امریکہ کے صادق اور امین


دوسرے واقعے سے ایک دن پہلے بے بی لون ریستوراں میں دل بھول آئے تھے۔ ہوا یوں کہ کامیا پٹیل نے ملنے نیو جرسی سے آنا تھا۔ نیویارک سے جڑی ریاست ہے۔ لوگ وہاں سے نیویارک آتے جاتے ہیں۔ ٹیکسز اور مکانات کے حساب سے سستی پڑتی ہے۔ ذرا کھلی کھلی اور غریب پرور ہے۔ سمجھ لیں اسلام آباد پنڈی کا سا گٹھ جوڑ ہے۔ ہمارا دھیان ہوتا ہے کہ ہر جگہ کراچی کا سا موسم ہوتا ہے۔ یہاں کے موسم کا سیلکٹرز والا مزاج کہ “دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جان فراز” والا۔

وقت مقررہ پر طے شدہ مقام پر پہنچے تو فون آ گیا کہ پورے ڈھائی گھنٹے لیٹ ہوں گی۔ گھر میں ایمرجنسی ہو گئی ہے۔ بارش کی اس دوران جھڑی لگ گئی۔ ملاقات لازم تھی۔ گھر جاکر واپس آنا جانا خسارے اور بے لطفی کا سودا۔ سامنے بے بی لون یعنی بابل ریستوراں کا حقہ لاؤنج کھلا تھا۔

دروازے پر فرنیچ ماڈل ٹینا کناکے (Tina Kunakey) جیسی ویٹریس کھڑی تھی۔ سینے پر مرجانی کی چھوٹی سی نیم پلیٹ سجائے۔ پہنچے تو بتانے لگی کہ ایتھوپیا کی ہے۔ وہاں مرجانی Coral یعنی سمندری چٹان کو کہتے ہیں۔ ہمیں عربی کے لولو و المرجان یاد آ گئے۔ موتی اور سیپ قسم کے۔ ہمارا وطن اور نام پوچھا۔ وطن سے تو بہت واقف نہ تھی مگر نام سن کر معنی پوچھ بیٹھی ہم نے ابن انشا کی ایک لائن میں تحریف کی اور بجائے اس کے کہ کہتے کہ ہمارے نام کا مطلب ایک طرح کا کانٹا ہوتا ہے کہہ دیا کہ ہمارے نام کا مطلب ہماری اپنی میمنی زبان میں Clown Fish ہے۔ یاد رہے کہ یہ مچھلی Coral Reefs میں رہتی ہے۔ ارے پھر تو ہم پڑوسی ہوئے۔ ہم نے کہا تجھے مچھلیوں کا اور کورل ریف کا بہت پتہ ہے۔ کہنے لگی میرا پروگرام ہے کہ میں ہوائی یونیورسٹی میں میرین بائیلوجی پڑھوں اور پارٹ ٹائم اسکوبا ڈائیونگ کی گائیڈ بن جاؤں۔ سو مجھے سب پتہ ہے کہ مسخری مچھلی کیا ہوتی ہے۔

ہم نے کہا اتنا سب کچھ صرف ہمارے وزیر اعظم کو پتہ ہے وہ یورپ کو یورپ سے زیادہ جانتے ہیں۔ مسکرا کر کہنے لگی وہی جو جرمنی کو جاپان سے ملا دیتے ہیں۔ ہم نے کہا یہ ہمارے وزیر اعظم کی اتھارٹی ہے تجھے کیا پتہ کہ ہمارا وزیر اعظم پوپ اور آیت اللہ ڈاکٹر سید علی خامنہ ای کے بعد دنیا کا سب سے طاقتور لیڈر ہے۔ ہمارے ایک وزیر اعظم تو ایسے تھے کہ شراب نہ پینے کے باوجود کرغزستان کے سرکاری عشائیے میں تین دفعہ تقریر کے دوران کرغزستان کو ازبکستان پکارتے رہے۔ یہ ہوتا ہے طاقت اور ہیوی مینڈیٹ کا نشہ۔ انہیں جب سفیر نے بتایا کہ یہ کیا خچ (نیزے یا تلوار کا گھاؤ) ماری ہے تو کہنے لگے ”یار میرے ولوں معافی منگ لئیں او جیہڑا احمد شاہ مسعود سی او مینوں کدی وی چنگا نہیں لگیا“ ۔ انہیں جب بتایا کہ وہ شیر پنج شیر ویلی تو تاجکستان کا تھا تو کہنے لگے اچھا تے او کوئی ہور ملک ہے۔ ہمارے مرشد ڈاکٹر ظفر الطاف کو یہ واقعہ اس سفیر محترم نے سنایا تھا جسے میزبانوں سے معافی مانگنے کا ناخوش گوار فریضہ سونپا گیا تھا۔ بیوروکریٹس کی محفل ہو تو شراب، گوسپ اور کمینگی ٹیبل پر وافر مقدار میں دستیاب ہوتے ہیں۔ سفیر تمسخر سے ٹھٹھا مارکر کہنے لگے شکر ہے وزیر اعظم نے پڑوس کے ملک ازبکستان کا نام لیا ورنہ وہ اس کی جگہ ملتان، مردان بھی کہہ سکتے تھے۔

مرجانی نے پوچھا کہ کیا پیؤ گے تو ہم نے کہا شیشہ۔ شیشہ تو خود لے آئی مگر اپنے ہوائین کافی کی رنگت کی لپ اسٹک والے ہونٹوں سے سامری کی پھونک مارکر دہکایا نہیں۔ مسکرا کر پوچھا

Any thing to drink?

ہم نے بھی انتخابات سے پہلے کے وعدوں والی شیرینی لہجے میں گھول کر کہا اور اس کے ساتھ شائے مع لیمون مع نع نع جس پر وس نے آواز ماری کہ

Hey Nana here is one more Nana

لہراتا جھومتا ہسپانوی اداکار انتونیو بندراس جیسا ایک مردوا پیچھے کچن سے آیا۔ مصری تھا کہنے لگا

Silly goose don’t know that nana in Arabic means mint.

ہمارے سامنے سلگے دیے کے اوپر لبالب بھری کیتیلی رکھ گیا۔ کم از کم چار کپ جتنی۔ ہم نے کہا بھوتنی کے اتنی چائے۔ اس نے کہا پیؤ۔ قیمت کیتلی کے حساب سے بیس ڈالر ہے۔ کپ کے حساب سے نہیں۔ یوں بھی ہمارے دومیات مصر میں کہتے ہیں کہ قہوے۔ عورت۔ دولت سے جو انکار کرے وہ سالا چھکے (ممبئی میں کھسرے کو کہتے ہیں) کا بھانجا۔

پہلے کیتلی کو غور سے دیکھا پھر چکھ کر دیکھا۔ نہ لیموں تھا نہ پودینہ۔ ہاں البتہ کچن سے مرجانی کے قہقہے بون چائنا کی طشتری پر سونے کی سکوں کے مانند ٹن ٹنا بجے چلے جاتے تھے۔ ہم نے سوچا، برسات ہے جوانی ہے، دل فریب مصری رفیق کار ہے۔ بھول گئی ہوگی۔

بل جسے ترکی میں حساب کہتے ہیں وہ جب مرجانی لے کر آئی تو صرف شیشے کے بیس ڈالر چارج کیے گئے تھے۔ چائے کے بیس ڈالر اس میں شامل نہ تھے۔ ہم سمجھے کہ شاید بھول ہوئی ہو۔ توجہ دلائی تو اپنی بڑی ایتھوپین آنکھوں کو نچا کر کہنے لگی کون سی چائے؟

ہم نے کیتلی کی جانب اشارہ کیا جس کے نیچے دیا اب بھی ٹمٹماتا تھا۔

سر جھکا کر کہنے لگی ”یہ وہ چائے نہیں تھی جس کا آپ نے آرڈر دیا تھا۔ اس میں آپ کی فرمائش لیموں اور نع نع کی تھی۔ وہ ہمارے پاس ختم ہو گیا تھا۔ میں اور نانا صرف دو ہی تھے۔ پچھلی گلی کے کونے پر پھل اور سبزی کا ٹھیلے والا ہوتا ہے۔ وہ آج شاید کسی وجہ سے آیا نہیں۔ سو ہم آپ کی فرمائش پوری نہ کرسکے مگر ایسا اچھا دن ہو۔ آپ کسی کے منتظر ہوں تو آپ کو چائے سرو نہ کرنا بھی ہمارے کسٹمر سروس کے اصولوں کے خلاف تھا۔ اس مشروب کے جو آپ کے ٹیسٹ سے کم تر معیار کا تھا اس کے دام لینا بھی ایک طرح کی بد دیانتی ہوتی۔“

ہم نے جب ٹپ کے بیس ڈالر چھوڑے تو اسے یقین نہ آتا تھا۔ کہنے لگی میں جب ہوائی میں اسکوبا ڈائیونگ کی گائیڈ بن جاؤں تو آنا۔ مجھے میرین بائی لوجی کے شعبے میں جامعہ میں تلاش کرنا مشکل نہ ہو گا۔ میں تمہیں اسکوبا ڈائیونگ کراؤں گی۔ ڈرنا مت۔ نیچے سمندر بہت شانت ہوتا ہے۔ ماں کی آغوش جیسا محفوظ۔

ہم نے ہات ملا کر علن فقیر اور محمد علی شہکی کی وہ لائن انگریزی میں دہرائی کہ تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا اسے دنیا کی لہروں سے کیا ڈرنا۔ ہما ہما کر پیاری

دروازہ کھول کر رخصت کیا ٹیکسی کے آنے تک دروازے پر کھڑی ہات ہلاتی رہی۔ ہم بھی اس صادق اور امین کو گلی کے نکڑ تلک دیکھتے رہے۔

(2)

میٹروپولیٹن میوزیم نیویارک سے نکلے تو برسات بہت تیز تھی اور دل بھاری۔ ہمارے ہاں تو رؤسا اپنی پر نانی کا پرانا ازار بند بھی کسی میوزیم کو نمائش اور تعلیم کی خاطر نہیں دیتے مگر یہاں نیلسن راک فیلر نے سونے کے جو ماسک دیے ہیں وہ ایک ماسک ہی کروڑ ڈالر سے کم نہ ہو گا اور اگر شمار کریں تو ایسے نوادرات کے سولہ شو کیسز وہاں موجود تھے۔ اس پر بھی ان اداروں کے کرتا دھرتا ایسے ظالم ہیں کہ دان دینے والوں کو نام فرش پر کندہ کرتے ہیں جس پر نمائش میں آنے والے شوقین گندے شندے جوتے لے کے ان ناموں کو روندتے ہوئے گزریں۔ ہم نے نمونے کے طور پر دو تصاویر لگائی ہیں

باہر ساون کی جھڑی لگی تھی سامنے مگر سڑک کے دوسری طرف گلی میں اوبر کی ایس یو وی میں سینیگال کے مہاجر حمد عبدو ہمارے منتظر تھے۔

سوار ہوئے تو کہنے لگے۔ آپ کہیں تو یہ بند کردوں۔ ہم نے سن لیا تھا کہ سیل فون پر تلاوت کلام پاک جاری تھی۔

ہم نے کہا نہیں یہ تو اچھی بات ہے۔ کہنے لگے ویسے یہ ہماری سروس کے آداب کے خلاف ہے۔

اللہ کا ذکر ہو تو مجھے اچھا لگتا ہے۔ مجھے عربی آتی ہے لہذا ذکر الہی سے خصوصی سکون ملتا ہے۔ مجھے لگتا ہے آپ بھی مسلمان ہیں۔ ہم نے جواب میں الحمد و للہ کہا تو مسکرائے اور جواباً اہلاً و سہلاً کہا۔

بتارہے تھے جمعہ ہے۔ پیر کو اب گاڑی نکالیں گے۔ نیو جرسی گرل فرینڈ کی طرف جائیں گے۔ وہ ماریطانیہ کی ہے۔ شادی کا ارادہ ہے۔ شہریت کی دستاویزات کی اڑچن اور مالی دشواریاں ہیں۔

ہماری منزل آ گئی۔ مین ہٹن میں میڈیکل یونیورسٹی کے قریب گھر کے باہر اترے تو آئی فون پچھلی سیٹ پر پڑا رہ گیا۔ امریکہ میں ہمیں کس نے فون کرنا تھا سو اس کی عدم موجودگی کا احساس دو گھنٹے بعد ہوا۔ کمپنی کو فون کیا تو علم ہوا کہ وہ حضرت عبدو تو اب پیر کو آئیں گے۔ تب تک صبر کرنا ہو گا۔ اچھے آدمی ہیں فون واپس ہو جائے گا اگر کسی اور مسافر نے نہیں اٹھالیا مگر ٹھہریے انہوں نے سروس آف کردی تھی لہذا دوسرے مسافر کی اس تک رسائی کا سوال نہیں پیدا ہوا۔ اس فون کے چالیس منٹ بعد ایک نئے نمبر سے بیٹی کو فون آیا کہ میرا نام عبدو ہے میں نے آپ کے نمبر سے بک سروس کا پسینجر کو اتارا تھا۔ وہ پریشان نہ ہوں فون ان کے پاس ہے۔ وہ بیاسی میل دور نیو جرسی پہنچ گئے تھے گاڑی بند کرتے وقت دھیان پڑا۔ فون واپس کرنے اپنی دوست سمیت واپس آتے ہیں۔ وہ اس وقت لنکن ٹنل کے پاس ہیں

بارش بدستور ویسے ہی برس رہی تھی۔ کہنے لگے مین ہٹن میں پارکنگ کا مسئلہ ہوتا ہے۔ ویک اینڈ رش ہوتا ہے۔ ہم کوشش کر کے نیچے مل جائیں۔ نکڑ پر ہم ان کے منتظر تھے۔ کہنے لگے فون فاطی نے دیکھا۔ میرا ارادہ تو پیر کو لوٹانے کو تھا مگر اس نے جب آپ کی عمر اور احوال جانا تو اودھم مچا دیا کہ کیا پتہ فون سے جڑی کوئی میڈیکل ایمرجینسی ہو۔ ہم ڈنر مین ہٹن میں کر لیں گے۔ آج اس کا دل ٹرکش کھانے کو کر رہا ہے۔

ہم نے ڈیڑھ سو ڈالر دینا چاہے تو بہ یک وقت عبدو اور فاطی کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔ چہرے پر ناخوشگواری کے بادل چھا گئے۔ کہنے لگے یہ کس بات کے۔ ہم نے کہا آپ کے وقت، زحمت، پٹرول اور فاصلے کے۔

کہنے لگے اس سے بری بات کیا ہو کہ ایک مسافر بے چارہ غلطی سے کوئی چیز بھول جائے اور اسے اس کی مالی سزا بھی ملے۔ ہم تو پریشان تھے کہ نہ جانے فون سے دوری سے آپ پر کیا گزر رہی ہوگی۔ کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو گا۔ اب ہم چلتے ہیں۔ ہم نے کہا ہمارے مہمان بنیں یہاں قریب ہی علی بابا اور سہارا ترکش کوزین ہے۔ مالکان جانتے ہیں۔ فون کر دیں گے تو ہمارے کارڈ پر چارج کر لیں گے۔ فاطی کہنے لگی پہلی پیشکش اور دوسری میں کیا فرق ہے۔ ہم کسی کی بھول پر مہمان نہیں بنتے۔ پاکستان کو ہمارا سلام کہیے گا اور اترنے سے پہلے فون جیب میں رکھ لیا کریں۔ سپاہی کو آتا دیکھ کر دونوں نے تیزی سے راستہ پکڑا اور ہم دیر تک اس صادق اور امین جوڑے کو تشکر سے دیکھتے رہے۔ جو مہاجر تھے، محنت کش تھے مگر روشن ضمیر اور درد مند دل رکھتے تھے۔

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments