چالیس برس پرانی ایک محفل کی کچھ یادیں


یار عزیز باصر سلطان کاظمی کا ناصر کاظمی کے منظوم ڈرامہ ”سر کی چھایا“ پر لکھا تعارف کچھ تصاویر کے ساتھ ہم سب پر ( 2 مارچ 2022 ) شائع ہوا ہے۔ اپنی تصویر دیکھ کر مجھے بھی اس محفل کی کچھ باتیں یاد آ گئی ہیں۔

سر کی چھایا دسمبر 1981 میں پہلی بار کتابی صورت میں شائع ہوئی تھی۔ شاید جنوری 1982 کے آخری ہفتے میں ناصر کاظمی کے گھر پر ایک غیر رسمی سی تقریب اجرا منعقد ہوئی۔ ناصر کے یہ احباب محفل میں شریک تھے : انتظار حسین، شیخ صلاح الدین، پروفیسر سجاد باقر رضوی، محبوب خزاں، غالب احمد، صلاح الدین محمود، زاہد ڈار، مسعود اشعر، کشور ناہید اور یوسف کامران۔ افسوس ناصر کے ان احباب میں سے سوائے کشور ناہید کے، اللہ انھیں لمبی عمر دے، کوئی بھی اب اس دنیا میں نہیں۔ اس کے علاوہ باصر اور حسن کے کچھ دوست موجود تھے۔

ابتدا میں سجاد باقر رضوی صاحب نے کتاب پر ایک مختصر سا مضمون پڑھ کر سنایا۔ اتنے برسوں بعد ٹھیک سے یاد تو نہیں کہ انھوں نے کیا کہا تھا لیکن اس وقت باقر صاحب کی تحریر میں تشنگی کا احساس ہوا تھا۔ لگتا تھا انھوں نے پوری کتاب نہیں پڑھی تھی۔ گاڑی کے منظر میں ایک منجن بیچنے والے کا ذکر آتا ہے۔ باقر صاحب اسی میں الجھ کر رہے گئے تھے۔ منجن والا انھیں افادیت کی علامت نظر آ رہا تھا۔ اس کے بعد کتاب پر ناصر کے دوستوں نے گفتگو کی۔

ناصر کے دیگر احباب کی، سوائے شیخ صلاح الدین کے، گفتگو کچھ اکھڑی اکھڑی سی تھی۔ لگتا تھا کہ کسی نے بھی پوری کتاب نہیں پڑھی تھی۔ شیخ صلاح الدین کہا کرتے تھے کہ لوگ ناصر کی ”برگ نے“ سے آگے نہیں بڑھتے۔ یاد پڑتا ہے کہ غالب احمد صاحب نے ”سر کی چھایا“ میں ہندی دوہوں پر بات کی تھی اور ان کا کچھ تقابل جمیل الدین عالی کے دوہوں سے کیا تھا۔ تاہم گفتگو میں ایک بات پر اتفاق دکھائی دیتا تھا کہ کتاب کا اختتام مایوسی پر ہوتا ہے۔ ہر کوئی کتاب کی آخری لائن کا حوالہ دے رہا تھا۔ آخری سین میں گاڑی ایک جگہ رک جاتی ہے۔ معلوم ہوتا کہ یہ کوئی اسٹیشن نہیں ہے۔ آخری لائن ہے : یہ تو جنگل ہے سنسان جنگل!

شیخ صاحب کی رائے مختلف تھی۔ شیخ صاحب نے اپنی گفتگو میں مختلف اساطیر اور تہذیبوں کا حوالہ دیا کہ کسی طرح ان میں سورج سے منسوب کوئی نہ کوئی شہر یا آبادی ہوتی ہے۔ انھوں نے بعلبک کے علاوہ کچھ اور شہروں کا بھی نام لیا تھا۔ ناصر نے بھی سورج پور کی کتھا لکھی ہے۔

سب لوگ گفتگو کر چکے اور محفل ختم ہونے کو تھی کہ نجانے مجھے کیا سوجھی۔ عرض کیا میں اس پر کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ میری گفتگو بالکل فی البدیہ اور بغیر کسی ارادے کی تھی۔ بس اتنا سا یاد ہے کہ میں نے مایوسی والی بات سے اختلاف کیا تھا۔ کچھ ٹائن بی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ سورج پور کی بات گزشتہ سین میں مکمل ہو گئی تھی۔ اس سین کا اختتام ان لائنوں پر ہوتا ہے :

ہمارے مفتی گزر گئے ہیں
یہ آخری شمع رہ گئی تھی

آخری سین دوبارہ ریل گاڑی کا ہے جس میں یادوں کا ہجوم اور انتشار ہے۔ گاڑی کے جنگل میں رکنے سے یہ پیغام ملتا ہے کہ جنگل میں ایک بار پھر نئے راستے ڈھونڈنے ہیں، نواں شہر آباد کرنا ہے۔ ناصر نے کہا تھا:

اک نیا دور جنم لیتا ہے
ایک تہذیب فنا ہوتی ہے۔
آبادی، بربادی اور پھر سے آبادی کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ دیوان میں ناصر نے کہا تھا:
اک نیا گھر بنائیں گے ہم، صبر کر صبر کر
اس لیے میرے نزدیک اختتام مایوسی نہیں، بلکہ چیلنج پر ہوتا ہے۔

اس کے بعد چائے کا دور شروع ہوا۔ ہم چند دوستوں کی ٹولی میں کشور ناہید بھی شریک ہو گئیں۔ میں نے ان سے کہا، آج ایک بہت عجیب بات ہوئی ہے۔ صلاح الدین محمود کی گفتگو میں بچپن کا لفظ ایک بار بھی نہیں آیا۔ اس پر کشور ناہید نے زوردار قہقہہ لگایا اور بلند آواز سے کہا، سنیں سنیں، ساجد نے کیا زبردست بات کی ہے۔ اب میں بہت پریشان ہوا کہ میں نے یہ کیا حماقت کی ہے۔ خیریت گزری کہ لوگ اپنی اپنی باتوں میں مصروف تھے، کسی نے ان کی بات کو سنا نہیں۔ میں نے بھی بڑی مشکلوں سے ان کا دھیان کسی اور طرف لگایا۔

اس دن میرے پاس سواری نہیں تھی۔ رخصت ہوتے وقت پتہ چلا کہ یوسف کامران اور کشور ناہید اپنی گاڑی میں سجاد باقر رضوی صاحب کو یونیورسٹی چھوڑنے جا رہے ہیں تو میں نے کہا، مجھے بھی ساتھ لے لیں کیونکہ میری منزل بھی وہی تھی۔ گاڑی میں مسعود اشعر صاحب بھی تھے۔ ان سے پہلی بار تعارف اسی تقریب میں ہوا تھا۔ یوسف کامران ڈرائیو کر رہے تھے۔ کشور ناہید ان کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ ہم تینوں پچھلی نشست پر تھے۔ مزنگ چونگی والے چوک پر پہنچ کر یوسف کامران نے گاڑی جیل روڈ پر موڑ لی۔ تھوڑا سا آگے جا کر گاڑی بائیں جانب روک لی۔ پتہ کیا چلا کہ کشور ناہید ان دنوں ڈرائیونگ سیکھ رہی تھیں۔ چنانچہ دونوں نے اپنی اپنی نشست تبدیل کر لی۔ جب کشور ناہید نے گاڑی کو حرکت دی تو باقر صاحب نے کہا، میں تو ناد علی پڑھنے لگا ہوں۔

کچھ دن بعد میں شیخ صاحب سے ملنے ان کے گھر پر مسلم ٹاؤن گیا۔ شیخ صاحب ڈرائنگ روم میں آئے، صوفے پر بیٹھتے ہی اپنے مخصوص انداز میں کہا، لوگ آپ سے بہت خفا ہیں۔ میں نے حیران ہو کر کہا، میں نے کیا کیا ہے؟ شیخ صاحب نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے کہا، آپ نے اتنی اچھی بات کیوں کی تھی۔ شیخ صاحب کا داد دینے کا یہ اپنا انداز تھا، جس پر مجھے واقعی بہت خوشی ہوئی تھی۔

چالیس برس گزر چکے ہیں۔ ناصر نے شاید اسی موقع کے لیے کہا تھا:
پرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments