پانچ سال، پانچ سو کالم اور پانچ محسن


آج سے پانچ برس پیشتر اگر کوئی مجھ سے کہتا کہ ڈاکٹر سہیل! آپ اگلے پانچ برسوں میں پانچ سو کالم لکھیں گے تو مجھے بالکل یقین نہ آتا۔ ان دنوں میں تواتر سے اپنی نئی محبوبہ انگریزی سے راہ و رسم بڑھا رہا تھا اور اپنی پہلی محبوبہ اردو کو خدا حافظ کہہ بیٹھا تھا لیکن پھر اس پہلی محبوبہ کے عشوہ و غمزہ و انداز و ادا نے ایسے کرشمے دکھائے کہ میں نے نہ صرف راہ و رسم بڑھائے بلکہ دوبارہ اس کی زلف کا اسیر ہو گیا اور محبت کا یہ راز بھی جانا کہ پہلی محبوبہ سے دوسری بار عشق کرنے کا کچھ اور ہی مزا ہے۔

پچھلے پانچ سالوں میں ’ہم سب‘ کے لیے پانچ سو کالم لکھنا ممکن نہ ہوتا اگر میری پانچ محسنوں سے ملاقات نہ ہوتی۔ آج میں ان سب محسنوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنے حاضر ہوا ہوں امید ہے وہ میری چاہت کا یہ تحفہ قبول فرمائیں گے۔

میرے پہلے محسن بی بی سی کے فنکار، مزاح نگار اور ڈرامہ نگار عارف وقار ہیں۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں‘ ہم سب ’ کے لیے لکھوں اور ان کے دیرینہ دوست وجاہت مسعود کو بھیجوں۔ اگر وہ یہ مشورہ نہ دیتے تو اس سلسلے کا آغاز ہی نہ ہوتا اور میں اردو کے کوچہ جاناں کی طرف نہ لوٹتا۔

میرے دوسرے محسن ’ہم سب‘ کے ایڈیٹر وجاہت مسعود اور عدنان کاکڑ ہیں۔ انہوں نے میرا خیر مقدم کیا اور میری حوصلہ افزائی فرمائی۔ انہوں نے مجھے کالموں کے دلچسپ اور معنی خیز عنوان رکھنے سکھائے۔ مجھے ان کی مشکلات کا اس وقت اندازہ ہوا جب وجاہت مسعود نے سانجھ پبلشر امجد سلیم کی درخواست پر میرے کالموں کے مجموعے ’آدرش‘ کے مقدمے کے لیے کچھ لکھا اور میں نے یہ سطور پڑھیں

”مجھے ’آدرش‘ میں شامل تحریروں کا اولیں قاری ہونے کا اعزاز نصیب ہوا۔ سچ میں ہر دفعہ اس خیال سے دل بیٹھ جاتا تھا کہ نامعلوم یار عزیز نے اس دفعہ کس بارودی سرنگ کو فتیلہ دکھایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی شائستہ بیانی میں کلام نہیں لیکن ہم مقہور لوگ تو خطۂ اشتعال کے باشندے ہیں۔ خیر گزری کہ ڈاکٹر صاحب موت کے کنویں سے ہمیشہ وہی دھیمی مسکراہٹ سجائے برآمد ہوئے جس سے ہم ایسوں کی متزلزل انسانیت کو قرار آ جاتا ہے“ ۔

وجاہت مسعود کے جملے پڑھ کر مجھے پاکستان کے زمینی حقائق کا اندازہ ہوا جنہیں میں مغرب کی آزاد فضا میں چالیس برس گزارنے کی وجہ سے بھولنے لگا تھا۔

میری تیسری محسن تنویر جہاں ہیں جنہوں نے وجاہت مسعود کو مشورہ دیا کہ وہ ’ہم سب‘ میں میرے لیے چند ایسے صفحات مختص کر دیں جہاں لوگ مجھے اپنے نفسیاتی مسائل بھیج سکیں اور میں ان کے ممکنہ حل پیش کر سکوں۔ جب نفسیاتی سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو دراز ہو گیا اور ہم نے گرین زون تھراپی سے بہت سے لوگوں کے بہت سے نفسیاتی مسائل حل کرنے کی کوشش کی۔

میرے چوتھے محسن میرے نقاد ہیں جنہوں نے میرے شعوری اور لاشعوری طور پر اپنائے سخت لہجے پر تنقید کی اور میں نے ان کی تنقید کا خیر مقدم کرتے ہوئے اپنے لہجے اور شخصیت میں نرمی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان نقادوں نے مجھے ایک بہتر لکھاری بننے کی تحریک اور ایک بہتر انسان بننے کی ترغیب دی۔

؎ بہت سے دوست ملے مجھ کو نکتہ چینوں میں
اب ان نقادوں میں سے کئی ایک میرے دوست بن چکے ہیں۔

میرے پانچویں محسن ’ہم سب‘ کے وہ لکھاری اور قاری ہیں جنہوں نے میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔

اب میں سوچتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ پانچ سالوں میں یہ پانچ سو کالم میرے چھ سال پہلے کے دیکھے ہوئے ایک دیرینہ خواب کی تعبیر ہیں۔ وہ خواب میں نے ایک رات سوتے ہوئے دیکھا تھا اور آج میں آپ کو سنائے دیتا ہوں۔

میں نے کیا دیکھا کہ میں پاکستان میں پشاور کے عید گاہ کے قریب اس محلے میں ہوں جہاں میں نوجوانی میں رہا کرتا تھا۔ میں اپنے گھر میں داخل ہوتا ہوں تو ایک سفید ریش بزرگ میرا مسکراتے ہوئے خیر مقدم کرتے ہیں۔ میں چاروں طرف دیکھتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ اس گھر کی تین دیواریں ہیں پچھلی دیوار غائب ہے اور گھر ایک میدان سے ملا ہوا ہے۔ میں میدان میں جاتا ہوں تو وہاں سینکڑوں جانوروں کا ریوڑ دیکھتا ہیں۔ ایک گڈریے کی حفاظت میں وہ ریوڑ چلے جا رہا ہے۔

جانوروں کے بعد ایک انسانوں کا غول نظر آیا جو ہماری طرف دھیرے دھیرے بڑھ رہا تھا۔ لوگ قریب آئے تو مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ میرے لیے وہ اجنبی تھے لیکن ان کے لیے میں اجنبی نہ تھا۔ ان کے ساتھ ایک

ڈبل ڈیکر بس بھی تھی۔ وہ مجھے بس کی دوسری منزل پر لے گئے جس کی چھت نہیں تھی۔ وہ سب لوگ مجھے پاکر بہت خوش تھے۔ میں بھی خوش تھا یہ علیحدہ بات کہ میں ان میں سے کسی کو جانتا نہ تھا۔

بس چلنے لگی۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ان اجنبی دوستوں نے مجھے اپنا رہنما چن لیا تھا۔
پھر میری آنکھ کھل گئی۔
میں کئی دنوں تک اس پراسرار خواب کے بارے میں سوچتا رہا۔

کارل ینگ کہا کرتے تھے کہ ہمارا لاشعور ہمارے شعور سے زیادہ دانا ہے اور وہ ہمیں مستقبل کی پیشین گوئیاں کرتا رہتا ہے۔ اب مجھے لگتا ہے کہ ’ہم سب‘ کے کالموں اور بلند اقبال کے ساتھ۔ دانائی کی تلاش۔ کے پروگراموں سے وہ خواب شرمندہ تعبیر ہو رہا ہے۔

اب میرے کالم سینکڑوں اجنبی پڑھتے ہیں اور میرے پروگرام ہزاروں اجنبی دوست دیکھتے ہیں۔ میرے ادبی دوستوں کا سلسلہ دراز ہو رہا ہے۔ وہ مجھے اتنے محبت نامے بھیجتے ہیں کہ میں ان کی چاہت کی بارش سے اندر تک بھیگ چکا ہوں۔

آج میں ان سب دوستوں اور محسنوں کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں۔
۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail