تبدیلی کا جرمانہ سوا بارہ گنا


سٹیٹ بینک آف پاکستان کی تازہ ترین بیلنس آف پیمنٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ (جولائی 2021 تا جنوری 2022 ) کے دوران پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ( 2 ارب 28 کروڑ ڈالر کے سالانہ ہدف کے مقابلے میں ) 11 ارب 58 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا ہے، جبکہ مالی سال ختم ہونے میں ابھی پانچ ماہ باقی ہیں۔ خال رہے کہ گزشتہ مالی سال کے پہلے سات ماہ (جولائی 2020 تا جنوری 2021 ) کا کرنٹ اکاؤنٹ 86 کروڑ 10 لاکھ ڈالر سرپلس رہا تھا، اس طرح مذکورہ اعداد و شمار گزشتہ مالی سال کے اس عرصہ کے مقابلے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں سوا بارہ گنا ( 1226 فیصد) اضافے کو ظاہر کرتے ہیں۔

ماضی میں جب ہم کمپنی سرکار کے زیر تسلط تھے تو سارے ہندوستان میں کمپنی سرکار نے چونگی محصول کا نظام قائم کیا، جس کا مطلب تھا کہ شہر میں کوئی بھی جنس (گندم، کپاس، مویشی، کپڑا و دیگر اشیا) چونگی محصول ادا کیے بغیر نہیں آ سکتی تھی۔ شہر کے باہر تمام داخلی راستوں پر چونگیاں ہوا کرتی تھیں جبکہ شہر کے اندر (خاص طور پر منڈیوں و بازاروں میں ) بلدیہ کے ہرکارے گھومتے رہتے تھے۔ کوئی بھی شخص چونگی محصول کے بنا ایک مرغی بھی شہر میں لاکر فروخت کرتا تو بلدیہ کے ہرکاروں (انسپکٹرز) کو خبر ہوجاتی اور اس کو بارہ گنا محصول بھرنا پڑتا تھا (کہیں یہ جرمانہ گیارہ گنا، کہیں تیرہ گنا اور کہیں چودہ گنا بھی ہوا کرتا تھا) ۔ خیال رہے کہ اب بھی ہمارے شہروں میں چونگی نمبر کے نام سے بس سٹاپ موجود ہیں جو ماضی میں شہر کے داخلی مقامات ہوا کرتے تھے۔ یہ الگ بات کہ گزشتہ تیس چالیس سال میں شہر اس قدر پھیل گئے کہ چونگی سٹاپ اب شہر کے اندر آ گئے ہیں۔

بینک دولت پاکستان کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ (جولائی 2021 تا جنوری 2022 ) کے دوران پاکستان کا تجارتی خسارہ 17 ارب 80 کروڑ ڈالر سے بڑھ کر 30 ارب 33 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو کہ گزشتہ مالی سال کے اس عرصے کے مقابلے میں 70 فیصد اضافے کو ظاہر کرتا ہے، اس کی بجائے رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ کے دوران سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں صرف 9 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ نیز رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ (جولائی 2021 تا جنوری 2022 ) کے دوران ملکی برآمدات میں 27 اعشاریہ 4 فیصد اضافہ جبکہ درآمدات میں 55 فیصد کا بھاری بھرکم اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ رواں مالی سال کے سات ماہ کے دوران (گزشتہ سال کے مقابلے میں ) کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں سوا بارہ گنا اضافہ پرانے کمپنی سرکار کے چونگی محصول نظام کی یاد دلاتا ہے، جب بارہ گنا جرمانہ بھرنے کی سکت نہ رکھنے والے شرفا کو مشکیں کس کر سربازار پھرایا جاتا اور بعض کی تو چمڑے کے چابک سے تواضع کی جاتی تھی۔ کیونکہ سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ سن بلوغت پہ پہنچتے ہی ’تبدیلی‘ عوام سے بارہ گنا نہیں بلکہ سوا بارہ گنا جرمانے کی مانگ کر رہی ہے۔ کیونکہ…

گزشتہ ساڑھے تین سال کی اقتصادی کارکردگی پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو مسلم لیگ نون کے آخری مالی سال ( 2017۔ 18 ) میں پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر 19 ارب 90 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا تھا، خاص طور پر 2017۔ 18 کے دوران جاری کھاتے کے خسارے میں 58 فیصد کے لگ بھگ اضافہ ہوا جو تشویش ناک تھا۔ تاہم مالی سال 2017۔ 18 کے دوران پاکستان کی اقتصادی شرح نمو (جی ڈی پی گروتھ) 5 اعشاریہ 8 فیصد تھی۔ اس کے برعکس پاکستان تحریک انصاف نے برسراقتدار آتے ہی ملکی اقتصادی پالیسی کے حوالے سے ایک سو اسی ڈگری کا یوٹرن لیا، نتیجتاً مالی سال 2018۔ 19 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گر کر 13 ارب 59 کروڑ ڈالر پہ آ گیا۔ مگر دوسری جانب اقتصادی شرح نمو بھی ایک اعشاریہ نو فیصد تک گر گئی۔ اس طرح اقتصادی پالیسی میں ایک سو ڈگری یوٹرن کا نتیجہ جہاں مالی سال 201۔ 19 کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 32 فیصد کمی کی صورت میں نکلا وہیں عوام کو اس کا خمیازہ اقتصادی ترقی کی رفتار میں 67 فیصد گراوٹ صورت میں بھگتنا پڑا، مزید برآں اگلے سال ( 2019۔ 20 کے دوران) کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تو مزید کم ہو کر چار ارب 45 کروڑ ڈالر پہ آ گیا تاہم پاکستان کو پہلی مرتبہ جی ڈی پی میں صفر اعشاریہ پانچ فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑا (یہ الگ بات کہ حکومت نے اس کی ذمہ داری کورونا وائرس پہ ڈال کر جان چھڑانے کی کوشش کی) ۔ اسی طرح مالی سال 2020۔ 21 کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مزید کم ہو کر ایک ارب 92 کروڑ ڈالر تک آ گیا اور وفاقی حکومت اس پر پھولے نہیں سما رہی تھی۔ بلکہ اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے تو اگلے مالی سال ( 2021۔ 22 کے دوران) کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہنے کی شیخی تک مار ڈالی۔

نہیں معلوم کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ اب کہاں ہوں گے، کیونکہ وہ اپنی تیسری اننگز کھیل کر (حسب سابق) بریف کیس اٹھا کے چلتے بنے اور اگلی باری کی امید میں عدم پتہ ہوچکے ہیں۔ لیکن وہ ملکی معیشت کے حوالے سے جو دعوے کرتے رہے اور ماضی کے حکمرانوں کو رگیدتے تھے، اس کا حساب اب کس سے مانگا جائے؟

ہاں! یہ وہی ڈاکٹر حفیظ شیخ ہیں جنہوں نے کہا تھا ’کراچی کی سبزی منڈی میں ٹماٹر 17 روپے کلو فروخت ہو رہے ہیں‘ ، حالانکہ ٹماٹر اس وقت مارکیٹ میں اڑھائی سے تین سو روپے فی کلو گرام تھے۔ میں نہیں جانتا تھا کہ میرا بنایا ہوا یہ ویڈیو کلپ ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر اس قدر مقبول ہو گا کہ ’سترہ روپے کلو ٹماٹر‘ ڈاکٹر حفیظ شیخ کا حوالہ بن جائے گا!

خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے نون لیگی حکومت کے آخری سال ( 2017۔ 18 ) کے دوران 19 ارب 90 کروڑ ڈالر کے بلند ترین کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو بنیاد بنا کر خوب پروپیگنڈا کیا تھا اور اس کا دعویٰ رہا کہ 2018 میں معیشت نہ صرف دیوالیہ ہونے کی سطح پہ پہنچ چکی تھی بلکہ دیوالیہ ہو چکی تھی۔

اس کے برعکس پی ٹی آئی حکومت کے چوتھے مالی سال میں (پہلے سات ماہ کے دوران) 11 ارب 58 کروڑ ڈالر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو دیکھا جائے تو نہ صرف حکومتی دعوے بلکہ آزاد معاشی ماہرین کے تخمینے بھی غلط ثابت ہوتے نظر آرہے ہیں۔

خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ بجٹ میں ( 30 جون 2022 تک) کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2 ارب 28 کروڑ ڈالر رہنے کا ہدف مقرر کیا تھا تاہم بعد میں کہا کہ نہیں! رواں مالی سال کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سات ارب ڈالر کے لگ بھگ رہے گا۔ اس کے برعکس معروف اقتصادی ماہر ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 12 ارب ڈالر تک رہنے یا اس سے تھوڑا اوپر جانے کا تخمینہ لگایا تھا۔ جبکہ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کے تخمینے میں رواں مالی سال کے اختتام تک کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 15 ارب ڈالر تک پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔

دوسری جانب رواں مالی سال کی اقتصادی کارکردگی پہ نگاہ دوڑائیں تو پہلے سات ماہ کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 11 ارب 57 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا ہے، اور یہ انکشاف سٹیٹ بینک آف پاکستان نے کیا ہے۔ اس حساب سے ماہانہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک ارب 65 کروڑ 40 لاکھ ڈالر بنے گا، یوں 30 جون 2022 تک پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دوبارہ 19 ارب 85 کروڑ ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔

اس کے برعکس علم معاشیات کے ماہرین شرح اوسط کی بنیاد پر تخمینہ لگانے کے طریقہ کار کو مصدقہ قرار نہیں دیتے، بلکہ اکنامکس میں عام طور پر اشاریوں کے ٹرینڈ (رجحان) کو دیکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر (سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق) جولائی 2021 کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 81 کروڑ 40 لاکھ ڈالر رہا، اگست میں ایک ارب 47 کروڑ 60 لاکھ ڈالر، ستمبر ایک ارب 13 کروڑ 40 لاکھ ڈالر، اکتوبر ایک ارب 76 کروڑ ڈالر، نومبر 2021 میں ایک ارب 89 کروڑ 40 لاکھ ڈالر، دسمبر میں ایک ارب 86 کروڑ 30 لاکھ ڈالر جبکہ جنوری 2022 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اچانک بڑھ کر 2 ارب 55 کروڑ 60 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا (دراصل یہ درآمدات میں اضافے کے رجحان کو ظاہر کر رہا ہے ) ۔ اگر گزشتہ سات ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے کے رجحان کو مدنظر رکھا جائے تو جدید اکنامکس کے اصولوں کے مطابق (آنے والے مہینوں کے لئے ) آخری ماہ کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو بنچ مارک مانا جائے گا، اس طرح 30 جون 2022 تک پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب ڈالر سے تجاوز کرتا نظر آ رہا ہے۔

پاکستانی معیشت کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے 20 ارب ڈالر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا مطلب ہے کہ وفاقی حکومت کو کرنٹ اکاؤنٹ کو ایڈریس کرنے کے لئے یا تو درآمدات کو کنٹرول کرنا ہو گا، یا پھر رواں مالی سال کے دوران 20 ارب ڈالر غیرملکی قرضہ لینا ہو گا، اس کے برعکس وفاقی حکومت نے بجٹ میں 8 ارب 14 کروڑ ڈالر غیرملکی قرضے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے (جو تاحال پورا نہیں ہوا) ۔ اہم سوال یہ ہے کہ وفاقی حکومت آنے والے پانچ ماہ (بلکہ چار ماہ) کے دوران 12 ارب ڈالر کا اضافی غیرملکی قرضہ کہاں سے اور کیسے حاصل کرے گی؟ کیونکہ درآمدات تو بجائے کم ہونے کے الٹا بڑھ رہی ہیں۔ دوسری جانب اگر وفاقی حکومت کو اس قدر بھاری مقدار میں غیرملکی قرضوں کے حصول میں ناکامی ہوئی تو کیا سٹیٹ بینک درآمدات کی ادائیگیاں اپنے زرمبادلہ کے ذخائر سے کرے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments