چلو بھر انصاف
”ہم تھوڑے تھوڑے انصاف پہ، تھوڑے تھوڑے روزگار پہ، تھوڑی تھوڑی تعلیم اور ہلکی ہلکی جمہوریت پر مطمئن قوم ہیں۔ “ یہ وہ بات تھی جو میرے ذہن میں آج ایک قتل کیس کے فیصلے کے بعد لوگوں کا سوشل میڈیا پر ردعمل دیکھ کر آئی اور میں سوچ رہی تھی کہ ان والدین کے جذبات کے لئے ہمارے نظام نے کیا مداوا کیا جو مقتولہ کے قتل کے بعد مائیک پر کھڑے ہو کر کہہ رہے تھے کہ ہم اپنی بیٹی کی شادی کی خوشیاں دیکھنا چاہتے تھے مگر اس ظالم نے دوستی کی آڑ میں ہماری بچی کی زندگی ہی ختم کر دی اور مقتولہ کی ماں نے اپنی بیٹی کی اس لاش کو دیکھ کر جس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا تھا کہا کہ میں یہ معاملہ خدا پر چھوڑتی ہوں۔
میرا اس موضوع پر لکھنے کا کوئی خاص ارادہ نہیں تھا لیکن میرے سوشل میڈیا سٹیٹس پر کسی نے پوچھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے تو اس کیوں نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا اور ماضی میں عوام کے ساتھ ریاست کا رویہ ذہن میں کسی فلم کی طرح چلنے لگا۔ کچھ ہی عرصے سے سیاسیات پڑھنا شروع کی ہے تو پتہ چلا ہے کہ ریاست کیا ہے اور شام کے وقت میڈیا چینلز پر ریاست کا جو تصور پیش کیا جاتا ہے وہ مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ کرنٹ افئیرز کے پروگراموں میں بغیر کسی جھجک اور ہچکچاہٹ کے سرکاری اداروں کو ریاست قرار دیا جاتا ہے اور وہاں بیٹھے ہوئے عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں لینے والوں کی سوچ، فکر اور حکمت عملی سے اختلاف کو ریاست سے بغاوت کہہ دیا جاتا ہے جبکہ ریاست کا سب سے اہم عنصر عوام ہیں، لوگ ہیں یعنی ہم ہیں مگر ہمارے ہاں اسی کی کوئی اہمیت نہیں۔
یہی سب سے زیادہ رسوا ہے اور اس کے لئے ہی بنے قوانین پر عمل نہیں ہوتا کہ ان کو جانوروں کی طرح نہ ہانکا جائے ورنہ جرمانہ ہو گا۔ دوسرا عنصر حکومت یعنی وہ سیاسی تنظیم ہے جو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے قانون سازی کرتی ہے اور تیسرا عنصر علاقہ اور سرحد ہے۔ اس علاقے کی تسلیم شدہ حیثیت اور دنیا میں اس کی پہچان اس کی معاشی اور سماجی حالت سے ہوتی ہے اور اب اس سے بھی ایک قدم آگے دنیا شفافیت اور اطمینان کے تسلی بخش معیار کی طرف چل پڑی ہے کہ آپ کے شہری کتنے خوشحال اور مطمئن ہیں۔
مگر ہمارے ہاں چیزوں کو خلط ملط کر دیا گیا ہے۔ تعلیم کے مختلف معیاروں نے طبقاتی تقسیم اور عوامی استحصال کو بڑھاوا دیا ہے۔ عوام کے حقوق کی بجائے ریاست آگے بڑھ کر دباؤ سے مظلوم کو اپنے حق سے دستبردار ہونے کے لئے دباؤ ڈالتی ہے۔ ذرا سوچیں کہ کسی بہن کی حفاظت میں کوئی جوان بھائی قتل کر دیا جائے اور آخر میں والدین قاتلوں کو معاف کر کے سین ہی سے نہیں بلکہ ملک سے بھی غائب ہو جائیں، ماڈل ٹاؤن میں ماؤں کے پیٹ میں گولیاں لگیں اور مقتولین کو انصاف دلانے کے نعروں پر الیکشن لڑ کر آنے والی حکومت اپنے اقتدار کے دوران مجرموں کو سزا دلوانے کی بجائے خاموش رہے، ساہیوال میں بچوں کی نظروں کے سامنے مبینہ پولیس والدین کو گولیوں سے چھلنی کر دے اور آپ کو پتہ چلے کہ مدعی کیس سے دستبردار ہو گئے، خاتون رات کے وقت جی ٹی روڈ پر بے حرمت ہو جائے اور پولیس کے اعلیٰ افسر کہیں کہ رات کے وقت خاتون اکیلی کیوں نکلیں؟
کوئی غیر ملکی سرعام ہمارے شہری کو کچل دے اور فیصلے کے دن عدالت میں اچانک سہمے ہوئے مدعی صلح پر آمادہ ہوں، آئے دن میڈیکل کالجز سے لڑکیوں کی لاشیں برآمد ہوں اور اسے خود کشی سمجھ لیا جائے اور اسی طرح ایک لڑکی کا تن سے جدا سر گھر کے لان سے برآمد ہو اور قاتل کی سزائے موت کو بھی عوام ایک بہت بڑا ریلیف سمجھتے ہیں۔ مری میں برف میں پھنسی لاشوں یا کسی بھی حادثے کے بعد لاشوں کی برآمدگی کو ریسکیو کہہ دینا کیا چلو بھر انصاف نہیں؟
جس پر ہم خوش ہو ہو کر پوسٹس لگاتے ہیں جبکہ ریسکیو تو جان و مال کا وہ تحفظ ہے جو ریاست اپنے شہریوں کے لئے یقینی بناتی ہے جو کہ آئین اور قانون کی حکمرانی کے بغیر ممکن نہیں جو کہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب تمام ادارے عوام کو مقدس جانتے ہوئے اپنے اپنے دائروں میں رہ کر کام کریں ناکہ اداروں کے خلاف تنقید پر سزاؤں کے قوانین بنا کر عوام کو زچ کیا جائے۔ میری بات کو سر انجینئر ریاض احمد اپل نے اس قدر خوبصورت انداز میں کمنٹ کیا کہ میں اس کو آرٹیکل کا حصہ بنائے بغیر نہیں رہ سکی۔
”ہم ڈھیر ساری بے انصافی پہ، ڈھیر ساری بے روزگاری پہ، ڈھیر سارے تعلیمی قحط اور اعلی درجے کی آمریت پر بھی مطمئن قوم ہیں۔“
- گرو طوطے کا قیدی طوطے کو پیغام - 27/02/2024
- آزاد میرا تتلیاں ورگا - 24/02/2024
- مسئلہ گھڑی کا نہیں - 02/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).