کیا یوکرین میں امریکی سٹنگر میزائل ایک بار پھر روس کو ناکوں چنے چبا سکیں گے؟


ایک رپورٹ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن یوکرین کو طیارہ شکن سٹنگر میزائل بھیج رہے ہیں، جو روسی ہیلی کاپٹروں کو مار گرانے کے لیے استعمال کیے جا سکیں گے۔ امریکی سکریٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے بھی اپنے ایک ٹویٹ میں گزشتہ جمعہ کے روز کہا تھا کہ ”انہوں نے امریکی محکمہ دفاع کو یوکرین کو فوری طور پر 350 ملین ڈالر کی اضافی فوجی امداد فراہم کرنے کا اختیار دیا ہے، تاکہ اسے روس کی بلا اشتعال اور بلا جواز جنگ سے اپنے دفاع میں مدد مل سکے“ ۔

” آرمی ٹائمز“ نے لکھا ہے کہ ”سٹنگر میزائلوں کی براہ راست ترسیل اس فوجی امدادی پیکج کا حصہ ہے، جسے گزشتہ ہفتے منظور کیا گیا تھا۔ یہ میزائل کندھے سے فائر کرنے والے ہتھیار کے طور پر کام کرتے ہیں۔ جو ہیلی کاپٹر گن شپ کے خلاف یوکرین کی مدد کر سکتے ہیں۔

’نیوزمیکس‘ کے مطابق ”ریٹائرڈ آرمی لیفٹیننٹ جنرل جم ڈوبک نے کہا کہ“ سٹنگرز میزائل ترسیل کے بعد گیم چینجر بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ روسیوں کے پاس فضائی تسلط نہیں ہے، لیکن انہیں فضائی برتری حاصل ہے۔ لیکن سٹنگر میزائل انہیں سخت مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ کیونکہ ان کا مقابلہ فضائی حدود سے ہو گا، اور اس سے روسیوں کی آپریشن کرنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچے گا۔ اور یوکرین کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ ہو گا ”۔

”امریکہ کے علاوہ جرمن چانسلر اولاف شولز نے ہفتے کے روز کہا کہ ان کا ملک یوکرین کو 1,000 ٹینک شکن ہتھیار اور 500 اسٹنگر میزائل بھیجنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ یہ جرمنی کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی ہے۔ کیونکہ اس نے پہلے مہلک امداد بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔

امریکی ویب سائٹ ’انسائیڈر‘ کے مطابق ”جرمنی کے ساتھ ساتھ دیگر یورپی ممالک جیسے ناروے، سویڈن اور فن لینڈ نے بھی یوکرین کو ہتھیار بھیجنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

یوکرین کے اعلیٰ حکام نے اب امریکہ سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ اسے پیٹریاٹ طیارہ شکن میزائل جیسا جدید نظام سمیت دیگر جدید ترین ہتھیار فراہم کرے۔ 2014 میں روس نے جب کریمیا کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا، تب سے، امریکہ نے یوکرین کو اربوں ڈالر کی فوجی امداد دی ہے، جس میں انہیں جیولن اینٹی ٹینک میزائل، نائٹ ویژن چشمے، چھوٹے ہتھیار، گولہ بارود، گشتی کشتیاں سمیت فوجی تربیت بھی فراہم کی گئی ہے۔

اوباما انتظامیہ، امریکہ روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے تنازعے کے خدشات کے درمیان مہلک امداد فراہم کرنے سے گریزاں تھی۔ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں پالیسی تبدیل ہوئی جو اب تک اپنی جگہ برقرار ہے ”۔

1980 ء کی دہائی میں سوویت یونین کی افغانستان کے ساتھ جنگ ​​کے دوران، امریکہ کی طرف سے فراہم کردہ اسٹنگر میزائل کو افغان مجاہدین نے سوویت فضائی کنٹرول میں کمی کے لیے استعمال کیا۔ سوویت یونین نے 1989 ء میں افغانستان سے انخلاء کیا۔ جیک ڈیوائن، جنہوں نے 1980 کی دہائی کے وسط میں سی آئی اے کی افغان ٹاسک فورس کو سنبھالا، نے اسے ”سی آئی اے کے بہترین لمحات میں سے ایک“ قرار دیا۔

امریکی سٹنگر میزائل جو افغان مجاہدین کو فراہم کیے جاتے تھے۔ ان کے متعلق ایک انٹرویو میں مرحوم جنرل حمید گل نے انکشاف کیا تھا کہ غلطی سے ان میزائل کی ایک کھیپ غلط ہاتھوں میں چلی گئی تھی۔ جو بعد ازاں بلیک مارکیٹ میں فروخت ہوتے رہے۔ جن کو واپس لینے کے لیے امریکہ نے خطیر رقم خرچ کی تھی۔

بھارت میں تعینات رہنے والے سابق امریکی سفیر آنجہانی جان گنتھر ڈین ( 1926۔ 2019 ) نے اپنی سوانح عمری ”ڈئنجر زونیز :آ ڈپلومیٹس فائیٹ فار امریکن انٹرسٹ“ میں ان سٹنگر میزائلوں کی کہانی یوں بیان کی ہے۔

”کچھ ہتھیار جو ہم نے پاکستان کو فراہم کیے اور افغان مزاحمت نے بعد میں ہمیں نقصان پہنچایا۔ افغان مزاحمت کاروں کو فراہم کیے گئے سٹنگر میزائل افغانستان سے سوویت فوج کے انخلاء کے بعد دہشت گردوں کے ہاتھوں امریکی سویلین طیاروں کے لیے سیاسی خطرہ بن گئے تھے۔ یہاں تک کہ جنوبی ایشیا میں میرے دنوں کے دوران، اسلام آباد اور نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے اس بات پر کڑی نظر رکھتے تھے کہ افغان مجاہدین کے پاس کتنے سٹنگرز میزائل ہیں۔ وہ کس شکل میں ہیں۔ اور اصل میں کن گروہوں یا گروپوں نے انہیں اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔

جب تک سٹنگر میزائل سوویت فوج کے خلاف استعمال ہوتے رہے، کسی کو بھی اس وقت اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی کہ سوویت یونین کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد اگر افغان مزاحمت کاروں نے انہیں کیش کے عوض دوسروں کو بیچ دیا تو اس کے کیا نتائج ہوں گے؟

جولائی، 1993 میں، لاس ’اینجلس ٹائمز‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ سی آئی اے نے سینکڑوں اسٹنگر اینٹی ائر کرافٹ میزائلوں کو افغان مزاحمت کاروں سے واپس خریدنے کے لیے 55 ملین ڈالر کے بجٹ کی درخواست کی تھی جو امریکہ نے قبل ازیں افغان مزاحمت کاروں کو فراہم کیے تھے ”۔

اس ضمن میں میں دلچسپ بات یہ تھی کہ ”یہ رقم جو اب ان سٹنگرز کو واپس حاصل کرنے کے مختص کی گئی تھی وہ قبل ازیں ان خفیہ اسٹنگرز کی خریداری کے پروگرام کے لیے مختص کیے گئے بجٹ سے پانچ گنا زیادہ تھی“ ۔

”یہ رقم کلنٹن انتظامیہ نے بین الاقوامی بلیک مارکیٹ سے میزائلوں کے حصول کے لیے سخت مقابلے کی وجہ سے پیش کی تھی۔ امریکی ایجنٹوں کو اب ان سٹنگرز کو واپس لینے کے لیے بڑی بھاگ دوڑ کرنی پڑ رہی تھی۔ بلیک میں ایک سٹنگر انہیں ایک لاکھ امریکی ڈالر میں واپس مل رہا تھا“ ۔

کم و بیش چار دہائیاں قبل یہی سٹنگر میزائل افغانستان میں سویت یونین کے خلاف استعمال ہوئے تھے، اب اپنی جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ایک بار پھر وہی روس کے خلاف یوکرین میں استعمال ہونے جا رہے ہیں۔ کیا تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرانے جا رہی ہے۔ اس کا فیصلہ تو یقیناً آنے والا وقت ہی کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments