قرآن ضرور سنائیں مگر سزا تو نہ دیں!


گزشتہ سال میرا بھتیجا قرآن کریم کا حافظ بنا تھا۔ رمضان المبارک میں والدین کی معیت میں تراویح میں قرآن کریم سناتا تھا۔ دیگر چھوٹے بھائی کبھی چھٹی کو بڑے بھائی کے گھر آتے تو انہیں بھی رات کو مجبوراً تراویح میں شامل ہونا پڑتا۔ بھتیجا پڑھتا تو خوبصورت انداز میں تھا لیکن پڑھتے پڑھتے بار بار رک جاتا تھا جس کی وجہ سے ٹائم کافی زیادہ لگتا تھا۔ دن کو چھوٹے بھائی بھتیجے سہیل سے کہتے کہ صحٰح سے پارہ یاد کرو ورنہ پھر ہم تیرے ابو کو بتائیں گے اور تیری خیر نہیں ہوگی۔ دراصل وہ بے چارے پورا ہفتہ ڈیوٹی کر کے آرام کی غرض سے بطور مہمان گھر آتے لیکن سہیل بیٹا ضیافت میں انہیں گھنٹوں کھڑا کر کے ”نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن“ والی کیفیت سے دوچار کرتا۔

خیر! ایک تو بات بھی یہ گھر کی تھی، بھتیجا بھی چھوٹا تھا اور دوسرا چھوٹے برادران چونکہ بھتیجے کو ڈرا دھمکا دیتے تھے اس لیے صورت حال بھی کچھ بہتر ہوجاتی تھی۔

لیکن ہمارے ہاں وطن عزیز میں تو ماحول ہی کچھ ایسا بنا ہے کہ حفاظ کے پیچھے سینکڑوں نمازی ہوتے ہیں لیکن ان کی منزل اتنی کچی ہوتی ہے کہ تراویح میں ایک گھنٹہ میں پڑھا جانے والا حصہ دو گھنٹوں میں پڑھ لیتے ہیں، اور بجائے یہ کہ دن کو تھوڑی سی محنت کر کے اپنی منزل پکی کر لے رات کو اتنا تیز پڑھنے لگتے ہیں کہ حفاظ کے علاوہ کسی کو سمجھ ہی نہیں آتا کہ پڑھا کیا جا رہا ہے۔

اس کی ایک وجہ تو شاید ان کی یہ غلط فہمی ہے کہ تلاوت کی رفتار تیز کرنے سے وقت کم لگ جائے گا حالانکہ تلاوت کی رفتار وقت پر اتنا اثر انداز نہیں ہوتی جتنا کہ بار بار اٹکنا، غلطیاں کرنا اور دہرانا اثر انداز ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ سمجھ میں آ رہی ہے کہ عجم میں قرآن کریم تیز پڑھنے کا رجحان بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے عموماً قراء حضرات کی عادت تیز پڑھنے ہی کی بنی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جب وہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر ان سے غلطیاں بھی زیادہ آنے لگتی ہیں۔

اس کے برعکس عرب ممالک میں قرآن کریم کو بہت ہی ترتیل کے ساتھ پڑھا جاتا ہے، اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ عرب ممالک میں جہاں تراویح بھی آٹھ رکعات پڑھی جاتی ہیں اور ختم قرآن بھی نہیں ہوتا، وہاں پر بھی اتنا ہی وقت لگتا ہے جتنا پاکستان میں بیس رکعات تراویح میں ایک پارہ سنانے پر لگتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے حرمین شریفین کے طرز پر اندرون ملک جامعة الرشید کی مسجد سے بھی نماز تراویح لائیو نشر ہو رہی ہے جس میں بہت ہی بہترین انداز میں وہاں کے ماہر قراء قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں، یہ اس لحاظ سے بھی انتہائی مفید اقدام ہے کہ ملک میں تیز پڑھنے کا جو رجحان بنا ہوا ہے اس میں آہستہ آہستہ کمی آئے گی، اور جامعہ کے بہترین قراء کی خوبصورت تلاوت کو دیگر حفاظ بھی اپنے لیے مشعل راہ بنائیں گے۔

یہ درست ہے کہ پیاری آواز انسان کے اختیار میں نہیں ہے بلکہ عطیہ خداوندی ہے، لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ تجوید کی رعایت رکھتے ہوئے ترتیل کے ساتھ یعنی ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھنا انسان کے اختیار میں ہوتا ہے۔ اگر صرف اس پر عمل کیا جائے تو اس سے بھی تلاوت میں خاصی کشش پیدا ہوجاتی ہے اور لوگوں کے دل قرآن کی طرف مائل ہونے لگتے ہیں۔ قرآن کریم نور ہدایت اور اللہ کا کلام ہے، اس کے الفاظ میں بلا کی شیرینی اور رونق ہے۔ اس کے کلمات میں ایسی تاثیر ہے کہ سننے سے عربی زبان و بیان سے واقف اور ناواقف دونوں کے دل کے تار ہل جاتے ہیں۔ بشرطیکہ درست طریقے سے اور خوبصورت لب و لہجے میں اس کو پڑھا جائے۔

اگر غور کیا جائے تو اس لحاظ سے یہ بھی ایک طرح سے قرآن کی تبلیغ اور اس کی طرف دعوت ہے، اور عبادات میں تقریباً تراویح ہی ایک ایسی عبادت ہے کہ جس میں نمازیوں کو پورے قرآن سننے کا موقع ملتا ہے، اس لیے اگر اس میں اس بات کا اہتمام ہو کہ قرآن کریم حروف کی صحیح ادائیگی اور تجوید کے ضروری قواعد کے ساتھ ایسے طرح ترتیل کے ساتھ پڑھا جائے کہ تدبر کرنے والے کو غور و فکر کرنے کا بھر پور موقع مل سکے تو اس کے بہت سے اچھے نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

اہل فن کے ہاں قرآن کریم کی تلاوت کے چار مراتب ہیں : ( 1 ) ترتیل: یعنی مخارج و صفات کی رعایت رکھتے ہوئے خوش آوازی کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا ( 2 ) تحقیق: یعنی ترتیل سے بھی زیادہ اطمینان سے پڑھنا جیسا کہ تجوید کے اساتذہ کلاس میں مشق کراتے ہیں۔ ( 3 ) حدر: یعنی قواعد تجوید کی رعایت رکھتے ہوئے قدرے رواں پڑھنا، عام طور پر اس طرح تراویح میں پڑھا جاتا ہے۔ ( 4 ) تدویر: یعنی ترتیل و حدر کے بیچ والے اسلوب میں پڑھنا۔

افسوس مگر یہ ہے کہ آج کل بعض حفاظ مذکورہ چاروں اسالیب میں سے کسی پر بھی عمل کرتے ہوئے نظر نہیں آتے، بلکہ عوام کی خوشنودی کے لیے یا عوام کے کہنے پر اتنا تیز قرآن سناتے ہیں کہ جس کی وجہ سے بعض حروف بھی کٹ جاتے ہیں اور تجوید کے ضروری قواعد کی رعایت بھی صحیح طرح وہ نہیں رکھ پاتے۔

اگر مقصد اللہ تعالی کی رضا ہے تو ہمیں یہ طرز عمل ترک کرنا پڑے گا، ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا شمار بھی حدیث میں بیان کردہ ان لوگوں جیسا ہو جائے کہ ”بہت سے رات کو قیام کرنے والوں کو رت جگائی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔

قرآن کریم کو حفظ کرنے سے زیادہ اہمیت حفظ کو برقرار رکھنے کی ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے لیے تراویح کو ہی تختہ مشق بنا دیا جائے، کیونکہ تراویح میں قرآن کریم سنانے کا مقصد صرف اپنی منزل کی پختگی ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ قرآن کریم کی طرف ایک دعوت ہے، اور ظاہر ہے کہ دعوت کا اسلوب بہترین ہونا چاہیے۔ اس وجہ سے اپنی منزل پختہ رکھنے کے لئے حافظ قرآن کو اپنی غیر ضروری سرگرمیوں کو محدود کر کے قرآن کریم کے لیے اتنا وقت نکالنا چاہیے کہ جس میں وہ تراویح میں پڑھی جانے والی منزل خوب اچھی طرح سنا سکے۔

اور اگر اتنی سی جد و جہد بھی جناب کے لیے بار خاطر ہو تو پھر بار بار اٹکنے اور بھولنے کی سزا رات کو سینکڑوں نمازیوں کو دینے کی بجائے دن کو کسی ایسے حافظ دوست کو دے کہ جو آنجناب کی غفلت اور کوتاہی کو بخوشی برداشت کر سکے۔ جی ہاں! اگر مقصد اپنی منزل کی فقط پختگی ہے تو اس کے لیے تراویح کے علاوہ اور طریقے کیا کم ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments