سنگ، سر اور چھاپہ مار


نوے کی دہائی شروع ہونے تک پاکستان میں پھیلائی جا چکی نفرت عصبیت مذہبی فرقہ وارانہ شدت پسندی اور امن و امان کی بگڑتی صورت حال اور دنیا میں عمومی بڑھتی طاقت ور کے کمزور کو پنجے میں دباتے ملکوں کو تباہ کر دینے کے رجحان اور دہشت گردی میں دن بدن اضافہ ہوتے دیکھ اکثر لاوا سا اٹھتا کہ طاقت ور کے مقابل کمزور کا ساتھ دینے کیوں کوئی نہیں اٹھتا اور یہ خفیہ چھاپہ مار کارروائیاں دھماکے وغیرہ؟

نماز فجر کے بعد خوش گوار ہوا میں چھت پہ لیٹا تھا کہ ساتھ والے گھر کی چھت پہ لگے ٹی وی اینٹینا کے اوپر بیٹھے چڑے کی چہچہاہٹ نے توجہ کھینچ لی۔ چند لمحے بعد ایک چیل اڑتی آئی سڑک پر لگے اونچے شیشم کے درخت پر آ بیٹھی۔ کچھ دیر بعد چیل زور سے اڑتی چڑے کی طرف آئی اور چڑا ڈر کے اڑ چکا اور چیل اینٹینا کی ڈنڈی پہ بیٹھی فاتحانہ ادھر ادھر نظر دوڑا رہی تھی۔ چند لمحے بعد اچانک چڑا چیل کی پچھلی طرف سے آیا اس کے سر پہ پنجہ مارا اور پھرتی سے اس طرح واپس ہوا کہ چیل کو سمجھ نہ آئی کہ ہوا کیا ہے۔

میری دلچسپی اور بڑھی جب دو تین منٹ بعد کہ چیل بے پروا ہو بیٹھی تھی دوبارہ چڑا پیچھے سے نمودار ہوا اور اب کے چیل کے سر پہ ٹھونگا مار اسی طرح پیچھے مڑ گیا۔ چیل پریشان ہو اوپر نیچے دائیں بائیں دیکھتی پھر آرام سے لطف لے رہی تھی کہ چڑا پھر نمودار ہو پنجہ مار بھاگ چکا تھا۔ اب چیل چوکنا ہو بیٹھی مگر جب چڑا ہر دو چار منٹ بعد آ دو تین کارروائیاں پھر بھی ڈال گیا تو چیل اڑ کے پہلے تو اسی درخت پہ گئی اور پھر شاید وہاں سے بھی بھاگ جانے میں عافیت سمجھتے دور جاتی نظر آ رہی تھی اور اب چڑا دوبارہ اپنی جگہ آ بیٹھا چاروں طرف چوکنا دیکھتے پہلے سے زیادہ اونچے چہچہا رہا تھا۔ کم زور طاقت ور کو بھگا کر مجھے کچھ سمجھا چکا تھا۔

چند ہفتوں بعد میں صبح کی سیر کے لئے نکلا تو بجائے سڑکوں پہ لمبا چکر لگانے اپنے گھر کے سامنے والی کوئی تین سو میٹر لمبی سڑک پر ہی آ جا رہا تھا۔ پارس کاغان کے ایک دس سالہ بچے کا ہاتھ سے کندہ کاری کیا کوئی ڈیڑھ فٹ لمبا اخروٹ کا ڈنڈا ہاتھ میں رکھنا میری عادت تھا۔ پہلے ہی چکر میں واپسی پر سڑک پر بارہ پندرہ کتوں کا ایک بڑا غول نظر آتے کچھ عجیب لگا کہ کبھی پہلے اپنے بلاک میں نہ دیکھا تھا۔ واپسی پہ نوٹ کیا کہ ایک نسبتاً نحیف جوڑا باقی غول سے پیچھے ساتھ ساتھ چمٹا آ رہا تھا۔

اب کے جو مڑا تو منظر بدل چکا تھا۔ اب وہ کتیا آگے سہمی کھڑی تھی اور ایک خونخوار بھاری بھرکم کتا اسے گھیرے کھڑا دور کھڑے حسرت سے تکتے اس کے ساتھی کتے پر غرؔا رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں منظر بدل چکا تھا باقی غول دور پیچھے کھڑا بے بس دیکھ رہا تھا۔ کتیا الگ کھڑی غمگین چہرے سے اپنے ساتھی کو تک رہی تھی جسے وہ خونخوار کتا میرے ہمسایہ گھر کے گیٹ کے ساتھ دبائے کھڑا غصے سے بھونک اور غرؔا رہا تھا۔ میں غیر ارادی طور آگے بڑھا اور ڈنڈا اونچا کر اسے دھمکانے کا سوچا ہی تھا کہ ذہن نے جھٹکا دیا کہ اگر یہ خونخوار غصے بھر بھاری بھرکم جانور اسے چھوڑ تم پہ پل پڑا تو کیا تم اس سے نمٹ سکو گے یا اپنا دفاع ہی کر سکو گے۔

اب میں دور کھڑا ہی شی شی کر رہا تھا۔ کتے کی توجہ مبذول ہو چکی تھی اور وہ غراتا اسے چھوڑ غصے سے مڑ مڑ دیکھ دوسری طرف جا رہا تھا۔ بالکل جیسے جابر زمیندار اپنے ڈیرے پہ کسی کمزور غریب کا اس کی ماں بہن کا شمار کرتے چھترول کر غصے سے بڑبڑاتے اندر چلا جاتا ہے۔

اب میں مڑ کے آیا تو کتوں کا غول جا چکا تھا اور وہ نحیف کمزور جوڑا سامنے پرائمری سکول کی دیوار کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ جڑا بیٹھا تھا۔ اور مجھے کچھ یاد آ رہا تھا۔

مجھے یاد آ رہا تھا کہ ستؔر کی دہائی کے اواخر کرسی مضبوط کرنے کی خاطر جھپٹے مارنے اور مروانے کے جواب میں میرے بزرگ ایک مرد خدا نے کہا تھا ”ستانوے فیصد شرفاء کا معاشرہ تین فیصد شر پسندوں کے ہاتھ یرغمال ہو جاتا ہے۔“

اور مجھے یاد آیا کہ چچا غالب نے مجنوں پہ ”سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا“ تھا اور اسی نے ”سنگ مقید اور سگ آزاد“ ہونے کے خطرہ سے بھی آگاہ فرما دیا تھا۔

اور مزید چند برس بعد جب چیلوں کے جھپٹے اور خونخوار غراہٹیں اپنے پنجے گاڑنے میں زیادہ ہی آزاد ہونے لگیں تو وہ چڑا جسے واپس ٹھونگا مارنے یا پنجہ چبھانے سے بھی اجتناب اور مخالف کی ہدایت کے لئے دعا ہی مانگنے کی تربیت تھی، انٹینا ہی چھوڑ جانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔

تب اکتوبر انیس سو سینتالیس کے آخری ہفتہ بس کے واہگہ بارڈر کراس کرتے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ایک بوڑھے چھابڑی فروش سے خریدے ایک آنے کے چھ کچے ہرے کھٹے سنگتروں کی مٹھاس آج تک منہ میں محسوس کرتا چھ سالہ لئیق احمد دو ہزار ایک کے آخری ہفتہ میں ٹورنٹو ائر پورٹ سے کینیڈا میں داخل ہو ہو رہا تھا۔ الحمد للٰہ کہتے ہوئے

اور گزشتہ اکتوبر کی ایک شام گھر کے باہر بیٹھے پوری دیوار پہ چڑھی خزاں کے رنگوں میں رنگین بیل کے پتوں میں سے اڑتے بیٹھتے چڑیوں کے جھنڈ کے جھنڈ چہچہاتی نغمے سناتے مجھے یہ یاد کرا رہے تھے کہ چیلوں کے جھپٹے مارنے کا امکان بہت کم ہے اور کتوں کے گلے میں پٹہ اور اور اس کے ساتھ بندھی زنجیر ”انسانوں“ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments