نقالوں سے ہوشیار


لاریب گھاٹے میں ہے وہ شخص جو کسی افسر کا صرف گریڈ دیکھ کر اس سے تعلق استوار کرتا ہے۔ سراسر گھاٹے میں۔ اکثر اوقات گریڈ صرف دھوکہ ہیں۔ سراسر دھوکہ۔

ابتدا ہی سے واضح کر دیں یہ کالم صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو شعبہ تعلقات سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ خاص ان لوگوں کے لیے۔ عامیوں کا اس تحریر سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس کالم کا مقصد بھی واضح کر دیتے ہیں۔ صرف اس شعبہ سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کی راہنمائی۔ کیونکہ مشاہدہ میں آیا ہے کئی دفعہ سادہ لوح حضرات (خواتین و حضرات پڑھیے ) اپنا قیمتی وقت اور اپنے خون پسینے کی کمائی ایسے ”بے فیض“ ، گھامڑ، ناکام اور نالائق افسروں پر خرچ کرتے ہیں جو تھانہ کچہری سے بندہ چھڑانا تو دور کی بات کسی کو دو ٹکے کا مفاد تک نہیں دے سکتے۔

حضرات ایسے افسران کی کمی نہیں۔ اپنا پردہ چاک کرنے کی قیمت پر بتاتے چلیں کہ ہم ایسے ناہنجار افسروں کی قطعاً کمی نہیں جن کا فون اپنا کوئی بیچ میٹ بھی نہیں سنتا۔ حتی کہ کوئی پٹواری اور کوئی چھوٹا تھانیدار بھی ان کے کہے پر کام نہیں کرتا۔ اب کیا کیا بتائیں۔ اپنا پیٹ ننگا کرنے والی بات ہے۔ اپنے گھر میں بھی ان کی نہیں چلتی۔

بقول فیض آج تخت اور تاج تو نہیں اچھالے جائیں گئے مگر سادہ لوح عوام الناس کی راہنمائی کے لیے ان دھوکہ باز افسروں کے پردے ضرور چاک کیے جائیں گئے۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے ایسے خشک، بے فیض اور گھامڑ افسروں کی نشاندہی کیسے ہو کہ تعلقات کے راہوں کے مسافر ان نقالوں سے بچ سکیں۔ اور اپنی منزل کھوٹی نہ کریں۔ اس مقصد کے لیے ہم نے کافی محنت اور ریسرچ کے بعد ایک فارمولہ ایجاد کیا ہے جو بہت معروضی اور Quantifiable ہے۔

جس طرح ڈاکٹر محبوب الحق نے ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس (HDI) کا تصور دیا تھا بعینہ اس طرز پر کسی افسر کی کامیابی کا معیار اور موثر پن معلوم کرنے کے لیے ہم نے پبلک ریلیشننگ انڈیکس (PRI) بنایا ہے۔ کوئی بھی شخص کسی افسر سے تعلق استوار کرنے سے پہلے اس کا PRI سکور معلوم کر سکتا ہے۔ جس افسر کا PRI انڈیکس جتنا زیادہ ہو گا وہ اتنا ہی موثر اور کارآمد ہو گا۔ انڈیکس جتنا کم ہو گا افسر اتنا ہی غیر موثر، بے سود اور بے فیض۔

اس فارمولہ میں کل چھ انڈیکیٹرز اور سو نمبرز ہیں جس میں ہر انڈیکیٹر کے نمبر مختص ہیں۔ ہم اتنا بتاتے چلیں جس افسر کے نمبر پچاس فیصد سے کم ہوں اس سے تعلقات تو دور کی بات حضرت کا سلام کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ اس فارمولہ کی تحدید یہ ہے یہ صرف سی ایس پی افسران پر استعمال ہو سکتا ہے۔ تاہم باقی محکموں اور کیڈرز کے افسران کے بارے میں اس فارمولہ سے کسی حد تک مدد ضرور لی جا سکتی ہے۔ ذیل میں ہم فارمولہ میں استعمال ہونے والے انڈیکیٹرز کی تفصیل اور اس کے تحت سی ایس پی افسر کا سکور معلوم کرنے کا طریقہ پوری صراحت سے بیان کر دیتے ہیں

۔ 1 سروس گروپ (کل نمبر تیس)

یہ بہت اہم انڈیکٹر ہے۔ آپ پولیس سروس اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسر کو 30 نمبر دیں۔ انکم ٹیکس اور کسٹم گروپ کو 25 اور فارن سروس کو بیس نمبر دیں۔ حضرات (خواتین و حضرات ) واللہ پولیس اور انڈمنسٹریٹو سروس کو زیادہ نمبر دینے کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہم ان کی طرف داری کر رہے۔ آپ خود منصف بن کر سوچیں کیا تھانے کچہری سے بندہ چھڑانا (اپنے آپ کو چھڑانا بھی پڑھ سکتے ) اور انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانا ایک برابر ہوسکتے ہیں؟

ہرگز نہیں۔ مگر تاکید ہو اگر آپ کاروباری آدمی ہیں یا ایکسپورٹر /امپورٹر یا کسٹم کلیئرنگ ایجنٹ ہیں تو انکم ٹیکس گروپ اور کسٹم گروپ کو پورے تیس نمبر دے سکتے ہیں۔ اسی طرح سمندر پار پاکستانی متنبہ رہیں آپ کے لیے ڈپٹی ہیڈ آف مشن کسی ڈی پی او یا ڈی سی ( ڈی سی او نہیں ) سے قطعاً کم نہیں۔ لہذا آپ فارن سروس کے افسر کو پورے تیس نمبر دے سکتے ہیں۔ اس طرح باقی شعبہ جات کے لوگ بھی حسب ذائقہ (حسب ضرورت پڑھیے ) کسی بھی گروپ کو زیادہ نمبر دے سکتے ہیں۔ یاد رہے دیہاتی پس منظر رکھنے والا چودھراہٹ کا شوقین شخص پولیس گروپ کو تیس میں سے پینتیس نمبر بھی دے سکتا ہے۔

۔ 2 خاندانی پس منظر (کل نمبر بیس)

اس کیٹگری کو ہم نے مزید دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ دس نمبر والدین اور دس نمبر بھائی /بہنوں کے لیے مختص کیے ہیں۔

اگر کسی افسر کا والد سی ایس پی ہو تو اسے دس میں سے اٹھ نمبر دیں۔ گدی نشین، پارلیمنٹرین، اعلی عدلیہ یا فوج کا اعلی افسر ہو تو دس کے دس نمبر دے دیں۔ اس طرح کسی کے والد سالانہ پانچ کروڑ سے اوپر کا کاروبار کرتے ہیں یا پانچ مربع سے زیادہ کے زمیندار ہیں تو سات نمبر دیں اور اگر والدین سادہ لوح دیہاتی یا چھوٹی ملازمت /کاروبار کرتے ہوں تو دس میں سے دو نمبر دیں۔ بہن بھائیوں کے دس نمبر بھی اسی نمونے پر دیے جائیں گئے جس طرح اوپر والدین کی کٹیگری کے نمبر تقسیم کیے گئے ہیں۔ البتہ اگر کسی افسر کا بھائی ضلع کچہری میں وکیل ہو اس کو منفی دس نمبر دیے جائیں گے۔ اس طرح اگر کوئی اپنے خاندان میں اکلوتا افسر بنے تو اس کو بھی منفی دس نمبر دیے جائیں گئے (منفی نمبرز کا مطلب اس افسر کے ٹوٹل حاصل کردہ نمبرز میں سے اتنے نمبر کاٹے جائیں گئے )

۔ 3 تعلیمی پس منظر : ( کل نمبر دس)

یہ اتنا اہم فیکٹر تو نہیں مگر پھر بھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی افسر ایچیسن کالج، امریکن سکول وغیرہ کا پڑھا ہو اہو تو اسے اٹھ نمبر دیں۔ اسی طرح عام انگریزی میڈیم سکول کے چھ نمبر۔ البتہ ٹاٹ سکول سے فارغ التحصیل کو صرف تین نمبر دیں۔ یاد رہے یہ نمبر صرف ابتدائی تعلیم پر ہیں۔ اگر ابتدائی تعلیم دیہات سے ہو اور ماسٹر ڈگری آکسفورڈ سے ہو تو آپ اضافی نمبر نہیں دے سکتے۔

۔ 4 سسرال /بیوی (کل نمبر بیس)

اس فارمولے میں بیوی سسرال کی کیٹگری میں رکھی گئی ہے ( نقص امن کے پیش نظر ) ۔ لہذا دس نمبر بیوی کے اور باقی دس نمبر سسر، سالے اور ہم زلف کو دیے جاتے ہیں۔ بیوی اگر سی ایس پی ہو تو آٹھ نمبر، ڈاکٹر /انجینئر کے چھ نمبر اور اگر بیوی کزن ہو تو صفر نمبر۔ اسی طرح سسر اگر گریڈ بیس سے اوپر ہو تو سات نمبر، پارلیمنٹرین، اعلی عدلیہ اور پاک فوج کا بڑا افسر یا گدی نشین ہو تو پورے دس نمبر۔ اگر سسر کچھ بھی نہ ہو تو مگر سالے اور ہم زلف سینئر بیوروکریٹ، اینکر پرسن یا سالانہ دس کروڑ روپے یا اوپر کے کاروباری یا دس مربع سے زیادہ کے زمیندار ہوں تو سات نمبر۔ اور اگر سارا سسرال بمعہ بیوی خیر خیریت ہو تو پھر صفر نمبر۔

۔ 5 سروس کا بقیہ دورانیہ (کل نمبر دس )

خبردار، گریڈ بائیس کے آئی جی اور چیف سیکرٹری سے گریڈ اکیس، بیس کے افسران زیادہ اہم ہیں۔ گریڈ بائیس کے افسر کے پاس سال دو سال سے زیادہ کی سروس نہیں بچی ہوگی اور آپ اپنی انرجی ضائع کر کے ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ چھوٹی دوڑ کا تیز گھوڑا منتخب کرنے سے بہتر سے بڑی دوڑ کے کم رفتار گھوڑے کا انتخاب کریں۔ لہذا گریڈ بائیس کو تین نمبر دیں۔ گریڈ بیس / اکیس کو چار نمبر اور گریڈ اٹھارہ /انیس کو آٹھ نمبر دیں۔

۔ 6 میرٹ باز /یاروں کا یار (کل نمبر دس )

یہ بہت اہم انڈیکیٹر ہے۔ مثلاً اگر کوئی افسر اوپر والے تمام انڈیکیٹرز میں پورے نمبر حاصل کر رہا ہو مگر اسے میرٹ کی بیماری ہوتو صرف دو نمبر دیں۔ آگ لگے اس کے میرٹ کو ۔ آپ سالہا سال اس کی خدمت کریں۔ اسے پھولوں کی طرح رکھیں اور اگر کبھی چھوٹا سا کام کہہ دیں تو وہ آپ کو میرٹ کی رام کہانی سنانے لگے تو آپ ایسے افسر کے تعلق سے ایسے ہی بھلے۔ مگر ہم مشورہ دیں گے اس سے قطع تعلقی مت کریں تاوقتیکہ وہ آپ کے ساتھ سیلفی لینے پر رضا مندر ہے اور آپ کے گھر بھی کبھی لنچ/ڈنر پر آ جائے۔ اس عمل سے بھی کئی دفعہ بالواسطہ بڑے فائدے ہو جاتے ہیں اور کئی ”کتے بلے“ دفع دور رہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر کوئی افسر یاروں کا یا ر ہو اور آپ کے کام کے آگے کبھی میرٹ /اصول کی کوئی دیوار کھڑی نہیں کر تا تو اسے پورے دس نمبر دیں۔

آخر میں ہم تمام کرم فرماؤں سے درخواست کریں گے کہ اوپر دیے گئے فارمولہ کا تعویز بنا کر اپنے پاس رکھیں تاکہ بوقت ضرورت کام آ سکے اور آپ نقالوں سے بچ سکیں۔ اس طرح سمندر پار پاکستانیوں سے ہماری گزارش ہوگی کہ پاکستان سے آئے کسی افسر کو یورپ /امریکہ کی سیر کرانے اور شاپنگ کرانے سے پہلے اس کا HRI سکور ضرور معلوم کر لیا کریں تاکہ مستقبل میں کسی بھی پریشانی سے بچا جا سکے۔

لاریب گھاٹے میں وہ شخص جو صرف گریڈ دیکھ کر تعلقات استوار کرتا ہے۔ سراسر گھاٹے میں۔ بعض اوقات گریڈ صرف دھوکہ ہیں۔ سراسر دھوکہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments