کسی بھی جنگ کی اصل قیمت کون ادا کرتا ہے؟


جب سیاسی رہنماؤں کو غصہ آ جاتا ہے
جب فوجی جرنیل طیش میں آ جاتے ہیں
جب سیاسی رہنماؤں اور فوجی جرنیلوں کا گٹھ جوڑ ہو جاتا ہے
جب ان کی انا مجروح ہوجاتی ہے
جب ان کا اقتدار خطرے میں پڑ جاتا ہے
جب ان کے طاقت کے نشے میں جوش آ جاتا ہے
جب ان کی شہرت کی شہوت میں اضافہ ہو جاتا ہے
جب ان کی کشور کشائی کی ہوس بڑھنے لگتی ہے
تو وہ اعلان جنگ کر دیتے ہیں
فوجیوں کو محاذ پر بھیج دیتے ہیں
سپاہیوں کو قربان کر دیتے ہیں
عوام کی جانوں سے خون کی ہولی کھیلنے لگتے ہیں
امن کے عہد نامے جلا دیتے ہیں
آشتی کے آدرشوں کو خاک میں ملا دیتے ہیں
شانتی کے سنہرے خوابوں کو ڈراؤنے خوابوں میں بدل دیتے ہیں
اور جب
جنگ کی آتش بازی دیکھ کر
لاشوں کے انبار جمع کر کے
گلیاں اور بازار سنسان کر کے
خوف و ہراس کی آندھیاں چلا کر
ان کی انا کو تسکین مل جاتی ہے
غصہ ختم ہو جاتا ہے
طیش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے
نفرت کے شعلے کم ہونے لگتے ہیں
حالات قابو سے باہر ہونے لگتے ہیں
تو وہ دشمنوں کے سیاسی رہنماؤں اور فوجی جرنیلوں سے ہاتھ ملا لیتے ہیں
جنگ بندی کا اعلان کر کے
اپنے محلوں میں واپس چلے جاتے ہیں
اپنی بیگم سے پیار بھری باتیں کرنے لگتے ہیں
اپنے بچوں سے کھیلنے لگتے ہیں
اپنے دوستوں کی دعوتیں کرنے لگتے ہیں
رقص و سرود کی محفلیں دوبارہ سجنے لگتی ہیں
زندگی معمول پر آ جاتی ہے
لیکن
کچھ لوگوں کی زندگی
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تباہ و برباد ہو جاتی ہے
ان کے دل دکھی ہو جاتے ہیں
ان کے دماغ پریشان ہو جاتے ہیں
ان کی روحیں زخمی ہو جاتی ہیں
کسی بھی جنگ کی
اصل قیمت دو طرح کے لوگ ادا کرتے ہیں
فوجی اور عوام
اس حوالے سے
دو نظمیں حاضر خدمت ہیں

پہلی اس درویش کی طبع زاد نظم ہے

اور دوسری محمود درویش کی نظم کا ترجمہ ہے
۔ ۔
پہلی نظم۔ بوڑھا فوجی
زمانہ اس کو بیتا ہے
میں فوجی تھا
میں اپنے دیس کا ادنیٰ سا خادم تھا
میں اپنے ملک و مذہب کا بہت مخلص سپاہی تھا
بہت سی جنگوں میں میں جان کی بازی لگا کر لوٹ آیا تھا
بہت سے معرکوں میں موت کو بھی چھو کے آیا تھا
مجھے ہر جنگ میں ہر معرکے میں فخر تھا اس کا
حقیقت کا میں پیرو تھا
صداقت کا مبلغ تھا
محبت میرا مذہب تھا
مجاہد بن کے زندہ تھا
شہادت میرا مقصد تھا
مگر پھر رفتہ رفتہ مجھ کو اپنے ساتھیوں کے حکمرانوں کے
چھپے منصوبوں اور ہر راز درپردہ سے آگاہی ہوئی حاصل
ہوا معلوم یہ مجھ کو
صداقت تھی کہاں کشور کشائی کا جنوں تھا اک
حقیقت جو بظاہر تھی سراپا اک تعصب تھا
محبت نام تھا۔ فرعونیت تھی اس کے پردے میں
مری اس آگہی کے بعد مجھ پر اک قیامت ہی تو گزری تھی
مرے دل میں مرا احساس کانٹا بن کے چبھتا تھا
مرے دل میں سوالوں کا عجب طوفان اٹھتا تھا
میں خود سے پوچھتا یہ تھا کہ میری اصلیت کیا ہے؟
سپاہی ہوں کہ ظالم ہوں؟
مجاہد ہوں کہ قاتل ہوں؟
اسی احساس کا اس سوچ کا اب یہ نتیجہ ہے
کہ اپنی فوج کو چھوڑے ہوئے عرصہ ہوا لیکن
مرا ماضی مرے کاندھوں پہ بھاری بوجھ ہے اب تک
۔ ۔ ۔

دوسری نظم۔ قیمت
ایک دن جنگ ختم ہو جائے گی
سیاسی رہنما ایک دوسرے سے
ہاتھ ملا کر صلح صفائی کر لیں گے
لیکن
ایک بوڑھی عورت انتظار کرتی رہے گی
کہ اس کا جوان بیٹا کب واپس لوٹ کر آئے گا
ایک جوان عورت انتظار کرتی رہے گی
کہ اس کا حسیں شوہر کب واپس لوٹ کر آئے گا
ایک بچی انتظار کرتی رہے گی
کہ اس کا محبت کرنے والا باپ کب واپس لوٹ کر آئے گا
میں نہیں جانتا کہ
ہماری دھرتی ماں کو کس نے بیچا ہے
لیکن میں اس کا چشم دید گواہ ہوں
کہ اس کی قیمت کس نے ادا کی ہے۔
۔ ۔ ۔

اکیسویں صدی میں انسانیت
ایک دوراہے پر آن پہنچی ہے
ایک راستہ جنگ و جدل کی طرف
اور دوسرا راستہ امن و آشتی کی طرف جاتا ہے
انسانوں کو
انفرادی اور اجتماعی طور پر فیصلہ کرنا ہے کہ وہ
خانہ جنگیوں اور ایٹمی ہتھیاروں سے
اجتماعی خود کشی کریں گے یا
ارتقا کی اگلی منزل کی طرف سفر کریں گے
اور پر امن مکالمے سے تضادات حل کرنا سیکھیں گے
کیا انسان نہیں جانتے کہ
ہم سب ایک ہی خاندان کے افراد ہیں
ہمارے دشمن بھی ہمارے دور کے رشتہ دار ہیں
کیونکہ
ہم سب دھرتی ماں کے بچے ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments