افسانہ۔ نیلگوں آسماں تلے


”مولبی شاب! نکاح نامہ میں گھوٹ (دولہا) کا حق مہر دو ہجار روپے روجانہ کا لکھ دو جو کنوار (دلہن) اشے لا کے دیا کرے گی البتہ دو ہجار روپے شے اوپر کی آمدنی وہ خو د اپنے پاش رکھ لیوے تو ہم کو کوئی اعتراج نہیں“ دولہا کے سرپرست نے کہا۔

پکھی واس خانہ بدوشوں کا یہ رواج باقی دنیا سے مختلف اور عجیب تھا کہ حق مہر دلہن کی بجائے دولہے کے حق میں لکھا جاتا تھا۔ رواج کے مطابق نئی نویلی دلہن شادی کے تین دن بعد قبیلے کی باقی خواتین کے ساتھ بھیک مانگنے کے لیے جاتی تھی اور شام کو اسے اپنے شوہر کو طے شدہ رقم لا کے دینا ہوتی تھی۔

کہنے کو تو یہ ایک سابقہ نوابی ریاست کے مرکزی شہر کے ایک کونے میں خالی قطعہ زمین پہ بنائی گئی جھونپڑیوں میں رہائش پذیر بھیک مانگنے والے خانہ بدوش تھے لیکن ان کے پاس پیسے ٹکے کی کوئی کمی نہ تھی۔ ہر جھونپڑی میں ڈش انٹینا لگا ہوا تھا۔ جھونپڑی کے اندر ائر کولر اور دوسرا سامان بھی موجود تھا۔ جھونپڑیوں میں چارپائیوں پہ پاؤں پسارے مردوں کے پاس جدید سمارٹ فونز تھے جن پہ وہ ماہانہ انٹرنیٹ پیکیج لگوا کے نہ صرف یوٹیوب پہ فلمیں اور ڈرامے دیکھتے تھے بلکہ فیس بک اور واٹس اپ بھی استعمال کرتے تھے۔ ان کی سوچ تھی، ”مزے لو، درجن درجن بچے پیدا کرو، معاشرے کا کام ہے انھیں پالنا۔“ بچے ابھی ٹھیک سے بولنا نہیں سیکھ پاتے تھے لیکن انہیں بھیک مانگنے کا ہنر سکھا دیا جاتا تھا۔

نکاح کے چھوہارے بانٹنے کے بعد باراتیوں کے لیے کھانا لگایا گیا۔ ٹامیوالی سے آئے مشہور ماہر باورچیوں نے کئی ڈشیں تیار کیں تھیں۔ بکرے کا فرائی گوشت، مرغی کے روسٹ لیگ پیس، ہیڈ پنجند سے لائی گئی سرسوں کے تیل میں تلی گئی مچھلی، کوئلوں پہ بھاپ اگلتے گرم گرم کباب، کھوئے اور گلاب جامن والا رنگ برنگا متنجن اور ان سب کے ساتھ دیسی شراب کا بھرا ہوا ٹب جس میں برف کے ٹکڑے تیر رہے تھے، جس کا جتنا دل چاہے جی بھر کے پی لو۔ اور یوں سکھو، شمشو کی دلہن بن کے اس کی جھونپڑی میں آ گئی۔

گہرا سانولا رنگ، تیل چپڑے سر کے بالوں کے درمیان مانگ، چھ بائی دو کی تلوار مارکہ مونچھیں، کسرتی بدن والا شمشو، شراب کے نشے میں لڑکھڑاتا ہوا جھونپڑی میں داخل ہوا اور چھوئی موئی سی سکھو کو دھن کے رکھ دیا۔ فجر کاذب ویلے مرغے نے اذان دی تو وہ چارپائی کے پائنتی والے حصے پہ گھٹڑی بن کے پڑی ہوئی تھی۔ حسب رواج چوتھے دن سکھو بھیک مانگنے گئی اور شام کو شمشو کو اٹھارہ سو روپے لا کے دیے۔

”باقی کے دو شو روپے کہاں ہیں؟“
”اتنے ہی اکٹھے ہوئے جو تجھے لا کے دے دیے۔“

”بکواش کرتی ہے حرام جادی! چٹا گورا رنگ ہے تیرا۔ میں نے تو بابا کو کہا تھا میرا حق مہر پانچ ہجار روپے روج کا لکھواؤ۔ اش کو لوگاں شے اتنے تو مل ہی جایا کریں گے۔ پر تو تو۔“ شمشو نے کہا اور سکھو کو گت سے پکڑ کے زور سے کھینچا اور پھر ایک زوردار لات ماری۔ سکھو کے منہ سے کراہ نکلی اور وہ جھونپڑی کے ایک کونے میں جا گری۔ ”جو کر، کرا، مجھے میرے پیشے پورے لا کے دے۔“ شمشو دھاڑا۔

جامع مسجد الصادق میں جمعہ نماز کے لیے نمازیوں کا رش تھا۔ سکھو بھی دوسری بھکارنوں کے ساتھ مسجد کی سیڑھیوں کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔ لوگ کرنسی نوٹ پھینکتے جا رہے تھے۔ سکھو کو امید تھی آج پورے پیسے جمع ہو جائیں گے اور اسے شمشو سے مار نہیں کھانا پڑے گی۔ اس نے تو یہ بھی کہا تھا کہ آتے ہوئے کڑاہی گوشت اور کولڈ ڈرنکس کی ڈیڑھ لیٹر والی بوتل بھی لیتی آئے۔ دیسی شراب اور چرس کا بندوبست تو وہ سکھو سے روزانہ ملنے والی رقم سے پہلے ہی کر کے بیٹھا ہوتا تھا۔

سالوں پہ سال گزرتے گئے۔ سکھو آٹھ بچوں کی ماں بن گئی۔ بچے بھی ماں کے ساتھ بھیک مانگنے جاتے تھے۔ شمشو اب سکھو کے علاوہ بچوں سے بھی پیسے لے لیتا البتہ شراب کے نشے میں ٹن ہونے کے بعد سکھو کی پٹائی روز کے معمول کی طرح باقاعدگی سے کرتا۔

”شالہ بھڑوا، چرشی، شارا دن نسہ کر کے شویا رہتا ہے۔ اب میں بچے پالوں یا اش حرامی کو؟“ سکھو خود کلامی کرتی۔ جب شمشو آواز دیتا، ”شکھوووووووو!“ تو وہ کانپتی ہوئی دوڑتی چلی جاتی۔ ”چل، میری ٹانگیں دبا“ اور سارا دن کی تھکی ہاری سکھو شوہر کی ٹانگیں دبانے کے ساتھ ساتھ دل ہی دل میں اسے دنیا جہاں کی گالیاں دیتی۔ ساتھ ہی زیر لب بڑبڑاتی، ”شارا دن گیر مردوں کا شامنا اور رات کو اش مردود کا۔“

اپنے بچوں کے بارے میں سوچتے سوچتے سکھو کے ذہن میں ایک عجیب خواہش پیدا ہوئی۔ ”میرے بچے جھونپڑی کی بجائے پکی اینٹوں سے بنے گھر میں رہیں اور میں انھیں اشکول پڑھنے کے لیے بھیجوں۔“ ۔ اس نے شمشو کو روزانہ کی رقم دینے کے بعد اضافی رقم بازار کے ایک چھوٹے دکاندار کے پاس بطور امانت رکھنا شروع کر دی جس پہ اسے حد درجہ اعتماد تھا۔ کچھ دکاندار اسے بھیک دینے کے بعد دو چار سو روپے کی آفر کر کے دکان کے اوپر بنے چوبارے پہ چلنے کی دعوت دیتے تھے لیکن تبسم نام کے اس نوجوان دکاندار کی آنکھوں میں اسے کبھی بھی ہوس کی چمک نظر نہ آئی۔

تبسم شہر کے باہر ریلوے لائن اور نہر کے درمیان صحرائی ٹیلوں پہ بنائی گئی یونیورسٹی کا طالب علم رہا تھا۔ ملک کی یونیورسٹیاں کھربوں روپے فیسوں کی مد میں جمع کر کے لاکھوں پڑھے لکھے بے روزگار تیار کرنے والی فیکٹریاں بن چکی تھیں۔ یونیورسٹیوں سے باہر آنے والے گریجویٹس کے لیے مارکیٹ میں نوکریاں ہی نہیں تھیں۔ تبسم نے بھی نوکری کے لیے چند سال تک ہاتھ پاؤں مارنے کے بعد مایوس ہو کر شہزادی چوک سے فوارہ چوک جانے والی بازار کی ایک عقبی گلی میں ٹافیوں اور بسکٹوں کی چھوٹی سی دکان کھول لی۔ شروع میں سکھو وہاں بھیک مانگنے آتی تھی پھر دونوں کے درمیان باتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ سکھو اپنے دکھڑے اور شمشو کے ہاتھوں مار پیٹ کے قصے سناتی اور تبسم اسے دنیا جہاں کی خبروں سے آگاہ کرتا۔

ایک دن سکھو کی روزانہ کی داستان سننے کے بعد تبسم نے علامتی تجریدی اشعار پڑھے۔
شفاف پانی کا سمندر ہو اتر جاؤں میں
ڈوبوں اور ڈوبوں اور مر جاؤں میں
مچھلیاں کھا جائیں مجھے کچھ نہ بچے
کچھ بھوکوں کا رزق تو بن جاؤں میں
رات کالی سیاہ اور سفر میں اکبر میاں
بھیڑیوں کا جنگل ہے کدھر جاؤں میں

”تبشم شائیں! مجھ ادھ پاگل کو تو تیری ساعری شمجھ نہ آوے۔ بھلا بندہ، شمندر میں جاوے ہی کیوں؟ مجھے تو چھوٹی نہر شے بھی ڈر لاگے اور تم۔“ سکھو بولی۔ تبسم خاموشی سے مسکرا دیا۔

ایک دن سکھو فرید گیٹ کے اندر بھیک مانگ رہی تھی کہ تبسم موٹر سائیکل پہ وہاں سے گزرا۔ ”دکان پہ آ جاؤ۔ میں تمہارا انتظار کروں گا۔“ تبسم نے کہا۔ سکھو وہاں پہنچی تو تبسم نے اس کی امانت ایک لفافے میں اس کے حوالے کر دی۔ ”تبشم شائیں! کیوں؟ ابھی اتنے تو جمع نہیں ہوئے کہ میں اپنے بچوں کے لیے بدر سیر والی کچی آبادی میں کوئی چھوٹا شا مکان خرید لیوں۔“

”سکھو! میں اپنے گھر کی غریبی ختم کرنے کے لیے ایک خلیجی ملک جا رہا ہوں۔ وہاں عمارتوں کی تعمیر کے کام میں مجھے بطور مزدور کام کرنا ہو گا لیکن میں وہاں سے اتنے پیسے جمع کر لوں گا کہ واپس آ کے بازار میں کوئی بڑی دکان کھول لوں۔“ ۔ سکھو کچھ دیر تک تبسم کو بغور دیکھتی رہی اور پھر اپنی آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو چھپانے کے لیے اپنا منہ موڑا اور تبسم سے کوئی بات کیے بغیر چل پڑی۔ خواہش نفس اور عقل کے درمیان ایک جنگ سی جاری رہتی ہے جو ذہن کے سکون کو دیمک بن کے کھا جاتی ہے۔

حکومت نے حکم جاری کیا کہ پیشہ ور بھکاریوں کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا جائے۔ سکھو نے شمشو کو کہا کہ اب کچھ دن وہ بھیک مانگنے نہیں جائے گی۔ ”پلش والے بھیک مانگنے والے کئی لوگاں کو پکڑ کے لے گئے ہیں۔ مجھے لے گئے تو میرے منے کو دودھ کون پلائے گا، میرے چھوٹے چھوٹے بچوں کو روٹی کون لا کے دے گا۔“ اس نے شمشو کو کہا۔ شمشو کہاں ماننے والا تھا۔ ایک دن نشہ نہ ملنے سے اس کا بدن ٹوٹنے لگا تو اس نے پانی والے پلاسٹک پائپ سے سکھو کو مارا۔ ”حرام جادی! جیل جا یا باہر رہ۔ مجھے پیشہ لا کے دے۔“

اور پھر سکھو بھیک مانگنے پھر سے چلی گئی۔ اس کی قسمت کہ جس بازار میں وہ بھیک مانگ رہی تھی، پولیس وہاں آ گئی اور دیگر بھکاریوں کے ساتھ اسے بھی گرفتار کر کے لے گئی۔ سکھو نے لاکھ منت سماجت کی، ہاتھ جوڑے۔ پر کہاں۔

تھانہ کی حوالات میں کئی بھکاری بند تھے جنہیں اگلے روز جیل بھیجا جانا تھا۔ سکھو حوالات کے باہر گزرنے والے ہر پولیس والے کو دہائی دیتی، ۔ ”او بھائی پلش والے! تیرے بچوں کو دعائیں دوں گی۔ میرے منے کو دودھ پلانے والا کوئی نہیں، مجھے جانے دو۔“

رات اپنے نصف کی جانب بڑھنے لگی تو تھانہ کی زیادہ تر نفری خصوصاً افسر شمار ہونے والا عملہ اپنے گھروں کو چلا گیا بس چند سپاہی رہ گئے۔ نصف رات گزر جانے کے بعد ایک سپاہی حوالات کے قریب آیا۔ حوالات میں سکھو کے علاوہ سب بھکاری گہری نیند سو رہے تھے۔ وہ کیسے سوتی۔ اسے رہ رہ کے اپنے بچے یاد آ رہے تھے۔ سپاہی نے حوالات کا تالہ کھولا اور سکھو کو باہر آنے کا اشارہ کیا۔ سکھو نے جانا کوئی فرشتہ اس کی مدد کو آ گیا ہے۔ سپاہی نے سکھو کی کلائی پکڑی اور ایک نیم تاریک کمرے میں لے گیا۔ کمرے میں الماریوں میں اور میز پہ پرانی فائلوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ اس نے میز پر سے فائلیں ہٹائیں اور سکھو کو اس پہ لیٹنے کا اشارہ کیا۔ سکھو کی آنکھوں میں حیرت اور صدمے کی کیفیت امڈ آئی۔

گہری سیاہ رات میں سکھو ایک زندہ لاش کی طرح جا رہی تھی۔ سارا شہر گہری نیند سو رہا تھا۔ ہاں کہیں سے کسی چوکیدار کی سیٹی بجانے یا کتوں کے بھونکنے کی آواز آ جاتی۔ وہ خوف سے آزاد ہو چکی تھی۔ نہ تو اسے رات کی تنہائی میں کسی غیر مرد کے سامنا کا خوف رہا تھا نہ ہی کسی بلا کا۔ وہ جھونپڑی میں داخل ہوئی تو شمشو چارپائی پہ پاؤں پسارے گہری نیند سو رہا تھا۔ بچے نیچے فرش پہ بچھی رلی پہ سو رہے تھے۔ وہ کچھ دیر تک بغور شمشو کو دیکھتی رہی پھر آ گے بڑھی، جھونپڑی کے ایک کونے سے رسی اٹھائی اور آہستگی سے شمشو کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے۔

پھر کپڑے کا ایک پرانا ٹکڑا شمشو کے منہ میں ٹھونس دیا۔ سانس کی روانی متاثر ہوئی تو شمشو کی آنکھ کھل گئی لیکن اسے احساس نہ ہوا کہ وہ بندھا پڑا ہے۔ اس کی نظر سامنے کھڑی سکھو پہ پڑی تو آنکھوں میں غصے والی کیفیت آ گئی۔ اس نے حرکت کرنا چاہی تو نہ کر سکا۔ سکھو نے شمشو کو چارپائی سے نیچے گرایا اور پھر گھسیٹے ہوئے جھونپڑی سے باہر لے گئی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے بچوں کی نیند خراب ہو۔ کبھی وہ شمشو کو تھپڑ اور مکے مارتی اور کبھی لاتوں سے ٹھوکر لگاتی۔ ”آئندہ شے تو بھیک مانگے گا اور میں اور میرے بچے بیٹھ کے کھائیں گے۔“ سکھو غرائی۔ ”نہیں، جب تک تو لنگڑا کے نہیں چلے گا تجھے زیادہ بھیک نہیں ملے گی۔“ ۔ پھر سکھو نے اناج کوٹنے والا ڈنڈا اٹھایا اور شمشو کی ایک ٹانگ پہ زور زور سے وار کیے۔

شمشو کی آنکھیں حیرت سے پھٹتی جا رہی تھیں۔ اسے یقین ہی نہیں آر ہا تھا، یہ وہی سکھو ہے جو روزانہ مار کھاتے ہوئے اس کے آگے ہاتھ جوڑتی تھی۔ جسم پہ پڑنے والی چوٹوں اور ہڈی ٹوٹنے کے درد کی وجہ سے شمشو کی آنکھوں سے نشہ اور نیند ہرن ہو چکے تھے جبکہ سکھو کے خراٹے پوری جھونپڑی میں گونج رہے تھے۔ سونے سے پہلے سکھو نے دعا مانگی تھی، ”میرے اللہ! میرے مرنے کے بعد جنت میں مجھے مرد بنا کے داخل کرنا۔ میں جنت میں بیوی والی زندگی نہیں گزارنا چاہتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments