آخری ملاقات


دسمبر کے دوسرے ہفتے مجھے میرے دوست نے مشہور پاکستانی وی لاگر جنید اکرم کی ایک پوڈکاسٹ کا مختصر سا کلپ بھیجا جس میں وہ ذکر کر رہے تھے کہ ہم یہ جانتے تک نہیں کہ کتنے ہی لوگ ہماری زندگی میں ایسے ہیں جن سے ہم آخری دفعہ مل چکے ہیں۔ مطلب اب ان سے ہماری زندگی بھر ملاقات نہیں ہو گی۔ مثلاً کل شام میٹرو میں جس شخص کے ساتھ میں بیٹھا ہلکی پھلکی گپ شپ لگا رہا تھا۔ اس سے اب دوسری ملاقات کہاں ہو گی۔ مجھے یاد آیا کہ پچھلے دنوں ہمارے علاقے کے استاد شاعر نصیر بلوچ اللہ کو پیارے ہو گئے جب کہ میں نے پچھلے سال جب اپنی کتاب کے لیے مختلف اشخاص کا انٹرویو لینے کی فہرست بنائی تھی اس میں ان کا نام بھی شامل تھا۔

مجھے یاد ہے ان سے پہلی ملاقات ان کے گاؤں میں ہوئی تھی۔ میں اس وقت ان سے بالکل واقف نہ تھا۔ پھر جس کسی سے بھی اس ملاقات کا ذکر کیا اس نے فرط جذبات سے کہا کہ اگلی دفعہ ان کے سامنے میرا نام لینا اور پھر دیکھنا ان کا رویہ کہ وہ کتنے مسرور ہوتے ہیں کیونکہ وہ مجھے اپنا بیٹا سمجھتے ہیں۔ شاید وہ سب ہی کو اپنا بیٹا سمجھتے تھے۔ اس لیے اس پہلی ملاقات ہی میں مجھے بھی یہی احساس ہوا تھا۔ دو سال پہلے جب میں پاکستان گیا تو وہاں ان سے ایک مشاعرے میں نہایت مختصر سی ملاقات ہوئی تھی اور میں نے یہی سوچا تھا کہ کسی دن وقت نکال کر ان کے گاؤں جا کر ان سے تفصیلی ملاقات کروں گا لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا اور یہ مختصر ملاقات ہی ہماری آخری ملاقات ثابت ہوئی۔

یقیناً اس طرح کی غیر متوقع آخری ملاقاتیں اداس کن ہوتی ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ کسی اپنے پیارے کو یا جس کے ساتھ آپ نے اچھا وقت گزارا ہو یا پھر کسی کو بھی متوقع طور پہ آخری دفعہ ملنا اداس ترین کام ہے۔ دسمبر کا مہینہ اس طرح ہی کی آخری ملاقاتوں پہ محیط ہوتا ہے۔ ہر سمیسٹر کے آغاز میں مختلف ممالک سے طلبہ آتے ہیں اور انہیں دسمبر میں واپس جانا ہوتا ہے۔ ہم پورا سمیسٹر ایک ساتھ پڑھتے ہیں، کلاس میں مختلف مشترکہ سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اور پھر یونیورسٹی کے بعد اکٹھے کسی پر ہجوم کیفے میں کافی پیتے ہیں۔

اس سمیسٹر میں کچھ طلبہ جرمنی اور آئرلینڈ سے آئے تھے جن کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہو گیا۔ ہم نے کئی شامیں ایک ساتھ گزاریں، کبھی دریا کے کنارے ٹہلتے ہوئے اور کبھی کسی کیفے میں گرم کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے۔ اور پھر اس گروپ میں وہ سنہرے بالوں، لمبی گردن اور نیلی آنکھوں والی لڑکی بھی تھی کہ جس کے متعلق میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ اس سرحد پہ کھڑی ہے کہ جہاں خوبصورتی ایک معروفی حقیقت کے طور پہ ابھرتی ہے۔ مجھے وہ پہلی ملاقات ہی میں اچھی خاصی پسند آ گئی تھی لیکن بہت سی وجوہات کے پیش نظر بات آگے نہ بڑھائی اور ان وجوہات میں سے شاید سب سے اہم وجہ یہی تھی کہ اسے دسمبر میں پھر مجھے آخری دفعہ ملنا ہو گا۔

سمیسٹر کے آغاز میں تو ہم بے دھڑک ملتے ملاتے رہے۔ کلاسز بھی یونیورسٹی میں ہی ہوئی تھیں لیکن دسمبر کے آغاز میں کووڈ۔ 19 کی نئی لہر ہنگری میں داخل ہوئی جس وجہ سے ہماری یونیورسٹی نے بھی آنلائن کلاسز کا آغاز کر دیا اور یوں ہماری ملاقاتوں میں بھی شدید کمی آ گئی کیونکہ جان، ملاقات سے زیادہ عزیز ہے۔ فراز نے کیا خوب کہا!

جان سے عشق اور جہاں سے گریز
دوستوں نے کیا کہاں سے گریز

میں اس دن کافی مصروف تھا کہ گروپ میں سے ایک دوست نے پیغام بھیجا کہ اس ہفتے وہ سب واپس جا رہے ہیں لہٰذا ہمیں ایک ”آخری ملاقات“ کا انتظام کرنا ہے۔ میری مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ صور اسرافیل بھی میری توجہ بھٹکانے میں ناکام رہتا مگر جونہی میں نے ”آخری ملاقات“ کا تصور کیا تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ ہم نے اسی شام ملنے کا پروگرام بنایا کیونکہ وہ اگلے دن جا رہے تھے۔ ہنگری کی خوبصورت ترین عمارت یعنی پارلیمنٹ کے سامنے اس کیفے میں جہاں سے کم از کم اب یہ عمارت ہمیشہ اداس نظر آئے گی۔ ہم نے شام قریباً بالکل خاموشی سے گزاری۔ میں محفل کے مکمل برخواست ہونے سے ذرا پہلے رخصت ہو گیا جبکہ دوسرے دوست ابھی وہیں بیٹھے تھے۔ یہ مصروفیت بھی کیا نعمت ہے کہ آپ کو کسی چیز کا احساس تک نہیں رہتا۔ میرا اگلا دن بھی پانی کی طرح یوں کسی بھی قسم کے جذبے اور احساس کے بغیر گزر گیا۔

شام کو خبر موصول ہوئی کہ دوستوں کو جرمنی کی سرحد پار کرنے کے لیے پی۔ سی۔ آر کی ضرورت تھی اور رپورٹس کے مطابق ان سب پہ کووڈ اپنا حملہ کر چکا ہے اور اب تو علامات بھی ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ شاید اسی خبر کا نفسیاتی اثر تھا کہ میں نے بھی طبیعت میں تھوڑی ناسازی محسوس کی لیکن صبح تک میری طبیعت باقاعدہ خراب ہو چکی تھی۔ میں اس وقت کھانسی اور بخار سے بے حال تھا۔ اب اس امر پہ یقین کرنے کے سوا کوئی چارا نہیں تھا کہ اس آخری ملاقات نے یقیناً ہم سب کو کووڈ زدہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

دو دن بعد طبیعیت کچھ زیادہ ہی خراب ہو گئی۔ ہنگری کا صحت کا نظام نہایت پیچیدہ ہے۔ اب اس طرح کی علامات جو کووڈ کے زمرے میں آتی ہیں، کے ساتھ آپ ڈاکٹر کے پاس نہیں جا سکتے اور اگر ڈاکٹر کے پاس نہیں جائیں گے تو دوا کے لیے تجویز کون کرے گا؟ اور پھر اگر ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویات کی پرچی آپ کے پاس نہیں ہے تو آپ میڈیکل سٹور سے ادویات بالکل بھی نہیں خرید سکتے۔ یقیناً اس گورکھ دھندے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور ہو گا لیکن مقامی زبان سے عدم واقفیت نے وہ امکان بھی ختم کر دیا۔

اس طرح کی صورتحال میں ہماری نفسیاتی کیفیات نہایت دلچسپ ہوتی ہیں۔ میں بالکل بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ میری وجہ سے میرا کوئی دوست کووڈ کا شکار ہو لیکن میری شدید خواہش اور حالات کا بھی تقاضا یہ تھا کہ کوئی نہ کوئی وہاں خیال رکھنے کے لیے موجود ہوتا۔ میں تو ویسے ہی تنہائی سے خوفزدہ رہتا ہوں اور یہاں اس حالت میں تنہا رہنا پڑ رہا تھا کہ کھانس کھانس کر سارا جسم نڈھال ہو چکا تھا اور بخار کی حدت سے بستر تپ رہا تھا۔ میں دوستوں سے بہت ہی کم گلہ کرتا ہوں کیونکہ میرا خیال ہے کہ ہر بندے کو یہ حق ہے کہ وہ جس طرح جی میں آئے، کرے۔

اس رات مجھے ایک سو تین پہ بخار تھا۔ میرا دوست جو ساتھ والے کمرے میں مقیم ہے، دروازے پہ ماسک لگا کر کھڑا مجھے بتانے لگا (گو کہ وہ مذاق ہی کر رہا تھا شاید) اگر آدھ گھنٹہ تمہارے کھانسنے کی آواز نہ آئے تو مجھے فکر ہونے لگتی ہے کہ خیریت تو ہے ناں! میں نے اسے قہر آلود نظروں سے دیکھا کہ میں پہلے ہی یہاں کووڈ سے مرنے والوں کا گراف دیکھ کر بیٹھا ہوں اور اب تم مجھے مزید خائف کر رہے ہو۔ اس کے جانے کے بعد میں نے ایک دوست کو میسج کیا (جو ہر وقت بہت ہی قریبی ہونے کا دم بھرتا ہے ) کہ کیا تمہارے پاس بخار کی دوا موجود ہے؟ مجھے اس وقت ایک سو تین پہ بخار ہے اور یہ کہ میڈیکل سٹور سے دوا ملے گی نہیں۔ اس نے سونے پہ سہاگہ کا کام کیا کہنے لگا کہ ہاں! دوا موجود ہے فکر مت کرو، کل آ کے لے جانا۔ میری تنہائی میں مزید اضافہ ہو گیا۔

ہمارے ہمسائے میں ایک بوڑھی خاتون رہائش پذیر ہیں جن کے خاوند کسی جنگ میں کام آئے تھے۔ وہ اس قدر بڑے گھر میں بالکل اکیلی رہتی ہیں اور میں ان کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے اکثر سفید چادروں سے ڈھانپی ہوئی کھڑکیوں سے اندر جھانکنے کی کوشش کرتا ہوں اور وہ مجھے اکثر اپنے صوفے پہ دراز سامنے میز پہ جلتی ہوئی موم بتی کو گھورتے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔ میں اسے دیکھ کر بہت افسردہ ہوتا ہوں کہ ایک دن یہ یوں ہی اکیلی اسی موم بتی کو گھورتے ہوئے مر جائے گی۔

اس رات میں اس بوڑھی خاتون کے متعلق بار بار سوچتا رہا ہوں۔ کم از کم میں یوں اکیلا تو بالکل بھی نہیں مرنا چاہتا تھا۔ مشہور زمانہ سیریز ”گیم آف تھرونز“ کا ایک اہم کردار جیمی استفسار یہ بتاتا ہے کہ وہ اپنی محبوبہ کی بانہوں میں مرنا چاہے گا اور پھر آخر پہ وہ اپنی محبوبہ کی بانہوں میں ہی مرتا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ میری کوئی محبوبہ نہیں ہے لیکن میں بھی یقیناً اپنی محبوبہ ہی کی بانہوں میں مرنا چاہوں گا۔

اس رات فیضٓ صاحب کی یہ نظم ”تنہائی“ بار بار دل و دماغ کے دریچوں پہ دستک دیتی رہی
پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں
راہرو ہو گا کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
نوٹ: احباب خاطر جمع رکھیے یہ مضمون مکمل صحتیابی کے بعد لکھا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments