روس و یوکرائن کی جنگ حقائق کے تناظر میں -حصہ دوم


شیر، بھیڑیا اور لومڑی تینوں اکٹھے شکار کو نکلے، ان کو شکار میں نیل گائے، جنگلی بکرا اور خرگوش ہاتھ آئے، شیر نے بھانپ لیا کہ لومڑی اور بھیڑیا بھی اپنے حصے کی تمنا رکھتے ہیں تو شیر نے پہلے بھیڑیے کو بلایا کہ آپ شکار کو انصاف سے تقسیم کرو، بھیڑیا بولا بادشاہ سلامت آپ بڑے ہیں آپ کا حق بھی زیادہ ہے اس لئے نیل گائے آپ کا حصہ ہے، جنگلی بکرا چونکہ درمیانہ شکار ہے لہذا اس کو میں کھا لوں گا، اور خرگوش چونکہ چھوٹا شکار ہے تو اس کو ہم لومڑی کو دے دیں گے، شیر کو غصہ آ گیا بولا تیری کیا اوقات ہے کہ میرے ہوتے ہوئے تو اس طرح منصفی کرے، اس کے بعد اس زور کا پنجہ مارا کہ بھیڑیے کی جان نکال دی، بھیڑیے سے نبٹ لینے کے بعد شیر نے لومڑی کو طلب کیا اور کہا تو کس طرح اس شکار کی تقسیم کرے گی، لومڑی جو بھیڑیے کی تقسیم اور اس کا انجام دیکھ کر عبرت پکڑ چکی تھی مودبانہ لہجے میں یوں بولی جناب عالی بادشاہ سلامت اس میں تقسیم کیسی، یہ نیل گائے آپ کا صبح کا ناشتہ، جنگلی بکرا دوپہر کا کھانا اور خرگوش رات میں تناول فرما لیجیے گا، باقی میری خوشی تو آپ کی خوشی میں ہے، شیر لومڑی کی انکساری سے بہت خوش ہوا اور بولا تم نے یہ تابعداری اور انصاف کی تقسیم کہاں سے سیکھی، لومڑی بولی، حضور عالی بھیڑیے کے انجام سے، شیر اس کے جواب سے بہت خوش ہوا اور تینوں شکار اس کو بخش دیے۔

اس تمہید سے بتانا یہ مقصود ہے کہ دوسروں کے انجام سے سبق حاصل کرنے والے ہی دانا ہوتے ہیں اور دوسرا یہ کہ بڑے اور طاقتور کے سامنے انصاف وہ ہی ہوتا ہے جو اس کی طبعیت کو راس آئے ورنہ اپنے سے طاقتور کے سامنے حجت کرنا اور بات بے بات اس کی مخالفت کرنا اپنے لئے گڑھا کھودنے کے مترادف ہے، بعین ہی یہ معاملہ روس اور یوکرائن کا ہے، ایک بہت بڑی طاقتور فوج کا حامل ملک جو کسی دور میں سپر پاور رہ چکا ہو اور اس کے مقابلے میں ایک درمیانے درجہ کا ملک جو کبھی سوویت یونین کا حصہ رہا ہو اور اپنی مرضی سے اپنی ترجیہات طے کرنے کی جسارت کرے تو ایسی چیز ایک طاقتور کو بھلا کہاں گوارا ہو سکتی ہے۔

اب آتا ہوں اپنے آج کے موضوع کی طرف، پہلی آزاد یوکرینی ریاست کا اعلان پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر روسی اور آسٹرو ہنگری سلطنتوں کے خاتمے کے بعد 1917 میں کیف میں کیا گیا تھا، یہ آزادی عارضی ثابت ہوئے، نئے ملک پر پولینڈ نے حملہ کر دیا اور زار کی وفادار قوتوں سے لڑا جس نے روس کے 1918 کے انقلاب میں اقتدار سنبھالا، 1922 میں جب یوکرین سوویت یونین میں شامل ہوا تو اس کی معیشت تباہ و برباد ہو چکی تھی، اس کی آبادی بھوک سے بے حال تھی، اس سے بھی بد تر صورتحال پیش آئی جب یوکرینی کسانوں نے 1930 میں اجتماعی فارموں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تو سویت رہنما جوزف سٹالن نے اجتماعی پھانسیوں اور قحط کا منصوبہ بنایا، جس میں کم و بیش لاکھوں لوگ مارے گئے، اس کے بعد سٹالن نے لاکھوں روسیوں اور سویت شہریوں کو یوکرائن میں لا بسایا تاکہ اچھی قسم کے کوئلے اور معدنیات جیسا کہ لوہے وغیرہ سے مالا مال ملک میں اپنے لوگوں کو آباد کیا جا سکے، جب ہم پس منظر دیکھتے ہیں تو کچھ بنیادی عوامل ہیں جن کی وجہ سے روس اور یوکرائن آپس میں دست و گریبان ہیں، دسمبر 1991 میں سوویت یونین کی تحلیل کے ساتھ یوکرائن نے مکمل آزادی حاصل کر لی، ملک نے اپنا سرکاری نام بدل کر یوکرائن رکھ دیا۔ چھ ممالک جو سویت یونین میں شامل تھے مگر سوویت یونین کی تحلیل کے بعد آزاد ہو گئے خاص طور پر جارجیا اور پھر 2014 میں انقلاب کے بعد یوکرائن ان ممالک میں شامل ہو گیا جو نیٹو کی رکنیت لے کر اس کا حصہ بننے کے خواہشمند ہیں، شروع میں روس کا رد عمل ڈھیلا ڈھالا تھا اس کی وجہ یہ تھی جب سویت یونین ٹوٹا تو روسی مورال ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا، کیونکہ 1990 کا سال ان کے لئے بھیانک عفریت کی مانند تھا، روسی شروع میں یہ سمجھتے تھے کہ یورپین یونین ایک خالصتاٰ اقتصادی مشق ہے مگر ان کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ ایک سیاسی منصوبہ بھی ہے جو کہ یورپ کی اور امریکی سوچ کی برتری کا بھی عکاس ہے، روسیوں نے یورپی یونین کی توسیع اور نیٹو کی توسیع کو معیار کے لحاظ سے مختلف جانا مگر یہ ان کی بھول تھی۔

یہ صورتحال جوں کی توں 2007 تک رہتی ہے حتیٰ کہ پوٹن انتظامیہ انگڑائی لے کر بیدار ہوتی ہے اور صدر ولادی میر پوٹن میونخ میں ایک تقریر کے دوران مغربی اداروں کی توسیع کے خلاف آواز اٹھاتا ہے، اب کہانی میں ٹوئسٹ ایسے آتا ہے کہ 2008 میں نیٹو نے تنظیم میں شمولیت کا عمل شروع کرنے کے لئے جارجیا اور یوکرائن دونوں کی درخواست کی حمایت کی، خانہ جنگی اور سویت یونین کے ٹوٹنے کے دوران ہاتھ سے نکل جانے والے علاقوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لئے جارجیا نے شمالی جارجیا میں ایک روسی ریاست جنوبی اوسیتیا پر حملہ کر دیا اور پھر یہ ہوا کہ روسیوں نے ان کو نکال باہر کیا اور پھر جارجیا کے دارالحکومت تبلیسی تک پیش قدمی کی تاکہ جارجیا اور نیٹو ممالک کو یہ پیغام پہنچایا جا سکے کہ جارجیا میں توسیع کا مطلب روس سے ٹکرانا ہے اور یہ کہ مرا ہوا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے، اس لئے ایسا سوچنا بھی امر محال ہے، یوکرائن کا معاملہ کچھ یوں ہوا کہ 2014 میں کیف جو کہ یوکرائن کا دارالحکومت ہے اس میں ایک انقلاب آیا اس وقت یوکرائن کے صدر وکٹر یانو کووچ یوکرائن کے بیشتر صدور کی طرح انتہائی کرپٹ آدمی تھے، دوسرا ان مسٹر وکٹر نے ڈبل گیم چلائی ہوئی تھی یعنی ماسکو کے ساتھ بھی دوستی رکھی ہوئی تھی اور یورپی یونین کے ساتھ بھی پینگیں چڑھائی ہوئی تھیں، ایسی ہانڈی اکثر بیچ چوراہے میں پھوٹ جاتی ہے، اس کے ساتھ بھی یہ معاملہ ہوا کہ روس اس کا ارادہ بھانپ گیا اور اس کو مجبور کر دیا کہ واضح اعلان کر دے کہ کون سے فریق کا انتخاب کرے گا، تو صدر اس دباؤ کے آگے مجبور ہو گیا کہ یورپی یونین کے تجارتی معاہدے میں شامل ہونے سے انکار کر دے، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یوکرائن میں انقلاب برپا ہو گیا، اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے روس نے جزیرہ نما کریمیا کو اپنے اندر ضم کر لیا، اب یہ کریمیا کی کہانی بھی قارئین کو بتاتا چلوں کہ روس اور یوکرائن کے درمیان بننے والے تنازعات اور تناؤ کی وجوہات میں ایک کریمیا بھی شامل ہے، کریمیا میں اکثریتی نسلی روسی آبادی ہے، اور روس کا بحیرہ اسود میں بحری بیڑا بھی کریمیا میں ہی لنگر انداز ہوتا تھا، اور گرم پانی کی بندرگاہ تک روسی رسائی بھی کریمیا کے بغیر ممکن نہیں تھی، روس نے اس بحیرہ اسود سے متصل جزیرہ پر قبضہ کیا ہواء تھا جب روس نے دیکھا کہ نیٹو اپنے دانت کچکچا رہا ہے تو انہوں نے فوری اور موثر کارروائی کرتے ہوئے کریمیا کے باقی حصوں پر بھی قبضہ کرتے ہوئے مغرب کو چونکا کر رکھ دیا، اس جزیرہ پر بہت عرصہ تک روس کی حکمرانی رہی تھی مگر سویت رہنما نکیتا خروشیف نے 1954 میں اچانک اٹھا کر کیف کو تحفے میں دے دیا، اب بہت سارے روسیوں کا خیال ہے کہ جب خروشیف نے کریمیا کا روس سے الحاق ختم کرنے پر دستخط کیے تو وہ نشے میں تھا جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ وہ یوکرائن کی قحط کے بعد کی صورتحال کے بعد مدد کرنے کی کوشش میں تھا، اصل سبب تو اللہ پاک کے علم میں ہے مگر خرو شیف کی یہ سخاوت عام روسیوں کو کبھی ہضم نہیں ہوئی۔

دوسرا سب سے اہم تنازعہ یہ ہوا کہ روس اور یوکرائن کے درمیان یہ طے ہوا تھا کہ یوکرائن نیٹو کی ممبر شپ حاصل نہیں کرے گا، کیوں کہ روس کے بقول اس طرح نیٹو کی افواج روس کی سرحد تک رسائی کر سکتی ہیں، لیکن یوکرائن نیٹو کی ممبر شپ کی کوشش کرتا رہا اور مغربی ممالک اس کی حوصلہ افزائی کرتے رہے حالانکہ یہ ممالک اگر چاہتے تو یوکرائن کو ممبر شپ سے انکار کر دیتے جس سے یہ جنگ ٹالی جا سکتی تھی، مگر ملکوں کو اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں، جب چنگ کی چنگاری بھڑکے گی تو اسلحہ بھی خوب بنے گا اور جب سرد جنگ کا بازار گرم ہو گا تو پھر روس کے پڑوسی اور مشرقی یورپ کے ممالک کو ڈرا دھمکا کر بڑے بڑے ہتھیاروں کے سودے ہوں گے جس میں کئی ملکوں کے ہاتھ رنگے جائیں گے، ابھی حال ہی میں پولینڈ سے 6 ارب ڈالر کا سودا ہواء ہے، یہ بنیادی عوامل ہیں جن کی وجہ سے ان دونوں ممالک کے درمیان دن بدن صورتحال دن بدن مخدوش ہوتی گئی، ایک وقت تھا کہ یوکرائن کے پاس ایٹمی اثاثے تھے، امریکہ اور برطانیہ نے یوکرائن کو کہا تم کو ایٹمی اثاثوں کی کیا ضرورت ہے جب کوئی پریشانی ہوتی ہے تو ہم آپ کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں گے ، مگر جب روس نے حملہ کیا تو معاشی پابندیوں اور بیانات کی حد تک یوکرائن کو ضرور سپورٹ کیا گیا مگر عملی جدوجہد اور اپنی بقاء کی جنگ صرف یوکرائن خود ہی لڑ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments