دوہرا معیار: خود احتسابی کیجئے


ایک شخص نے اپنے سکول ٹیچر کو سڑک پر کھڑے چاٹ کھاتے ہوئے دیکھا تو بہت حیران ہوا کہ کیسے استاد ہیں جو بغیر شرم اور لحاظ کے سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر کھا رہے ہیں۔ شام کے وقت اس کی نئی نویلی دلہن نے اپنے سرتاج سے چاٹ کھانے کی فرمائش کی، شوہر محبت کرنے والا تھا، فوری طور پر لے گیا اور دونوں نے مزے سے چاٹ کھائی، ریڑھی بھی ایک، سڑک بھی ایک، بس معیار دوہرا۔

ایک مولوی صاحب اپنے بچوں کے ساتھ پارک میں کھڑے سیلفی لے رہے تھے تو ہم نے عالم فاضل ماننے سے انکار کر دیا اور خود سارا دن سیلفی کو عبادت سمجھ کر انجام دیتے رہے۔

ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرز منافقت
دنیا ترے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں

ایک شادی شدہ بیٹی نے نماز سے فارغ ہو کر ایک لسٹ تیار کی کہ اس کے میکے میں کون اچھا ہے اور کون برا ہے، کس کو کیسے سبق سکھانا ہے، کس کو کیا کچھ کرنے کی اجازت دینی ہے اور کس کام سے روکنا ہے، پھر میکے کی محبت اور بھلائی کے لئے منصوبہ سازی کے بعد فون کر کے سب کی رہنمائی کی، شام کے وقت اپنے شوہر کے گھر آنے کے بعد کہنے لگی آپ اپنی بہن کو سمجھا لیں وہ ہمارے گھریلو معاملات میں دخل اندازی نہ کرے۔

گلہ نہیں مجھے تیری منافقت کا مگر
منافقت کو خلوص وفا کا نام نہ دے

دکان میں داخل ہوتے ہوئے ایک سرکاری ادارے کا راشی افسر اپنے دوست سے کہنے لگا کہ دکان کا مالک تو مولوی ہے، داڑھی رکھی ہوئی ہے، بے ایمان نہ ہو۔

یہ سب بھی معاشرے کی منافقانہ سوچ اور عمل ہیں۔

کرکٹ میچ کے دوران ایک ماڈرن خاتون نے ساتھ بیٹھی عمر رسیدہ خاتون کے مستقل بولنے کے باوجود ان کی طرف نہیں دیکھا اور نہ کوئی جواب دیا جو بظاہر اس کی والدہ لگتی تھیں، حالانکہ اسے والدہ سے محبت بھی تھی اور ماں کی عظمت پر بہت دفعہ تقریریں بھی کر چکی تھی۔ ابھی وہ دونوں ہونٹوں کے توازن میں مصروف تھی کیونکہ اس وقت وہ کیمرہ اور سکرین کے درمیان کسی اور کو حائل نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔

ایک طالبہ نے پیدل اکیڈمی جاتے ہوئے اپنی والدہ سے فاصلہ رکھنا مناسب سمجھا کیونکہ اس کے خیال میں گئی عزت واپس نہیں آتی، بیوہ ماں کے پرانے کپڑے نئے کپڑوں میں ملبوس بیٹی کے لئے بے عزتی کا باعث تھے جس کو ماں نے اپنی آسائشیں قربان کر کے بہترین اکیڈمی میں داخل کرایا ہوا تھا۔

آرزوؔ جانے بھی کیسے کوئی رتبہ ماں کا
روئے جنت سے حسیں لگتا ہے تلوا ماں کا

دو ماڈرن لڑکیاں پوش علاقے میں ایک ڈانس پارٹی میں جاتے ہوئے کہنے لگیں کہ برقع پہن لیتے ہیں، پہچانے نہیں جائیں گے، اسی پارٹی میں موجود دو مرد آپس میں طنزیہ بولے، کیسی بے شرم ہیں، ایک تو غلط کام اور پھر برقع پہن کر سمجھ رہی ہیں کہ کسی کو پتا نہیں چلے گا، ظاہر ہے اب مرد کے لئے پیمانہ بھی تو الگ ہے۔

نفرت منافقت سے رہی مجھ کو عمر بھر
میں چل سکا نہیں ہوں زمانے کے ساتھ ساتھ

یہ ہمارے معاشرے کی حقیقت ہے کہ بہت سارے معاملات میں ہم نے دوہرا معیار اپنا رکھا ہے۔ ہماری سوچ، خواہش اور عمل اپنے لئے کچھ اور ہیں اور دوسروں کے لئے کچھ اور۔

ابھی سے اپنا احتساب شروع کیجئے قبل اس کے کہ دیر ہو جائے۔
بے زبانی بخش دی خود احتسابی نے مجھے
ہونٹ سل جاتے ہیں دنیا کو گلہ دیتے ہوئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments