روس یوکرائن وار۔ کشکول اٹھانے کا وقت ہوا چاہتا ہے


آپ صبح کے وقت بہاول پور شہر کے مرکزی تجارتی علاقوں جیسے فرید گیٹ، سرکلر روڈ، کمرشل ایریا، لاری اڈہ اور ریلوے اسٹیشن وغیرہ میں داخل ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ ”پھٹہ موٹر سائیکل رکشہ“ آئے گا۔ اس پر بہت سارے پیشہ ور بھکاری مرد، عورتیں، بوڑھے اور بچے بیٹھے ہوں گے۔ یہ لوگ اپنے ان ذاتی موٹر سائیکل رکشوں سے اتر کے بازاروں اور مارکیٹوں میں پھیل جائیں گے اور رات دس گیارہ بارہ بجے تک بھیک مانگیں گے۔ رات کو واپسی سے پہلے یہ لوگ کڑاہی گوشت، اڑھائی لیٹر والی پیپسی کوک کی بوتلیں، مٹھائی اور گولڈ لیف کے سگریٹ خریدیں گے اور پھر یہ سب بھکاری پھٹہ موٹر سائیکل رکشہ پہ بیٹھ کے نئے نئے بننے والے ٹاؤنز میں خالی پلاٹوں یا شہر کے نواح میں سڑک کنارے بنے اپنے جھونپڑی والے گھروں میں واپس پہنچ جائیں گے۔

اصل محفل وہاں جمتی ہے۔ دیسی کیکر، پرانے گلے سڑے مالٹوں اور میڈیکل سٹورز سے خرید کے لائی گئی نیند لانے والی ٹرانکولائزر گولیوں سے بنائی گئی مقامی دیسی شراب کے پلاسٹک شاپرز کھولے جائیں گے۔ کھانا کھایا جائے گا۔ پھر سگریٹوں میں چرس بھری جائے گی اور تقریباً تمام مرد اور کچھ عورتیں بھی مل کے کش لگائیں گے اور موبائل فون پہ یوٹیوب لگا کے گانے سنتے سنتے سو جائیں گے۔

آپ کو ایک عجیب بات بتاؤں۔ ایک انٹرنیشنل این جی او کے لوگ کراچی سے بہاول پور جھونپڑیوں میں رہائش پذیر پیشہ ور بھکاریوں جنہیں مقامی طور پہ پکھی واس بھی کہا جاتا ہے ان پہ باقاعدہ ریسرچ کرنے آئے تھے۔ کسی میڈیا رپورٹ کے حوالے سے مجھ سے بھی ملنے آئے۔ فون کیا تو میں ایک ڈھابہ پہ بیٹھا تھا۔ کہا، آ جاؤ۔ ڈھابہ پہ ہی انھیں چائے پلائی۔ کہنے لگے ”ہم لوگ انٹرنیشنل فنڈنگ سے صحت کے مسائل پہ کام کر رہے ہیں۔ بہاول پور میں ہماری تحقیق کے دو میدان ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس خطہ میں بہت زیادہ بچے کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ دوسرا یہ کہ جھونپڑیوں میں رہائش پذیر پیشہ ور بھکاریوں پہ وبائی امراض کا اثر کیوں نہیں ہوتا؟“ ۔ اچھا ان پکھی واس لوگوں میں پرچی جواء کھیلنے کا رجحان بہت زیادہ پایا جاتا ہے جسے یہ لوگ آکڑہ اور ٹنڈولہ کہتے ہیں۔

تقریباً پندرہ سال پرانی بات ہے کسی دوست نے شغل شغل میں افواہ اڑا دی کہ اکبر شیخ اکبر کے پاس ایک روحانی علم ہے جس سے یہ وقت سے پہلے پتہ چلا لیتا ہے کہ اسٹیٹ بنک ہر پندرہ دن بعد پرائز بانڈز کی جو قرعہ اندازی کرنے والا ہے اس میں انعام والا نمبر کون سا ہو گا؟ ان دنوں موبائل فون عام نہیں تھے۔ صرف دولتمند لوگوں کے پاس تھرایا سیٹلائیٹ فون یا دو تین کلو وزنی انسٹا فون سیٹ ہوتے تھے جسے اٹھانے کے لیے باقاعدہ ایک ملازم رکھا جاتا تھا۔

البتہ مختلف کمپنیوں کے پی سی اوز ہوتے تھے۔ میرے دوست علی شیر کا بھی پی سی او تھا۔ میں وہاں اس سے ملنے جاتا تو موٹر رکشہ والے، دکاندار اور بھیک مانگنے والے پکھی واس وہاں جمع ہو جاتے اور بس ایک ہی تکرار کرتے ”شیخ بابا! تیرا کیا جاتا ہے اگر ہمیں وقت سے پہلے آکڑہ ٹنڈولہ کا نمبر بتا دے۔ ہمارا دو کروڑ روپے کا انعام لگ جائے گا تو ہماری غربت بھی ختم ہو گی۔ ہمارے دن پھر جائیں گے اور یہ روز روز کی بھیک مانگنے سے ہماری جان چھوٹ جائے گی“ ۔

پیر صاحب کے ”پلے“ کچھ ہوتا تو وہ بتاتے۔ میں بس خاموشی سے چائے سڑکتا رہتا اور مسکراتا رہتا۔ ہومیو پیتھی میں مارخور اور کالے ہرن کی ناف سے نکلنے والے مشک یا کستوری کہہ لیں اس سے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ایک دوا بنائی جاتی ہے۔ جرمنی کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے جنوبی ایشیا سے ہی نافہ مشک منگوا کے پوٹینٹائز کر کے یہ دوا بنائی۔ پاکستان میں کچھ سال پہلے تک تو یہ چھپن ہزار روپے کی شیشی فروخت ہوئی۔ موجودہ قیمت فی شیشی ستر ہزار روپے سے بھی زیادہ ہے۔ یار لوگ اس کی نقل بنا کے بھی مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں۔

ہاں تو جب میں پرچی جواء کھیلنے والوں سے تنگ آ جاتا تو ان سے جان چھڑانے کے لیے کہتا۔ مشک اور زعفران ہو تو پھر جا کے پرائز بانڈ کے انعامی نمبر کا پتہ چلتا ہے۔ میرا خیال ہوتا کہ نہ مشک ملے گا نہ زعفران، میری جان چھوڑ دیں گے لیکن میں حیران رہ جاتا جب یہ لوگ میرے سامنے اصل نافہ مشک اور اصلی زعفران لا کے رکھ دیتے۔ میں یہ سب کچھ انھیں واپس کر دیتا اور ہاتھ جوڑتا کہ میری جان چھوڑ دو۔ اچھا میں سوچتا کہ یہ پکھی واس بھکاری لوگ ساری زندگی کشکول کیوں اٹھائے رکھتے ہیں؟ یہ لوگ بھیک مانگنا چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟

اردو لغت میں ایک لفظ استعمال ہوتا ہے ”اشرافیہ“ ۔ عام طور پہ لغت اس کے معنی شرفاء اور نیک صفت لوگوں کا گروہ یا طبقہ بتاتی ہے لیکن آج کل میڈیا میں یہ لفظ ایسے طبقہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو کسی بھی ملک کے تمام اہم وسائل اور دولت کو ”خون پینے والی جونک“ بن کر اپنے ذاتی دائرہ تصرف میں لے آتا ہے۔ عوام دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہوتے ہیں اور یہ اشرافیہ ملکی دولت کو اپنے شاہانہ اخراجات کے لیے بے دریغ خرچ کر رہی ہوتی ہے۔

عوام کو مستقل پریشانی ہوتی ہے کہ شام کو باورچی خانہ میں ہانڈی پکانے کے لیے مہنگا گھی، مہنگا آٹا اور کھانے پینے کی مہنگی اشیاء کیسے خریدیں؟ جبکہ اشرافیہ نام کی یہ مخلوق پلاننگ کر رہی ہوتی ہے کہ عوام پہ ٹیکسوں کا بوجھ بڑھا کے، پٹرولیم پراڈکٹس اور بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر کے حاصل ہونے والی بھاری رقم سے شام کی تفریح کے لیے نئے نئے گولف کلبز بنائے جائیں۔ ایکڑوں پہ پھیلے نئے سرکاری بنگلوز بنائے جائیں۔ نیلی بتی ہوٹر والی مہنگی گاڑیاں خریدی جائیں۔ کینڈل لائٹ ڈنر ز کیے جائیں۔

کیا ایشیا، کیا افریقہ اور کیا لاطینی امریکہ ہر جگہ اس اشرافیہ کا وجود ہے۔ ان خطوں یا بر اعظموں کی اشرافیہ کے اندر پکھی واس بھکاریوں جیسی ایک خاصیت یہ بھی پائی جاتی ہے کہ یہ اپنے ملکوں میں خود داری اور باوقار ہونے کا احساس پیدا کرنے کی بجائے ان کے ہاتھ میں مستقل طور پہ ایک کشکول پکڑائے رکھتی ہے جسے اٹھا کے وہ ہر وقت بین الاقوامی برادری کے سامنے روتے رہتے ہیں۔

آج 23 فروری 2022 کو خبریں دیکھنے کے لیے نیوز چینل آن کیا تو پتہ چلا کہ یوکرائن میں بمباری کی آوازیں سنی گئیں۔ بتایا گیا کہ روسی فوجیں یوکرائن میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ راقم سوچ رہا تھا کہ کیا ماضی کی طرح اس بار بھی جنوبی ایشیا میں کشکول اٹھانے کا وقت آ گیا ہے؟ کشکولیے کشکول اٹھا کے روس، امریکہ اور یورپ کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے کہ دے جا سخیا! تیرا بھلا ہو گا۔ تیرا کیا جائے گا؟ ہماری اشرافیہ کے سوئس سیکریٹس اکاؤنٹس بھر جائیں گے۔

ماضی میں بھی کشکولیوں نے اسی طرح کے بین الاقوامی حالات سے فائدہ اٹھا کے اپنے کشکول میں مونگ پھلی کے دانوں کی بجائے اربوں کھربوں ڈالرز سمیٹے تھے لیکن وہ سب پیسے کہاں چلے گئے؟ عوام تو اس وقت بھی ذلیل و رسوا تھے آج بھی کولہو کے بیل بنے ہوئے ہیں۔

ظاہر ہے روس او ر یوکرائن کے درمیان شروع ہونے والی یہ جنگ دو چار سال میں ختم تو نہیں ہو جائے گی۔ پندرہ بیس سال تک چلتی رہے گی۔ یوکرائن تباہ ہو جائے گا۔ لاکھوں لوگ مارے جائیں گے۔ لاکھوں زخمی ہوں گے۔ یوکرائن کے عوام پہ روس اور مغربی طاقتیں خوفناک قسم کے بائیولوجیکل اور کیمیکل ہتھیاروں کے تجربے کریں گے۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ جنوبی ایشیا کی لومڑوں اور لگڑ بھگوں جیسی اشرافیہ اس صورتحال کو کیش نہ کرے۔ لازماً وہ اپنا کشکول اٹھائے گی اور اپنے لیے فوائد اکٹھے کرے گی۔

کیا ہی اچھا ہو کہ جنوبی ایشیا کے ملکوں میں خوددار بننے کی خواہش پیدا کی جائے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جنوبی ایشیا دنیا سے کشکول میں خیرات لینے والا نہیں بلکہ ان کو کچھ دینے والا خطہ بن جائے۔ مگر کیسے؟ جنوبی ایشیائی ممالک نہ تو اپنے عوام کو کچھ ڈیلیور کرنے پہ تیار ہیں اور نہ ہی اپنے اندر کی سماجی برائیاں ختم کرنے پہ تیار ہیں۔ مقدس ذاتوں کا تصور ہندوؤں میں ہی نہیں جنوبی ایشیا کے مسلمانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔

ایک ملک کا ایک سابق وزیر داخلہ بیماری سے ہسپتال میں فوت ہو گیا تو برتر ذات پات ہونے کے زعم میں مبتلا لوگوں نے سوشل میڈیا پہ تبصرے کیے کہ ”کیا ہوا اگر وہ ملک کا وزیر داخلہ بن گیا تھا تعلق تو اس کا ایک نائی خاندان سے تھا“ یعنی محنت کرنے والے حقیر اور کمی کمین ہو گئے اور عوام کا استحصال کر کے دولت اور وسائل پہ قبضہ جمانے والے والے صرف اپنی ذات پات کی وجہ سے برتر اور مقدس ہو گئے۔ ضرورت ہے کہ مین سٹریم میڈیا ایک نئے مائنڈ سیٹ کو فروغ دے کہ معاشرے میں عزت کا پیمانہ بس محنت اور کام کر کے روزی کمانا ہو چاہے وہ کام نائی کا ہو، ترکھان کا ہو یا تپتی دوپہر میں عمارت کی تعمیر میں مزدوری کا کام ہو۔ میڈیا اپنی کیمپین کے ذریعے معاشرے میں ذات پات کے مقدس اور برتر ہونے کا تصور ختم کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments