مارچ کے مہینے میں دو مارچ


مارچ کے مہینے میں مچلنے والے دو مارچ اک وفاقی حکومت کی طرف سے صوبہ بچاؤ مارچ ہے جس کو سندھ حقوق مارچ سے منسوب کیا گیا ہے اور دوسرا سندھ حکومت کا پاکستان بچاؤ مارچ ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی سربراہی میں دارالحکومت کی طرف رواں دواں ہے جو کراچی سے 10 دن تک سندھ اور پنجاب کے 34 مختلف شہروں سے ہوتا ہوا 8 مارچ کو اسلام آباد پہنچے گا۔

پاکستان تحریک انصاف کا سندھ حکومت کے خلاف حقوق مارچ گھوٹکی سے 26 فروری سے شروع ہوا اور سندھ کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا سکھر سے شکار پور، کشمور اور جیکب آباد سے ہوتا ہوا کراچی تک سات مارچ کو پہنچنا تھا جبکہ سیکیورٹی خدشات کی بنا پر پی ٹی آئے نے اپنے روٹ تبدیل کیے ہوئے ہیں۔

دونوں مارچ کا نقطہ نظر اس بات پر بھی زیادہ ہے کہ میڈیا کس قدر اس کو کوریج دے رہی ہے تاکہ رہنما عوام میں زیادہ پذیرائی اور مقبولیت حاصل کر سکیں۔ اسے میں سوشل میڈیا پر کئی ایسی وڈیو کلپس بھی وائرل ہوئیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے حکمران خالی کرسیوں کو خطاب کر رہیں ہیں، کہیں پر ایسی نیوز اسٹوریز بھی دیکھنے کو ملی جہاں پر لگی ہوئی کیمپس میں جیالوں کے لیے گنے کا فصل کاٹ کر رہائشی تنبو اور کھانے پینے کا احتمام ہو رہا تھا، کہیں پر ڈرون اس لیے بھی نہیں اڑایا جا رہا تھا کہ لوگ کم ہیں ڈرون سے پتا لگ جائے گا۔

تاہم الزامات کا بازار بہت گرم دیکھنے کو مل رہا ہے سوشل میڈیا صارفین دس روپے پیٹرول میں کمی اور پیکا آرڈیننس واپس لینے والے فیصلوں کو بھی عوامی مارچ سے منسوب کر رہے ہیں۔ البتہ فائدہ عوام کا ہے تو عوامی مارچ نکالنے والی جماعت اس کو بھرپور انداز میں کیش کرانے میں تاہم کامیاب ہے۔

حال ہی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل رحمان بھی کافی مطمئن نظر آئے ہیں انہوں نے آنے والے چوبیس گھنٹوں کو اہم ترین قرار دیا ہے۔ جس کو اگر چھٹی حس کی بنا پر تولا جائے تو عوامی مارچ ان دنوں میں پنجاب کے اور بالخصوص دارالحکومت کے کافی قریب پہنچ چکا ہو گا۔ اس بات کو زور رکھتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اب اپوزیشن کا آپس میں ایک نقطہ پر بھی اختلاف نہیں۔

سیاسی ہلچل کا بازار اس مارچ کے مہینے میں بہت گرم نظر آ رہا ہے۔ اگر تو اس کی اسکرپٹ انڈین ویب سیریز کے مرزا پور کے رائٹر نے لکھی ہے تو ”اٹیک میں بھی مارچ، ڈیفینس میں بھی مارچ“ والے ڈائلاگ والی قسط جاری ہے۔

کرن انشومن کی ویب سیریز میں، مرزا پور کی گدی اور حکومت چلانے کے لیے ترپاٹھی خاندان کے قوانین اور اصول کھرے تھے، عوامی مارچ کے آغاز سے قبل پیپلز پارٹی نے 38 مطالبات کی فہرست پیش کی ہے جس کے مطابق ہر سطح پر شفاف اور آزاد انتخابات کا انعقاد، 1973 کے آئین کے تحت حکومت کا نظم و نسق چلانے، آئین میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے مقرر اختیارات کے اصولوں کی پاسداری اور تمام اداروں کے آئینی حدود میں رہتے ہوئے کارکردگی اور اختیارات کو جانچنا شامل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments