حادثہ


وہ مجھے بہت یاد آتا ہے۔ ہر گھڑی، ہر لمحہ؛ اس کی شوخ نظریں، اس کی وارفتگی، بے قراری، التفات، شرارتیں کیا کیا بھلاؤں، کیسے بھلاؤں۔

انیقہ ماہر نفسیات ڈاکٹر آفریدی کے سامنے بیٹھی اپنی بپتا سنا رہی تھی۔ وہ ایک شادی شدہ عورت تھی۔ اس کا شوہر عاطف متوسط طبقے کے اور مردوں کی طرح صبح اٹھ کر کام پر چلا جاتا، شام کو آتا، کھاتا پیتا اور پڑ کے سو جاتا۔ چھٹی کا دن ہفتے بھر کی تھکان اتارنے کے لئے دوستوں کے ساتھ گزارتا۔ کبھی کرکٹ کا میچ، کبھی آؤٹنگ اور کبھی بس یونہی ہنسی، کھیل، ٹھٹھہ، وقت گزاری۔ انیقہ گھر سجاتی، کھانے بناتی پھلواری میں نت نئے پھولوں کی پنیری لگاتی، شاپنگ کرتی، ٹی وی کے ڈرامے دیکھتی یا اماں سے فون پر باتیں کرتی۔

نہ ساس نند کی علت، نہ میاں کی طرف سے روک ٹوک پھر بھی انیقہ ہر وقت قنوطیت کا شکار رہتی۔ ہر بات پر جھونجھل اتی۔ کبھی بہت اچھا لباس پہن کر، خوب میک اپ کر کے آئینے کے سامنے اٹھلاتی، پھر دوسرے ہی لمحے سب اتار پھینکتی۔ جسم بلاوجہ کپکپانے لگتا۔ دل کی دھڑکن ڈوبنے لگتی اور وہ بے سدھ ہو کر بستر پر ڈھے جاتی۔ کئی بار میاں سے طبیعت کی خرابی کا ذکر کر کے گھر میں ٹھہرنے کو کہا مگر وہ کہتا

”یار کچھ نہیں ہوا تمہیں، بس فالتو دماغ کی کارستانی ہے۔ میں گھر میں بیٹھ کر کیا کروں، کوئی بچہ بھی نہیں کہ اس سے کھیل کر دل بہلا لوں۔“ یہ بات ایک گھونسے کی مانند انیقہ کے دل کو جا کر لگی۔ وہ تین بار حاملہ ہوئی تھی مگر گود پھر بھی خالی تھی تو اس کا کیا قصور۔ اور گھر میں بچہ نہیں تو کیا وہ بھی نہیں، اس کا وجود کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

انیقہ کی طبیعت دن بدن بگڑتی جا رہی تھی۔ لگتا تھا اب اسے کسی چیز میں دلچسپی نہیں رہی۔ وہ بے ڈھنگے لباس میں سر جھاڑ منہ پھاڑ پھرتی۔ کھانے میں کبھی نمک تیز تو کبھی مسالہ ہی نہیں۔ کیاری میں پودے مرجھا کے ٹنڈ منڈ ہو گئے تھے پر اس کی بلا جانے۔ بستر پر ایک ہی کروٹ پڑی رہتی یہاں تک کہ بدن سن ہوجاتا سر میں چیونٹیاں سی رینگنے لگتیں۔ گھر کی بے ترتیبی اور انیقہ کی بے رنگی حد سے بڑھی تو عاطف بھی آخر پریشان ہو گیا۔

اسے انیقہ کے ڈپریشن کی تک سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ اس کا خیال تھا وہ ناشکری ہے جو دنیا کا آرام و سکون میسر ہونے کے باوجود رونا روتی رہتی ہے۔ اس نے اپنے دوست سے ذکر کیا جو شادی کے معاملے میں اس سے کئی سال سینئر تھا۔ اس نے کہا جب بیوی ایسے چلتر کرے تو میکے بھجوا دو اور سیدھی نہ ہو جائے تب تک نہ لاؤ۔ سو عاطف نے اسے میکے بھیج دیا۔ مقام کی تبدیلی عموماً اچھا اثر ڈالتی ہے مگر انیقہ پر الٹا اثر ہوا۔ اپنے کمرے کی مانوسیت سے دوری نے اس کی بے چینی اور بڑھا دی۔

بھابیوں کو بھی اس کا ہر وقت کمرے میں پڑا رہنا اور چائے کی فرمائش کرتے رہنا ناگوار گزرتا۔ وہ سیدھی تو نہ ہوئی، جھگڑالو ہو کر آئی۔ اب خاموش پڑے رہنے کی بجائے بات بات پر جھگڑا کرتی۔ پہلے خود بے سکون تھی اب عاطف کا سکون بھی ملیامیٹ ہو گیا۔ عاطف نے اپنے انکل سے مشورہ کیا تو انہون نے کہا یقیناً انیقہ کو کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے جو وہ زندگی کے کسی تاریک پہلو پر ٹھٹک کر رہ گئی ہے۔ اسے کسی نفسیات دان کو دکھاؤ۔

یوں وہ ڈاکٹر آفریدی کے کلینک لے آیا تھا۔ ڈاکٹر آفریدی نے پہلے کچھ سوالات دونوں سے پوچھے اور پھر مریضہ سے تنہائی میں گفتگو کی اجازت چاہتے ہوئے اس سے باہر بیٹھنے کی درخواست کی۔ ڈاکٹر آفریدی نے جونہی انیقہ کو کھل کر بات کرنے کا عندیہ دیا، جیسے سوڈے واٹر کی بوتل کا کارک اڑا دیا ہو۔ اس کے اندر موجود ساری الجھنیں، ساری کلفتیں بلبلوں کی طرح چھلکا شروع ہو گئیں۔ کسی کی یاد خمار کی طرح اس کی آنکھوں میں اتر رہی تھی۔

”وہ آپ کو کب زیادہ یاد آتا ہے“ ڈاکٹر آفریدی نے مہمیز کیا

”بارش میں چائے پیتے ہوئے، موٹر سائیکل پر کہیں جاتے وقت، سگنل پر پھول والے کو دیکھ کر، اور تو اور شوہر سے قربت کے لمحات میں بھی وہ میری نظروں کے سامنے ہوتا ہے۔ آنکھیں بند کر کے اس کا تصور نہ کروں تو جسم بیدار ہی نہیں ہوتا“ ۔

”کیا آپ کے شوہر آپ سے پیار نہیں کرتے“

انیقہ سوچ میں پڑ گئی جیسے بہت مشکل سوال کر دیا ہو، حسن بانو کے سات سوالوں جیسا۔ اور وہ منیر شامی ہو۔ بڑی سوچ بچار کے بعد وہ گویا ہوئی

”ان کا دعوی ہے کہ وہ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔“
”اور آپ کیا سمجھتی ہیں۔ کیا ان کا دعوی غلط ہے“
”پتہ نہیں، پر وہ اس کی طرح نہیں چاہتے“
”“ وہ چاہت کا اظہار کس طرح کرتا تھا ”

ڈاکٹر آفریدی کے اس سوال پر وہ کھڑکی کو تکنے لگی جیسے کھڑکی کوئی ٹائم مشین ہے جو اسے گزرے ہوئے وقت میں لے جائے گی۔ پھر نیم خوابیدگی کے عالم میں بولی جیسے کہ گزرے ہوئے وقت میں جا پہنچی ہو۔

”مجھے گلاب اور بیلے کے گجرے بہت پسند ہیں۔ ہاسٹل میں جب بھی ملنے آتا میرے لئے سفید کلیوں اور سرخ گلاب سے گندھے گجرے ضرور لے کر اتا۔ اور میری سفید کلائیوں میں پہنا کر پھولوں کی خوشبو سونگھنے کے بہانے بے ایمانی کر لیتا۔ میری سہیلیاں میرے ہاتھوں میں گجرے اور سانسوں میں خوشبو سے جان جاتیں کہ وہ مل کر گیا ہے۔“

”آپ کے شوہر آپ کے لئے گجرے نہیں لاتے“ ۔ ڈاکٹر آفریدی نے دھیرے سے اسے ماضی سے کھینچا۔

”بالکل نہیں۔ انہیں سگنل پر پھول والا دکھائی ہی نہیں دیتا اور اگر میں نشاندہی کر کے فرمائش کروں تو سگنل کھلنے کا بہانہ کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں“

”اس کے بارے میں اور کچھ بتائیے“ آفریدی نے اس کے چہرے پر غصے کے تاثرات نوٹ کرلئے تھے

وہ میری سالگرہ کبھی نہیں بھولتا تھا۔ اسے ویلنٹائن ڈے یاد رہتا تھا وہ مجھ سے ملنے کا جو وقت دیتا اس سے منٹ کا سواں حصہ بھی متاخر نہ ہوتا میرے شوہر کی طرح نہیں، جو وقت گھر آنے کا بتائیں اس سے گھنٹوں بعد آئیں۔ ”ایک بار میری سالگرہ کے دن بارش ہو رہی تھی میں سوچ رہی تھی بھلا بائیک پر کیسے آ سکے گا پر وہ آیا کیک اور موم بتیاں لے کر۔“

”کیک اور موم بتیاں لے کر“ ۔ ڈاکٹر آفریدی نے دہرایا تاکہ انیقہ کو احساس دلا سکے کہ وہ توجہ سے اسے سن رہا ہے ”

”ہم نے کیک کاٹا۔ میں نے چائے اور پکوڑے بنائے اور ہم نے کھڑکی کے پاس بیٹھ کر بارش کا لطف اٹھایا“
”آپ کے شوہر بارش میں پکوڑوں کی فرمائش نہیں کرتے؟“

”فرمائش کرتے ہیں لیکن دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کے لئے۔ جی چاہتا ہے تیل کے بجائے گھانسلیٹ میں پکوڑے تل کر دوں“

”آپ ویلنٹائین ڈے کا ذکر کر رہی تھیں“ ڈاکٹر آفریدی نے چہرے کا رنگ بدلتے دیکھ کر موضوع بدلا
”وہ ایک بار پھر ٹائم مشین میں سوار ہو کر ماضی میں چلی گئی۔

وہ ایک نہایت نفیس مینا کاری سے مزین چاندی کا کنگن لایا تھا۔ میری کلائی میں ڈال کر اس کا پیچ بند کرتے ہوئے بولا ”یہ پیار کی ہتھکڑی ہے۔ مقفل کر کے چابی سمندر میں پھینک دوں گا تاکہ تم کبھی بھی آزاد نہ ہو سکو۔ سچ کہا تھا اس نے۔ آج تک آزاد نہ ہو سکی اس نے کلائی میں پڑے نقرئی کنگن پر نظریں جمائے ہوئے کہا۔

”یہ کنگن واقعی بہت خوبصورت ہے۔ اپ کے شوہر ویلنٹائین ڈے پر تحفہ دیتے ہیں؟“
”وہ کہتے ہیں یہ سب فضول باتیں ہیں۔ محبت کے لئے ایک دن مختص کرنے کی کیا ضرورت ہے۔“
”وہ آپ کو سیروتفریح کے لئے لے جاتے ہیں؟“

”وہ کہتے ہیں جہاں جانا چاہو چلی جاؤ مگر ساتھ چلنے کو نہ کہو۔ اور وہ سانس کی طرح ہر دم میرے ساتھ رہنا چاہتا تھا۔ میں، وہ اور اس کی ہنڈا 125۔ کبھی چائے کے ڈھابے پر، کبھی چمن تو کبھی بحر کنارے۔ اسے پانی میں اترنا پسند نہیں تھا۔ وہ کنارے پر بیٹھ جاتا اور مجھے پانی سے اٹھکیلیاں کرتے دیکھ کر خوش ہوتا رہتا۔“

”آپ نے کہا کہ شوہر کے ساتھ قربت کے لمحات میں بھی آپ کو وہ یاد آتا ہے۔ کیا اس کے ساتھ آپ کا کوئی جسمانی تعلق بھی ہوا تھا۔ ڈاکٹر آفریدی نے احتیاط سے نازک سوال کیا۔ ایسے سوال پر مریضہ کے برہم ہونے کا اندیشہ تھا تاہم وہ اسی طرح کھوئے کھوئے انداز میں بولی

”اس کے بازو کے نصف قطر نے میرے گرد ہالہ کیا تھا۔ اس کے ہاتھوں کی حدت میرے ہاتھوں پر اب تک متمکن ہے۔ میرے رخسار پر اس کی شرارت اب تک کلیان چٹکاتی ہے۔“

”بس اتنا ہی یا،“ ڈاکٹر آفریدی نے جملہ ادھورا رہنے دیا
”نوادرات کی پوٹلی چھوٹی بھی ہو تو بہت قیمتی ہوتی ہے۔“

آپ کے شوہر خلوت میں کیسا رویہ اختیار کرتے ہیں ”۔ ڈاکٹر آفریدی نے بولڈ سوال کیا

”وہ اپنی بھوک مٹاتے ہیں میری پیاس نہیں بجھاتے۔ آپ جانتے ہیں بھوک اور پیاس میں کیا فرق ہے۔ بھوک جنسی ملاپ سے مٹتی ہے اور پیاس پیار کا مشروب پینے سے بجھتی ہے۔ یہ مشروب آنکھوں سے باتوں سے اور ہاتھوں سے پلایا جاتا ہے۔ وہ مجھے پیاسا نہیں رکھتا تھا۔“

”وہ کون تھا اپ سے کیسے ملا تھا۔ کیا وہ آپ کا رشتے دار، محلے دار یا پھر کلاس فیلو تھا؟“
ان میں سے کوئی بھی نہیں۔ درحقیقت منگنی سے پہلے میں اسے جانتی تک نہ تھی ”
”۔ تو وہ آپ کا منگیتر تھا“ ۔
”منگیتر اور پھر محبوب“ اس نے کہا
” کیا منگنی ٹوٹ گئی تھی؟“
”نہیں، منگنی نہیں ٹوٹی تھی“ ۔

”تو کیا کوئی، حادثہ، پیش آ گیا تھا۔ ڈاکٹر آفریدی نے رک رک کر سوال کیا۔ اس کا ذکر شدید نفسیاتی ایمرجنسی پیدا کر سکتا تھا

”ہاں شاید حادثہ ہی پیش آ گیا تھا اس حادثے کے بعد سب کچھ ختم ہو گیا
ہماری شادی ہو گئی تھی وہ منگیتر سے شوہر بن گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments