روس یوکرین جنگ، تاریخی پس منظر اور مضمرات


مہینوں کی کشیدگی اور بھرپور سفارتی کوششوں کے باوجود روسی افواج نے یوکرین پر حملہ کر دیا ہے۔ یوکرین نے مارشل لاء کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین اپنا دفاع کرے گا۔ آئیے اس تنازع کو تاریخی حقائق کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

روس اور یوکرین ان 15 سوویت ریاستوں میں سے ہیں جنہوں نے سوویت یونین بنایا تھا۔ 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یوکرین نے 24 اگست کو آزادی کا اعلان کیا۔ آزادی کے بعد ، یوکرین میں روس اور مغرب کی اثر و رسوخ کی رسہ کشی رہی۔ قدرتی طور پر پر آزاد یوکرینی ریاست کا رجحان روس مخالف مغرب اور امریکہ کی طرف رہا۔ ماسوائے وکٹر یانوکووچ کی حکومت کے۔ روسی جھکاؤ والے یا نو کووچ نے 2010 سے 2014 یوکرین پر حکومت کی۔

2013 میں یوکرین میں وکٹر یانوکووچ کی حکومت کے خلاف اس وقت بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے جب انہوں نے یورپی یونین کو جوائن کرنے کی بجائے روس کے ساتھ 15 ارب ڈالر کا معاہدہ کر لیا۔ اس معاہدے پر یوکرینی عوام مشتعل ہو گئے اور پرتشدد مظاہروں نے 2014 میں وکٹر یانوکووچ کی حکومت کو گرا دیا۔ ان مظاہروں میں یورپی یونین اور امریکہ، مظاہرین کی حمایت کر رہے تھے، جبکہ روس، یانوکووچ اور حکومت کی حمایت کر رہا تھا۔ یانوکووچ کی حکومت ختم ہونے کے بعد یوکرین کا روس کے ساتھ جڑا مشرقی علاقہ جسے ’ڈونباس‘ کہا جاتا ہے، وہ اس مغربی دراندازی سے ناخوش تھا۔ ڈونباس کا خطہ روس کے ساتھ ملحقہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ مغرب کے مقابلے میں روس کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے۔ اس میں دو ریاستیں ’لوہانسک‘ اور ’ڈونیٹسک‘ شامل ہیں۔ نتیجتاً ان ریاستوں میں نئی یوکرینی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت اور یوکرین سے آزادی کی تحریک شروع ہو گئی۔

یوکرین کی حکومت نے بغاوت کو کچلنے کے لیے ڈونباس میں آپریشن شروع کر دیا۔ یانوکووچ کی حکومت ختم ہونے پر روس پہلے ہی غصے میں تھا لہذا روسی افواج نے ڈونباس میں داخل ہو کر مسلح باغیوں کی حمایت میں لڑائی شروع کر دی اور اس نے 1954 میں دیا ہوا ’کرائمیا‘ کا علاقہ بھی واپس لے لیا۔ یہ جنگ ہمسایہ ممالک کی سفارتی کوششوں کے بعد ’منسک معاہدہ 2014‘ پر ختم ہوئی۔ منسک معاہدے میں جنگ بندی کے علاوہ یوکرین نے ڈونباس میں عوامی منشا کے مطابق ریفرنڈم کروانے کا وعدہ کیا۔

جنگ بندی کے بعد روس نے 2016 میں کرائمیا میں ریفرنڈم کروایا اور ریفرنڈم کے نتیجے میں کرائمیا نے روس کے ساتھ الحاق کر لیا۔ جبکہ آٹھ سال گزر جانے کے باوجود یوکرین ڈونباس کے علاقے میں بین الاقوامی معاہدے کے تحت ریفرینڈم نہ کروا سکا۔ جس کی وجہ سے جنوری 2022 میں روس نے معاہدے پر عمل داری نہ ہونے کی بنا پر اپنی ایک لاکھ فوج یوکرینی بارڈر پر جمع کر دی۔ اور فروری 2022 میں ڈونباس ریاستوں کو آزاد ریاستیں تسلیم کر لیا۔ روس، ڈونباس خطے کے عوام کی منشا کے مطابق ریفرنڈم کروانے پر زور دے رہا تھا اور وہاں پر عوام کی منشا کے مطابق حکومت کا قیام چاہتا تھا۔

موجودہ تنازعہ کی دوسری بڑی وجہ یوکرین کے نیٹو میں شمولیت کی خواہش ہے۔ یوکرین کے موجودہ صدر ولودیمیر زیلنسکی کا جھکاؤ یورپی یونین اور امریکہ کی طرف ہے اور روس کو نا پسند کرتے ہیں۔ نیٹو دنیا کا سب سے طاقتور فوجی اتحاد ہے۔ 30 ممالک پر مشتمل، اس کا بنیادی کردار سیاسی اور فوجی ذرائع سے اپنے رکن ممالک کی حفاظت کرنا ہے۔ روس اپنی سرحدوں کے قریب نیٹو کے اڈوں کی مخالفت کرتا ہے اور اس نے تحریری ضمانتیں مانگی ہیں کہ نیٹو مشرق کی طرف توسیع نہیں کرے گا۔

کریملن کے مرکزی مطالبات میں سے ایک یہ ہے کہ یوکرین کو کبھی بھی نیٹو میں شامل ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔ کیونکہ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت ایک ایسا اقدام جسے روس سرخ لکیر سمجھتا ہے۔ امریکہ نے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ روس دنیا کی طاقتور ترین فوجوں میں سے ایک ہے اور دفاع پر خرچ کرنے والے سب سے اوپر پانچ ممالک میں سے ایک ہے۔ 2020 میں، روس نے اپنی فوج پر 61.7 بلین ڈالر خرچ کیے، جو کہ حکومتی اخراجات کا 11.4 فیصد ہے۔

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، اس کے مقابلے میں، یوکرین نے اپنی مسلح افواج پر 5.9 بلین ڈالر، یا سرکاری اخراجات کا 8.8 فیصد خرچ کیا۔ جب سے کشیدگی شروع ہوئی ہے، نیٹو کے اتحادیوں نے، روس کے ممکنہ زمینی حملے کے خوف سے، یوکرین کو فوجی ساز و سامان بھیج کر ’کیو‘ کی حمایت میں خاصا اضافہ کر دیا تھا۔

نتیجتاً ان تمام واقعات پر مشتعل روس نے 24 فروری کو یوکرین پر حملہ کر دیا اور اب اس جنگ کو سات روز ہو چکے ہیں۔ روسی افواج یوکرینی دارالحکومت کیو کے قریب پہنچ چکی ہیں۔ اب تک کی جنگ میں چھ لاکھ 80 ہزار یوکرینی افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ 352 یوکرینی شہری ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ سولہ سو پچاس زخمی ہیں۔ یوکرین کی املاک اور ریاستی و عسکری ڈھانچے کو تباہ کیا جا رہا ہے۔

یورپی یونین اور امریکہ نے روس پر سخت ترین معاشی پابندیاں عائد کردی ہیں۔ روس کے بینکاری نظام کو بین الاقوامی ادائیگیوں کے جدید ترین نظام ’سوفٹ‘ سے نکال دیا گیا ہے۔ روس کے مرکزی بینک کے بیرون ملک موجود اربوں ڈالر کے اثاثوں کو منجمد کر دیا گیا ہے۔ روس کے کمرشل بینکوں کے اثاثے بھی منجمد کر دیے گئے ہیں۔ روس سے اور روس کی طرف بین الاقوامی پروازیں بند ہو رہی ہیں۔ پو ٹن، اس کی کابینہ اور امیر ترین روسی کمپنیز پر بین الاقوامی مالیاتی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔ امریکہ اور یورپی یونین، یو کے اور کینیڈا یوکرین کو اسلحہ اور مالی امداد فراہم کر رہے ہیں۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق روس نے اپنے ایٹمی اثاثوں کو الرٹ کر دیا ہے۔ دنیا کے امن کو تیسری عالمی جنگ کا خطرہ درپیش ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ امن پسند اور ترقی پسند سوچ غالب آئے اور جنگ کا خاتمہ ہو۔

محمد سجاد آہیر xxx

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد سجاد آہیر xxx

محمد سجاد آ ہیر تعلیم، تدریس اور تحقیق کے شعبے سے ہیں۔ سوچنے، اور سوال کرنے کا عارضہ لاحق ہے۔ بیماری پرانی مرض لاعلاج اور پرہیز سے بیزاری ہے۔ غلام قوموں کی آزادیوں کے خواب دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔

muhammad-sajjad-aheer has 38 posts and counting.See all posts by muhammad-sajjad-aheer

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments