سے میں بھی جذباتی ہو گیا اور کہا کہ اگر آپ کے پاس میرے اس سوال کا جواب نہیں تو صاف انکار کر دیں لیکن میری نیت پر حملہ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ میں اپنی ذہنی خلش کو دور کرنا چاہتا تھا جبکہ اس کے جواب میں فتوی دیا گیا، ان کے اس جواب یا فتوی کا مطلب میں یہی سمجھا کہ ”جاؤ بھاڑ میں“ ۔ بہرحال علمی حالت یہی تھی، اور یہی ہے۔ جو تربیتی پروگرام کروا رہے تھے، دیگر کارکنان کے تو کیا ہی کہنے۔ میں یہ بات کسی حد تک دعوی سے کہہ سکتا ہوں کہ جماعت اسلامی کے ارکان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ساتھی ہو، جس نے مولانا مودودی رحمہ اللہ کے لٹریچر کا مکمل مطالعہ کیا ہو۔ یہ بات میں ٹیکسلا شہر کی حد تک ہی کہہ رہا ہوں۔ آپ میرے سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے، نہ سننے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ باقی جو دنیا سامنے کھڑی ہے وہ کیا کیا سوال اٹھائے گی۔ آپ خود کو عالم اسلام کی تحریک کہتے ہیں، آپ ان سوالوں سے کیسے بھاگ سکتے ہیں؟ اسلام تو ساری انسانیت کے لیے خدا کا پیغام ہے اور یہ تو ہم نے سب کو پہنچانا ہے۔

ہمارے ایک ماموں ہیں جو عرصہ بیس سال سے کم و بیش تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں، کئی چلے اور کئی بیرونی دورے کر چکے ہیں۔ ہمارے والد اور ہمارے ماموں کے درمیان مراسم کچھ اچھے نہیں تھے۔ تاہم دکان قریب ہونے کی وجہ سے دوپہر کا کھانا دکان پر اکٹھے ہی کھایا کرتے۔ دونوں کے ایک مشترکہ دوست تھے، ان کے آنے پر جب بحث شروع ہوتی تو کہاں سے کہاں جا پہنچتی۔ ایک دن میں نے بھی اس بحث میں انٹری ماری، ماموں اپنی کسی بات کی دلیل میں کہہ رہے تھے کہ بزرگوں نے فرمایا۔

ان کا یہ کہنا تھا کہ میری زبان پھسلی اور میں نے کہہ دیا کہ یہ بزرگ کون ہوتے ہیں دین میں کچھ نیا فرمانے والے۔ فرمانے کا حق خدا اور اس کے رسول ﷺ کو ہے۔ ویسے یہ ”بزرگ“ بھی عجیب ٹرم ہے۔ جسے مرے ہوئے دو تین سو سال گزرے ہوں وہ بزرگ بن جاتا ہے اور جسے مرے ہوئے پانچ، چھ سو سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہو اور ان کی کہانیاں بھی مارکیٹ میں ہٹ ہوئی ہوں۔ وہ ولی اللہ بن جاتے ہیں۔

ماموں یوں تو تبلیغی واعظ کے بہت ماہر تھے اور قصے بھی بہت سناتے تھے، لیکن معاملات میں اللہ ہم سب کو معاف فرمائے۔ کیا یہ محنت بھی کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتی یا پھر ہم نے خدا کے اس پیغام کو سمجھا ہی نہیں؟ ان کے ساتھ جب بھی محفل ہوتی تو موضوع کہانیاں ہی ہوتیں۔ میں یہی سوچتا رہتا کہ کیا ہمارا دین اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لیے ان کہانیوں کا محتاج ہے؟ ان کے ہاتھ میں پکڑی تسبیح بھی مجھے سخت خلجان میں مبتلا کر دیتی کہ ایسی تسبیح تو میں نے بدھ ازم کے پیروکاروں کے ہاتھ میں بھی دیکھی اور وہ بھی اسے ایسے ہی دانہ دانہ گنتے رہے پھر یہ ہمارے ہاتھ کیسے آ گئی اور آئی بھی تو قبولیت کیسے اختیار کرتی گئی۔

کیا قرآن میں جہاں جہاں ذکر کا لفظ آیا ہے، اس کے معنی یہی تسبیح گننا ہے؟ پھر کیا ایک خاص تعداد کی تسبیح گننے کے بعد آپ خدا کو مجبور کر دیں گے کہ وہ آپ کا کام ہر صورت میں کرے، کیونکہ ہم نے بھی تو اس کا کہا ذکر گنتی میں پورا کر لیا ہے۔ پھر ہمارے شہر میں خانقاہ ہے بھی ہیں جہاں ذکر کی محفلیں سجتی ہیں۔ کیا یہاں وہی ”ذکر“ ہوتا ہے، جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے؟

میرے ماموں کے کپڑے ہمیشہ ہی لمبے اور چوکور دامن کے ہوتے، جسے وہ درست لباس کہتے۔ میرے ذہن میں یہ سوال اٹھتا کہ کیا یہ اسلام کپڑے کے دامن میں محیط ہے۔ پھر ان کی اوپر والی جیب میں ایک مسواک بھی ہمیشہ رہتی اور مسجد میں وضو کرتے ہوئے نلکا کھلا ہوتا اور وہ مسواک کر رہے ہوتے۔ میں سوچتا کہ یہ مسواک کرنا زیادہ افضل ہے یا وہ پانی جو ضائع کیا جا رہا ہے اسے دوسروں کے لیے بچانا افضل ہے۔ پھر اگر یہ مسواک سنت رسول ﷺ ہے تو عرب کے دیگر لوگ اپنے دانت کیسے صاف کرتے تھے۔ اگر مسلمانوں کے کپڑوں کا ڈیزائن اگر کفار مکہ سے الگ تھا، تو پھر غزوہ احد میں مسلمان الگ سے پہنچانے کیوں نہ گئے اور غلطی سے اپنے ہی ساتھی اپنوں کی تلواروں سے کیسے شہید ہو گئے۔

مجھے صحیح یاد نہیں کہ میرے ماموں نے یا کسی اور نے ایک بار مجھے یہ کہا کہ دس ہزار مرتبہ درود شریف پڑھو تو خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت نصیب ہوتی ہے۔ میرے ذہن میں سوال اٹھا کہ اس بات کی تصدیق کون کرے گا کہ میرے خواب میں آنے والے رسول اللہ ﷺ ہی ہیں۔ اگر ہمیں خواب میں ایسی زیارت ہوتی ہے تو یہ تو محض میرا ہی دعویٰ ہو گا، لیکن اس بات کی تصدیق کون کرے گا کہ خواب میں آنے والی ہستی فی الواقع ہمارے نبی ﷺ کی ذات والا صفات ہے۔

ایک مرتبہ عید کی نماز پڑھنے محلے کی مسجد میں گیا۔ امام مسجد خطبہ دے رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ بختیار کاکی کو غیب سے آواز آئی۔ مجھے فوراً قرآن کا بیان کردہ قصہ یاد آ گیا۔ جس میں ذکر ہے کہ غیب سے آواز تو موسی علیہ سلام کو آئی تھی، یہ بختیار کاکی کو کس نے آواز دے دی۔

میرے لیے یہ کچھ عجیب ہی دنیا بن رہی تھی، ایسے لگ رہا تھا کہ شاید میں ہی پاگل تھا جو سوال اٹھا رہا تھا اور جواب میں لبرل اور مغربی تہذیب سے متاثر ہونے کا فتوی لے رہا تھا۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں اسلام کو مسلمانوں کی میراث نہیں سمجھتا بلکہ میں اسے پوری انسانیت کے لیے خدا کا پیغام سمجھتا ہوں، جسے ہم نے ہی دنیا کو پہنچانا ہے تو دنیا جو سوال لے کر کھڑی ہے ان کو جواب دینا ہم پر فرض ہے۔ فتوی تو کوئی پانچ سال کا بچہ بھی بول سکتا تھا۔ قرآن نے تو ہر طرح کے سوالوں کے جواب اور اپنی حقانیت کے دلائل دیے۔ خدا نے اپنے مالک و رب ہونے اور خالق ہونے کے دلائل دیے اور ایسے سادہ دلائل کہ وہ بھیڑ بکریاں چرانے والے عرب بھی بخوبی سمجھ گئے اور ایک ہم ہیں کہ حقانیت بھی بزرگوں کی کہانیوں سے لے رہے ہیں۔

جماعت سے مایوس ہو کر میں نے ڈاکٹر اسرار احمد (بانی تنظیم اسلامی) کو پڑھنا سننا شروع کیا۔ لیکن افسوس کہ مجھے وہاں بھی سوالوں کے جواب ملنے کے بجائے، ان کے بیان کے مطابق ہر طرف اور ہر وقت یہود و نصاری ٰ کی سازشیں ہی نظر آئیں۔ یا پھر انقلاب اور بس انقلاب تھا کہ آیا چاہتا تھا۔ یہ انقلاب وہ جن لوگوں کے ذریعے سے لانا چاہتے تھے اور جن لوگوں کے لیے لانا چاہتے تھے، ان کے لیے بھی حقیقی اسلام ایک اجنبی فکر ہے۔

انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ معاشرہ کس حالت میں ہے، وہ لوگ کس حالت میں ہیں جو انقلاب لانے کے لیے ان کے ہمراہ ہیں۔ اس معاشرے کے لیے انقلاب جہاں کا مسلمان خود کے لیے مسلمان لفظ کا استعمال محض رسمی طور پر ہی کرتا ہے۔ ایسے مسلمانوں کے لیے ڈاکٹر صاحب تھے کہ کم پر راضی نہ ہوئے اور بس مہدی ہی کو اتارنے ہی والے تھے کہ ان کا اپنا وقت پورا ہو گیا اور ان کا خواب ادھورا رہ گیا۔

ایک دنیا ہے جو اس پیغام کو سننے کی منتظر ہے کہ وہ پیغام کسی بھی حالت میں ان تک پہنچے، لیکن جب بھی پہنچے تو گواہی ان کا باطن خود دے اور کہے کہ یہی سچا راستہ ہے اور یہی اسلام ہے جو دین فطرت ہے۔ جبکہ ہم ہیں کہ اس پیغام کو کبھی دیو مالا کہانیوں سے اور کبھی خونی انقلاب سے لکھ رہے ہیں۔

انہی سوالوں کو لے کر ہم نے چائنہ کی طرف اپنا رخ کیا اور وہاں پہنچنے کی نیت کر لی۔ ”منہ طرف چائنہ شریف“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments