روٹی اور چھت سے آگے کی سوچ کے تحت قائم پناہ گاہیں


ہمارے ہاں تنقیدی اور تخریبی طرز فکر کا رجحان اتنا زیادہ ہے کہ ملک میں حکومت، مخیر حضرات اور این جی اوز کے بہت سے اچھے کام پس پردہ چلے جاتے ہیں۔ دوسرا ہمارے میڈیا کا یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ وہ ڈویلپمنٹ جرنلزم کی اہمیت کو یا تو سمجھتے نہیں یا پھر اچھے اقدامات کی تشہیر سے شاید ان کو اتنی ریٹنگ نہیں ملتی کیونکہ ان میں اتنی سنسنی خیزی کا پہلو نہیں ہوتا۔ مہذب اور ترقی یافتہ دنیا کے میڈیا میں اس کے برعکس رجحانات ہیں اور وہاں کا میڈیا شخصیت پرستی کا اسیر ہونے کی بجائے سوشل ایشوز کو معقول کوریج دیتا ہے۔

ہمیں ذاتی مفادات اور تعصب کے دائرے سے نکل کر کھلے دل سے تنقید اور تعریف کا معیار اپنانا ہو گا تبھی ہم اپنے معاشرے کو رہنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ جہاں حکومت کے بعض بظاہر ناپسندیدہ اقدامات پر ہمارا میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا کھل کر تنقید کرتا ہے میرے خیال میں وہاں اچھے اقدامات کو بھی سراہنا چاہیے۔ خاص طور پر موجودہ حکومت کا احساس پروگرام ملک میں غربت کے خاتمے کی طرف ایک شاندار پیش رفت ہے اور میڈم ثانیہ نشتر کو بالکل میرٹ پر کابینہ پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا گیا ہے جس کی وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ایم ڈی پاکستان بیت المال ملک ظہر عباس کھوکھر، وزیر اعظم کے فوکل پرسن برائے پناہ گاہ نسیم الرحمٰن اور سابقہ ایم ڈی بیت المال عون عباس بپی بھی مبارکباد کے مستحق ہیں جنھوں نے ان پناہ گاہوں کے قیام کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے دن رات محنت کی اور حکومت کی نیک نامی میں اضافہ کیا۔ موجودہ حکومت کے احساس کے حوالے سے بہت سے پروگرام جاری ہیں لیکن پناہ گاہوں کے قیام کے لئے کیے گئے اقدامات ایک قابل فخر اور قابل ستائش کارنامہ ہے۔

بال کی کھال کھینچنے والے دانشوروں اور بھرے ہوئے پیٹ والوں کو شاید پناہ گاہ کے قیام کا فلسفہ اور اس کے اغراض و مقاصد سمجھ نہ آئیں لیکن شدید سردی اور بارشوں کے موسم میں غریب اور چھت سے محروم لوگوں کو ہی اس پروگرام کی قدر ہو سکتی ہے جو پاکستان کے مختلف شہروں میں قائم ہونے والی ان پناہ گاہوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ پناہ گاہیں بدلتے ہوئے پاکستان کا ایک عکس ہیں اور یہ اس سلسلے میں صرف ایک پہلی جست ہے۔

کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کا سخت سردی اور کھلے آسمان تلے سوئے ہوئے لوگوں کی بے بسی کو دیکھنا ان پناہ گاہوں کے قیام کی تحریک کا سبب بنا جس سے بہت سے ضرورت مند لوگوں کو وقتی طور پر بہترین ریلیف مل رہا ہے۔ ان پناہ گاہوں کے قیام کا مقصد پاکستان کے غریب شہریوں کی عزت نفس کو برقرار رکھتے ہوئے انھیں بڑے شہروں میں رہائش اور کھانے پینے کی معیاری سہولیات کی فراہمی ہے تاکہ مہنگائی کے پیش نظر وہ ان ضروریات پر خرچ ہونے والی اضافی رقم کو اپنے کنبے کی بہتری اور بحالی پر خرچ کر سکیں۔

ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی اور روزگار کی تلاش کے لئے بڑے شہروں کی طرف ہجرت کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر ان شہروں میں رہائش اور کھانے پینے کی سہولیات انتہائی مہنگی ہو رہی ہیں۔ بڑے شہروں میں کام کاج کی غرض سے آنے والے مزدور پیشہ اور سفید پوش افراد اپنی آمدنی کا معقول حصہ رہائش اور کھانے پر خرچ کرتے ہیں۔ دوسری طرف یہ صورتحال ہے کہ مزدوری تسلسل سے نہیں ملتی اور ان بیچاروں پہ معاشی پریشر بڑھ جاتا ہے۔ چنانچہ ان کے سماجی اور معاشی حالات میں سدھار کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے۔

یہ ایک سنگین سماجی مسئلہ تھا جسے حکومت نے محسوس کرتے ہوئے پناہ گاہوں کے قیام کا فیصلہ کیا۔ پناہ گاہوں میں لاکھوں ایسے افراد کو سہولت فراہم کی جا رہی ہے جو یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں یا بڑے شہروں میں دیگر کاموں کی غرض سے آتے ہیں اور ان کے پاس رہائش افورڈ کرنے کی سکت نہیں ہوتی۔ انھیں ون سٹار ہوٹل کے برابر مفت رہائش اور کھانا فراہم کیا جا رہا ہے۔ پناہ گاہیں درحقیقت روٹی اور چھت سے آگے کی سوچ کے تحت قائم کی گئی ہیں۔

روٹی ہمارے ملک میں پہلے بھی دی جاتی تھی اور چھت بھی کسی حد تک لوگ فراہم کر دیتے تھے لیکن وہ عام طور پر ایسی جگہ پر ہوتی تھی جو کہ مارکیٹ میں پلوں کے نیچے، ریلوے لائن کے ارد گرد رہتے تھے۔ قبرستان میں بھی لوگ سوتے تھے۔ فٹ پاتھ پہ رہنے والوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، گویا وہ اس ملک کے باشندے ہی نہیں ہیں۔ اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو بڑے پیمانے پر شہروں کی طرف ہجرت کے رجحان نے بہت سے سماجی مسائل کو بھی جنم دیا ہے جن میں امن عامہ، صحت، منشیات فروشی اور دیگر سماجی برائیوں میں اضافے کے رجحانات بھی شامل ہیں۔

پناہ گاہیں ان منفی رجحانات کو بدلنے میں کافی حد تک مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔ ان سب سے بھی بڑھ کر پناہ گاہیں ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے میں بھی معاون ادارے بن کر سامنے آئیں گی۔ گاؤں، دیہاتوں سے شہروں کی طرف منتقل ہونے کا رجحان شہروں کے ماحول پر برے طریقے سے اثر انداز ہوتا ہے یہاں تک کہ ہسپتالوں کے علاوہ شہروں کے گرین بیلٹس، پارکوں اور باقی پبلک مقامات پر بھی بوجھ پڑتا ہے۔ جا بجا گندگی اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر میں اضافہ ہوتا ہے۔

یوں پناہ گاہیں وقت کے ساتھ ساتھ حکومت کے ماحول دوست اقدامات کا اہم حصہ بھی بن رہی ہیں۔ پناہ گاہوں کے قیام سے ان معاشرتی مسائل پر قابو پانے اور کمی لانے میں میں خاطر خواہ مدد ملے گی کیونکہ پناہ گاہیں صرف پناہ گاہیں نہیں بلکہ تربیت گاہیں بھی ہیں جہاں ان مزدور پیشہ افراد کی کونسلنگ کے لئے گاہے بگاہے مختلف سیشنز کروائے جاتے ہیں اور نسیم الرحمٰن صاحب اس کام میں ذاتی طور پر دلچسپی لیتے ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے جہاں احساس پروگرام کے تحت غربت کی چکی میں پسنے والے کروڑوں شہریوں کی بحالی کے کام پر حکومت پہلی دفعہ بہت بڑا پروگرام اور پیکج لے کر آئی ہے جن میں پناہ گاہوں کے قیام کے ساتھ ساتھ احساس کفالت پروگرام برائے خصوصی افراد، احساس بیت المال مدد، احساس دار الاحساس برائے یتیم بچگان، ماں اور بچے کی صحت کے لئے احساس نشوونما، احساس راشن رعایت، صحت سہولت کارڈ، احساس آمدن، احساس بلا سود قرضہ جات، احساس ویمن ایمپاورمنٹ سنٹرز، احساس سکالر شپس، احساس کوئی بھوکا نہ سوئے اور احساس ریڑھی بان جیسے دور رس نتائج کے حامل پروگرام شامل ہیں۔

یہ پروگرام کم آمدنی والے گھرانوں کو غربت کی لکیر سے نکالنے اور انھیں سماجی و معاشی تحفظ دینے کے لئے گیم چینجر ثابت ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف تربیتی پروگراموں کے انعقاد سے پناہ گاہیں اچھے اور ذمے دار شہری بنانے کے لئے بھی ایک بہترین پلیٹ فارم ثابت ہو رہی ہیں۔ انشاء اللہ چین اور دیگر ممالک کی طرح وہ وقت ضرور آئے گا جب پاکستان بھی غربت کے عفریت سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).