پاکستانی اور بھارتی تارکین وطن کا امریکی سیاست میں کردار


امریکہ میں پاکستانی اور بھارتی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد امریکی معاشرے کی ترقی میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ڈاکٹرز، انجینئرز، بینکرز اور تاجر اپنے شعبوں میں نمایاں کام سر انجام دے رہے ہیں۔ لیکن ایک شعبہ ایسا ہے جس میں بھارتی تارکین وطن پاکستانیوں سے کئی درجہ آگے ہیں اور وہ ہے سیاست اور اس سے جڑے ہوئے ذیلی شعبے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے بھارتی نژاد کاملہ ہیرس کی بطور نائب صدر نامزدگی اور انتخاب بھارتی تارکین وطن کے لیے ایک بہت بڑا سیاسی سنگ میل ہے۔ بھارتی نژاد تارکین وطن کی امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں میں اعلی درجے پر نمائندگی رہی ہے۔

پچھلے سال رپبلیکن پارٹی نے صدر ٹرمپ کے لیے نائب صدر کے نام پر غور کرتے ہوئے نکی ہیلی کے بارے میں بھی سوچا۔ نکی واحد بھارتی نژاد خاتون ہیں جنہوں نے امریکی ریاست جنوبی کیرولائنا کے گورنر کے طور پر بھی دو بار الیکشن جیتا اور آٹھ سال تک اس عہدے پر فائز رہیں۔ صدر ٹرمپ کے دور صدارت میں نکی ہیلی کو ایک اور اہم قومی عہدے سے بھی نوازا گیا اور انہیں اقوام متحدہ میں امریکہ کا نمائندہ مقرر کیا گیا۔

اسی طرح ایک اور بھارتی نژاد امریکی بابی جندل کے نام پر رپبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار جان مکین نے اپنے نائب صدر کے عہدے کے لیے امیدوار کے طور پر غور کیا۔ بابی جندل جنوب میں بڑی امریکی ریاست لوزیانہ کے گورنر کے طور پر دو بار آٹھ سال کی مدت کے لیے منتخب ہوئے۔ اس سے پہلے 2004 میں وہ امریکی ایوان نمائندگان کے رکن بھی منتخب ہوئے۔

وہ 2015 میں امریکی صدارت کے امیدوار کے طور پر بھی میدان میں اترے۔ انہیں 2008 کے رپبلیکن پارٹی کے کنونشن میں بھی تقریر کرنے کا موقع دیا گیا۔ انہیں 2009 میں صدر اوباما کی کانگریس میں سٹیٹ آف دی یونین تقریر کے بعد رپبلیکن پارٹی کی طرف سے جواب دینے کے لیے بھی منتخب کیا گیا۔

ان کے علاوہ دو دیگر بھارتی نژاد امریکی بھی ایوان نمائندگان کے رکن ہیں۔ ریاستوں کے درجے پر آپ کو سینکڑوں بھارتی نژاد میئر، ریاستی سینیٹرز، ایوان نمائندگان اور شہری کونسل کے ارکان اور حکومتی وکلا نظر آئیں گے۔ اسی طرح آپ کو لاتعداد بھارتی نژاد تارکین وطن ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے ارکان کے مددگار عملے کے طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ان ارکان کے لیے تحقیق کا کام بھی کرتے ہیں اور ان کے لیے قانون سازی کے مسودے بھی تیار کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اس قسم کی مدد دیتے ہوئے یقیناً وہ اپنے آبائی ملک کے مفادات کا بھی خیال رکھتے ہیں اور ان ارکان کے دلوں میں اپنے آبائی وطن کے لیے نرم گوشہ بھی پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

اسی طرح اگر آپ ذرائع ابلاغ کی طرف دیکھیں تو آپ کو بڑے بڑے نیوز نیٹ ورکس میں بھارتی نژاد صحافی نظر آئیں گے۔ سی این این اور فوکس ٹی وی پر آپ کو بھارتی نژاد رپورٹرز، مختلف سیاسی اور سائنسی امور کے ماہر پروگرام اور تبصرے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بڑے قومی اخبارات میں بھی ان کی موجودگی واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔

بڑے سائنسی، سیاسی اور تعلیمی تحقیقی اداروں میں آپ کو جابجا بھارتی نژاد امریکی نظر آئیں گے اور اب تو ہالی ووڈ بھی ان کی پہنچ سے دور نہیں رہا۔ بڑی آئی ٹی اور کثیر القومی کمپنیوں بشمول گوگل کی قیادت بھارتی نژاد امریکیوں کے ہاتھ میں ہے۔ غرض بھارتی تارکین وطن اپنی اوسط ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ کی آمدن کے ساتھ آپ کو امریکہ کے ہر شعبے میں نمایاں مقام پر نظر آئیں گے۔

اس کے مقابلے میں اگر آپ پاکستانی نژاد تارکین وطن پر نظر ڈالیں تو آپ کو خال خال ہی کوئی امریکی سیاست، ذرائع ابلاغ اور تحقیقاتی اداروں میں نظر آئیں گے۔ آپ کو کچھ چھوٹے قصبوں میں پاکستانی نژاد میئر ملیں گے اور کچھ سٹی کونسل کے ممبر بھی پاکستانی ہوں گے لیکن اس سے آگے ایک شدید قحط الرجال ہے۔

جو پاکستانی ان مقامی عہدوں پر پہنچے ہیں انہیں بھی اپنے ہی ہم وطنوں سے شدید گروہی مخالفت درپیش رہتی ہے۔ یہ مخالفت میرے ہیوسٹن کے قیام کے دوران نمایاں نظر آئی۔ پاکستانیوں نے مختلف بنیادوں پر گروہ بنائے ہوئے ہیں اور متحد ہو کر کام کرنے اور پاکستانی مفادات کا دفاع کرنے کی بجائے ہر وقت ایک دوسرے کی گردن دبوچنے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ یقیناً ساری کمیونٹی اس طرح نہیں سوچتی لیکن جو پاکستانی قیادتی کردار ادا کر رہے ہیں وہ اسی گروہ بندی میں مصروف ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے طریقے تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔

اس کوشش میں شدید کردار کشی کی مہم بھی شامل ہوتی ہے جس کے لیے مقامی پاکستانی اخبارات اور ریڈیو کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ان تمام مقامی رہنماؤں کی کوشش صرف اپنی تشہیر ہوتی ہے۔ یقیناً کچھ مقامی سیاسی رہنماؤں سے ان کے تعلقات ہوتے ہیں مگر وہ صرف تصویریں کھنچوانے کی حد تک محدود ہیں۔ بعض پاکستانی نژاد امریکیوں کے قومی درجے کے رہنماؤں سے تعلقات ہیں مگر وہ انہیں زیادہ تر اپنے ذاتی یا گروہی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اس سے ان کے آبائی ملک کے لیے کم ہی فائدہ ہوتا ہے۔

کچھ پاکستانی بڑے خلوص سے کوشش کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری لائیں اور اس کے لیے کافی متحرک ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس بابت امریکی پاکستانی فاؤنڈیشن سرفہرست ہے۔

پاکستانی نژاد نوجوان جو امریکہ میں پیدا ہوئے ان میں پاکستان کے بارے میں کم دلچسپی دکھائی دیتی ہے۔ انہیں ایسے مضامین میں بھی زیادہ دلچسپی نہیں نظر آتی جسے پڑھ کر وہ ذرائع ابلاغ میں شامل ہو سکیں یا قومی سیاسی اداروں میں کوئی کردار ادا کرسکیں۔ عموماً اپنے والدین کے دباؤ میں آ کر ان کی کوشش ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی ہوتی ہے یا بینکنگ اور کاروبار کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ کچھ کی توجہ آئی ٹی پر بھی ہے لیکن یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ آپ کو اعلی اور مشہور درس گاہوں میں بھارتی نژاد طالب علموں کے مقابلے میں پاکستانی طالب علم انتہائی کم تعداد میں دکھائی دیتے ہیں۔

ان نوجوانوں میں پاکستان میں غیر دلچسپی کی کئی وجوہات ہیں۔ پاکستان سے ایک عرصہ ہوا کوئی اچھی خبر سننے کو نہیں ملتی۔ عموماً پاکستان سے سیاسی عدم استحکام، فوجی بغاوتوں، معاشی کمزوریوں اور ان کی وجہ سے مختلف ممالک اور اداروں کے دروازے پر خیرات کی دستک، مذہبی انتہا پسندی اور ریاست کی اس کے بارے میں بے حسی، چشم پوشی اور کچھ حد تک سرپرستی، اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی اور دہشت گردی کے واقعات کے بارے میں ہی بری خبریں سننے میں آتی ہیں۔

نوبل انعام یافتہ ملالہ کے بارے میں عام پاکستانیوں کا رویہ بھی ان تارکین وطن نوجوانوں کو اپنے آبائی ملک سے مایوس کرتا ہے اور ان میں آبائی ملک کے مفادات اپنے موجودہ ملک میں بڑھانے میں کوئی زیادہ ترغیب نہیں ملتی۔ ان پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے ملک میں روزگار کے مواقع بھی بھارت کے مقابلے میں انتہائی کم دکھائی دیتے ہیں۔

اس عدم دلچسپی کی ایک اور سیاسی وجہ وہ تارکین وطن ہیں جنہوں نے اپنا ملک چھوڑ کر امریکہ میں سیاسی بنیادوں پر رہائش اختیار کی۔ یقیناً وہ اپنے آبائی ملک کے سیاسی نظام کے بارے میں اپنے بچوں کو کوئی اچھی رائے نہیں دیتے ہوں گے جس کی وجہ سے انہیں پاکستان میں اپنا معاشی مستقبل نظر نہیں آتا۔

شاید وہ جذبہ حب الوطنی میں 14 اگست اپنی درس گاہوں میں یا کمیونٹی سینٹر میں منا تو لیں گے مگر اس سے آگے نہیں جاتے۔ آپ کو امریکہ میں کم ہی ایسے پاکستانی نوجوان نظر آئیں گے جو پاکستان جا کر کاروبار کرنا چاہتے ہوں یا وہاں جا کر اپنی اعلی تعلیم کی وجہ سے اپنے آبائی ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہوں اور اپنے آبائی ملک کے امریکہ میں مفادات کے بارے میں ایسے ہی سوچتے ہوں جیسے بھارتی نژاد امریکی سوچتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments