”وعلیکم السلام“ کی ٹھرکی تشریح


میں نے کہیں ایک قول پڑھا تھا اس کا مفہوم ہے کہ یہ معاشرہ صرف طوائف کو ایک خودمختار عورت جانتا ہے سو ہر پر اعتماد اور خودمختار عورت کو طوائف ہی سمجھتا ہے۔

ایک بچی کو، پھر اس لڑکی کو اور بعد میں اس عورت کو یہ سکھایا اور پڑھایا جاتا ہے کہ تمہیں کسی مرد سے کوئی بھی بات نہیں کرنی کیونکہ مرد سے بات کرنا تمہیں ’باکردار‘ عورت ہونے کے دائرے سے خارج کرا دے گا۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہوتی ہے یہ ”بات“ ؟

میں ایسے اداروں میں پڑھی ہوں اور اب بھی پڑھتی ہوں جہاں طلباء و طالبات ایک ساتھ پڑھتے ہیں اور بہت سی لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں جو کسی کلاس فیلو سے کام کی بات بھی اس وجہ سے نہیں کرتیں کہ کہیں ”دائرۂ اخلاقیات“ سے باہر نہ نکل جائیں۔ وہیں مرد صاحبان کچھ اس طرز کی سوچ رکھتے ہیں کہ عام انٹرایکشن کو بھی سامنے والی خاتون کی طرف سے ”قبول ہے۔ قبول ہے“ سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ چیز لڑکیوں کے لیے سرگرمیوں میں کھل کر حصہ لینے کی راہ میں مشکلات پیدا کرتی ہے۔

یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ لڑکیوں کی تنگ نظری اور مردوں کے ٹھرک پن پر بات ختم کر دی جائے۔ اس کا ایک سرا وہ سوچ ہے جو عورت کو بطور ”چیز“ یا ”مال“ دیکھنے پر اکساتی ہے۔ فلم انڈسٹری سے لے کر لاؤڈ اسپیکر تک ہر جگہ عورت بطور چیز مختلف اندازوں میں پیش کی جاتی ہے اور بیچی جاتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں سے بھی کیے جانے والی ”لاڈیوں“ میں لڑکے (Subject) کو عموماً چھیڑا جاتا ہے کہ وہ لڑکیوں پر ٹھرک پن جھاڑے اور لڑکی کو بطور ایک ایسی چیز (Object) جس پر ٹھرک پن جھاڑا جائے۔ ہمارے ہاں تو لفظ ”عورت“ اور ”مرد“ ایک جملے میں لکھ بھی دیے جائیں تو وہ جملہ ہی واہیات ہو جاتا ہے کیونکہ کچھ زیادہ ہی ’انٹیلیکٹ‘ کی وجہ سے لوگ عورت اور مرد کے انٹرایکشن کی تشریح صرف ایک مخصوص زاویے سے ہی کر سکتے ہیں۔

کالج/ یونیورسٹی ہو یا کام کرنے کی جگہیں وہاں عورت کا تمیز سے سلام کے جواب میں ”و علیکم السلام“ کہہ دینا بھی لوگوں کو ”قبول ہے“ سنائی دیتا ہے۔ اگر مرد اور عورت کے آپس میں ”بات“ کرنے کو ہی روک دینے کو آپ اس مسئلے کا حل سمجھتے ہیں تو شاید اس معاملے میں آپ غلط ہیں۔ یوں لوگ مخالف صنف سے اتنی فینٹسیز وابستہ کر لیتے ہیں کہ عجیب و غریب توقعات رکھنے لگتے ہیں۔ انھیں بنیادی انٹرایکشن کے ادب و آداب کا کوئی علم نہیں ہوتا۔ ہر بات صرف افیئر افیئر ہی دکھتی ہے۔ اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ دوسروں کے ذہنی سکون کا بھی کباڑ کرتے رہتے ہیں۔

اس کا حل ہر سطح پر نکالنا ہو گا۔ بچوں سے فضول مذاق کرنے کی بجائے انھیں تمیز سے دوستانہ انٹرایکشن سکھانا ہو گا۔ لڑکیوں پر پابندیاں لگانے کی بجائے بیٹوں اور بیٹیوں دونوں کو لوگوں کے ساتھ حدود کا خیال رکھتے ہوئے کام کرنا سکھانا ہو گا۔

اداروں میں خواتین اپنی جگہ بنا چکی ہیں۔ اب وہاں صرف مرد نہیں بستے۔ یہ اکیسویں صدی ہے اور مختلف اصناف کے لوگوں کا ساتھ میں کام کرنا ایک عام بات سے آگے انتہائی عام بات ہو جائے گی۔ ایسے میں آپ بھی تھوڑے ہوش کے ناخن لیں اور ”مرد“ و ”عورت“ کے انٹرایکشن کو مخصوص زاویے سے دیکھنے کی بجائے یہ بھی جان لیں کہ وہ کولیگز بھی ہو سکتے ہیں اور کلاس فیلوز بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments