احمد خان کھرل اور پنجاب کی جاٹ بغاوت، جسے انگریزوں نے پھانسیوں اور جلاوطنیوں سے کچلا

وقار مصطفیٰ - صحافی و محقق، لاہور


سنگِ مرمر کی وہ تختی راہداریوں میں چھپی تھی جس کی تصویر مجھے لاہور سے اوکاڑہ کے راستے راوی دریا کے جنوبی کنارے کے قریب واقع گوگیرہ کے اس سکول کھینچ لائی تھی۔

ایک عمر رسیدہ مالی کی مدد سے ملی اس تختی پر کنندہ یہ الفاظ مٹ رہے تھے: ’جنگ آزادی کے مجاہد رائے احمد خان کھرل کی یاد میں احمد خان کھرل ڈسٹرکٹ کونسل ہائی سکول گوگیرہ کا نام ساہیوال کے پہلے تاریخی ڈپٹی کمشنر جناب مظفر قادر سی ایس پی نے منظور فرمایا۔‘

نیچے اردو رسم الخط میں اس واقعے کی تاریخ درج تھی: 14 مئی 1967، یعنی برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کے خلاف 1857 کی مزاحمت کے لگ بھگ 110 سال بعد۔

اس سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی پنجاب کو سکھوں سے جیت کر سات ڈویژن اور 27 ضلعوں میں تقسیم کر چکی تھی۔ گوگیرہ سنہ 1852 میں ملتان ڈویژن کا ایک ضلع بنا۔ اس ڈویژن کے دیگر ضلعے ملتان اور جھنگ تھے۔

اب یہ ضلع اوکاڑہ کا حصہ ہے۔

سنہ 1855 کی مردم شماری کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ضلع گوگیرہ کی آبادی تین لاکھ آٹھ ہزار 20 اور ملتان ڈویژن کی نو لاکھ 71 ہزار 175 تھی۔ ضلع گوگیرہ کی حدود مشرق میں فیروز پور اور لاہور، شمال میں گوجرانوالا اور جھنگ، مغرب میں ملتان اور جنوب میں دریائے ستلج تک پھیلی ہوئی تھیں۔

مزاحمت کی ابتدا

یہاں کمپنی افسروں کو میرٹھ اور دلی میں مقامی سپاہیوں کی انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی خبر 13 مئی 1857 کو ملی۔ گوگیرہ کے اسسٹنٹ کمشنر (قائم مقام ڈپٹی کمشنر) این ڈبلیو ایلفنسٹن کو بتایا گیا کہ چونکہ میرٹھ اوردلی میں انگریز سپاہیوں کو قتل کر دیا گیا ہے اس لیے لاہور کی میاں میر چھاؤنی میں مقامی سپاہیوں سے اسلحہ لے لیا گیا ہے۔

ایلفنسٹن نے خزانے کے محافظ کے طور پر یہاں تعینات مقامی سپاہیوں کو غیر مسلح کر کے لاہور بھیج دیا۔ کیپٹن ٹرونسن کے سپاہیوں نے ان کی جگہ لے لی۔ سکھ جاگیرداروں بابا کھیم سنگھ اور سمپورن سنگھ کے ملازمین کو جیل میں تعینات کر دیا گیا۔

بغاوت (میوٹنی) کے متعلق انگریز انتظامیہ کی رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ پنجاب کے لوگوں تک مزاحمت کی یہ خبر نہ پہنچنے دینے کے لیے ڈاک کے ڈبے برطانوی افسروں کی موجودگی میں کھولے جاتے، خطوط کا احتیاط سے جائزہ لیا جاتا اور جن میں شورش کا حوالہ بھی ہوتا، انھیں تقسیم نہ کیا جاتا۔

پھر بھی یہ خبر کھرل قبیلے کے عمررسیدہ سربراہ احمد خان تک پہنچ ہی گئی۔

میوٹنی رپورٹس کے مطابق احمد خان کھرل دلی اور ہانسی میں مزاحمت کاروں اور دلی میں مغل بادشاہ سے مستقل رابطے میں تھے۔ مزاحمت پھیلنے پر کچھ قیدی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

اے ڈی اعجاز کے ڈھولوں (پنجابی لوک شاعری کی صنف) کے مجموعے ’کال بلیندی‘ سے علم ہوتا ہے کہ ملتان اور گوگیرہ ضلعوں سے تعلق رکھنے والے ان قیدیوں میں ایک شامو دھیرے کھرل تھے۔

یہ آگرہ جیل سے فرار ہو کر احمد خان کے گاؤں جھامرہ پہنچے اور ان سے ملاقات میں انگریزوں کی کمزور حالت کی خبر دی جس سے یہاں کے لوگوں نے حوصلہ پایا۔

جون 1857 کی ایک صبح گوگیرہ کے اضافی اسسٹنٹ کمشنر لیو پولڈ فٹز جیرالڈ برکلے نے علاقے کے معتبر سرداروں کو طلب کیا۔ نابر کہانی میں سعید بھٹا لکھتے ہیں کہ ’راوی کے اس پار سے احمد خان کھرل اور سارنگ خان آئے۔ انگریز افسر نے ’بغاوت‘ سے نمٹنے کے لیے گھوڑے اور جوان مانگتے ہوئے کہا کہ وہ بدلے میں ان کے لیے اہم سرکاری اعزاز کی سفارش کریں گے۔ احمد خان نے جواب دیا: ’ہم اپنا گھوڑا، عورت اور زمین کسی کے حوالے نہیں کرتے۔‘

اسی ماہ گوگیرہ کے نزدیک چیچہ وطنی اور کمالیہ کے 11 سپاہیوں کو بغاوت کے شبہ میں ملتان میں توپ سے اڑا دیا گیا تھا۔

آٹھ جولائی 1857 کو گوگیرہ کی تحصیل پاک پتن کے ستلج کنارے ایک گاؤں لکھوکے میں جوئیہ قبیلے کے لوگوں نے لگان دینے سے انکار کر دیا اور مال افسروں کو گاؤں سے نکال دیا۔

میوٹنی رپورٹس میں بتایا گیا کہ ایلفنسٹن کے حکم پر نمبرداروں اور دیگر اہم افراد کو خواتین اور بچوں سمیت گرفتار کر کے گوگیرہ جیل میں قید کر دیا گیا۔

’کال بلیندی‘ سے پتا چلتا ہے کہ احمد خان کے جوئیہ قبیلے کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ ان کی ڈی سی سے ملاقات کے بعد کچھ لوگوں کو رہا کر دیا گیا جنھوں نے احمد خان کو بتایا کہ اب بھی بہت سے لوگ قید ہیں۔

احمد خان نے جیل داروغہ کی مدد سے خفیہ طور پر جیل کا دورہ کیا۔ مقامی روایت ہے کہ یہاں انھوں نے نتھو پیروکا، تھوبا رجوکا، سردار بھوجوانا اور چھاوا وٹو کے ساتھ جیل توڑنے کا منصوبہ بنایا۔

میوٹنی رپورٹس میں بتایا گیا کہ ایلفنسٹن اور برکلے نے 20 جولائی کو جیل کا دورہ کیا تو انھیں قیدیوں کی چارپایوں کے نیچے مٹھائی، تمباکو وغیرہ ملے۔ تفتیش پر داروغہ نے اعتراف کیا کہ احمد خان ان کے خاندان کے سرپرست ہیں اور انھوں نے یہ اشیا قیدیوں تک پہنچانے کے لیے کہا تھا۔ اس پر انھیں فوراً نوکری سے نکال دیا گیا۔

26 جولائی کی رات تھوبا رجوکا اور چھاوا وٹو نے قیدیوں کو فرار کروانے کی کوشش کی مگر ایلفنسٹن اور برکلے نے جیل عملے اور پولیس کی مدد سے اسے ناکام بنا دیا۔

سب کچھ منصوبے کے مطابق ہو رہا تھا کہ ایک خاتون قیدی، جس کا ایک بچہ تھا نے بھی بھاگنے پر اصرار کیا۔ وٹو نے خاتون اور بچے کو فرارکروانے کے لیے اٹھایا تو بچہ رونے لگ گیا۔ اس سے جیل کا عملہ چوکنا ہو گیا اور اس نے گولی چلانی شروع کر دی جس سے خاتون اوراس کا بچہ ہلاک ہو گئے۔

برطانوی ریکارڈ کے مطابق اس کارروائی میں 17 قیدی ہلاک اور 33 زخمی ہوئے جبکہ 18 قیدی بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ مگر ’کال بلیندی‘ سے پتا چلتا ہے کہ 145 قیدی ہلاک ہوئے اور ان کی لاشوں کو جیل کے قریب ایک پرانے کنویں میں پھینک دیا گیا تھا۔ اوریہ بھی کہ جیل ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سمیت سو سے زائد برطانوی اور مقامی سپاہی بھی مارے گئے تھے۔

اس کے بعد میجر ایف سی مارسڈن کو ڈپٹی کمشنر مقرر کیا گیا تھا۔ میوٹنی رپورٹس کے مطابق میجر مارسڈن نے اطلاع دی تھی کہ ’جب میں گوگیرہ پہنچا تو میں نے دیکھا کہ اس پر طاقتور کھرل قبیلے نے اپنے دولت مند، بوڑھے سردار احمد خان کے ماتحت حملہ کیا ہے۔‘

’ایلفنسٹن کی 1857 کی بغاوت میں خدمات کے اعتراف میں‘ کے عنوان سے جنوری 1867 میں ایک کتابچہ چھاپا گیا۔ اس کتابچے میں ملتان کے کمشنر جی ڈبلیو ہیملٹن کا 1860 کا ایک بیان یوں تھا: ’اس شورش کے اصل منصوبہ ساز بلاشبہ غارت گر قبائل کے سردار تھے، جنھوں نے بعد میں بغاوت کی۔ تمام امکان ہے کہ اس شورش کا مقصد بغاوت کا آغاز تھا۔ نہ جانے کیسے ہیملٹن نے جیل واقعہ کی تاریخ 26 اگست لکھی ہے۔‘

احمد خان کھرل کو جیل فرار کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ مگر میوٹنی رپورٹس کے مطابق ان کے خلاف ثبوت نہ ملنے پر رہا تو کر دیا گیا مگر دریائے راوی اور ستلج کے علاقے کے قبیلوں کے دیگر سرداروں کی طرح بغیر اجازت ضلعی صدر مقام چھوڑنے پر پابندی لگا دی گئی۔

پھانسیوں کا حکم

کتابچے کے مطابق چیف کمشنر سر جان لارنس نے ایلفنسٹن کو اپنے 18 ستمبر کے خط میں لکھا کہ ’آپ چند سرغنوں پر مقدمہ چلائیں اور انھیں موت کی سزا دیں۔ بہت زیادہ لوگوں کو پھانسی نہ دیں، میں تو کہوں گا کہ 10 فیصد سے زیادہ نہیں، بلکہ اس سے کم، اگر یہ کافی ہو۔۔۔ ملک کو بدمعاشوں سے پاک کر دیں۔‘

بعدازاں انگریزوں نے چھاوا وٹو کو پھانسی دے دی اور نتھو پیروکا اور تھوبا رجوکا کو کوڑوں کی سزا دی۔

مزاحمت کے اہم علاقوں لکھوکے، پنڈی شیخ موسیٰ، محمد پور، ہڑپہ، چیچہ وطنی، جلھی فتیانہ اور جھامرہ میں خفیہ تیاریاں اوراجلاس اگست میں جاری رہے۔ ستمبرمیں ہڑپہ کے نزدیک ایک قصبے مرادکے کاٹھیا میں احمد خان نے لوگوں کو نقشے کی مدد سے انگریزوں کے خلاف جنگ کے منصوبے کے بارے میں بتایا۔

گوگیرہ کے ایک بااثر سردار کھیم سنگھ بیدی کے ایک ساتھی ڈانگی سنگھ بھی وہیں موجود تھے۔ ’کال بلیندی‘ کے مطابق ڈانگی سنگھ کی جانب سے جاسوسی کا علم ہونے پر مسکین شاہ نے انھیں قتل کر دیا۔

احمد خان اور مراد فتیانہ بہاول پور سے سات بندوقیں اور گولہ بارود لائے تھے اور بعد میں ترہانہ قبیلے کے سربراہ صلابت ترہانہ بھی ان سے آن ملے۔

انگریزوں نے ’جاٹ بغاوت‘ کا نام دیا

ضلع گوگیرہ میں لڑائی 17 ستمبر کو شروع ہوئی۔ کتابچے میں ’گوگیرہ ضلع میں 1857 کی جاٹ بغاوت کے دوران آپریشنز کی مختصر داستان‘ کے عنوان سے چھپے اپنے بیان میں ایلفنسٹن نے بتایا کہ جنگجوؤں کے ارادوں کی اطلاع احمد خان کے ایک حریف سرفراز کھرل نے 16 ستمبر کی رات گیارہ بجے انھیں دی تھی۔

ایلفنسٹن نے ہڑپہ کے تحصیل دار اور ملتان کے کمشنر کو خبر بھجوانے کے لیے دو ہرکارے بھیجے لیکن دونوں کو مردانہ قبیلے کے کچھ لوگوں نے محمدپور کے قریب روک لیا۔

ملتان سے لاہور تک رابطے ٹوٹ گئے

ضلع جھنگ کے گزیٹیئر 1883 سے پتا چلتا ہے کہ ’17 ستمبر کو، بار قبائل اٹھ کھڑے ہوئے اور جھنگ اور لاہور کا رابطہ منقطع ہو گیا۔‘

ملتان کے کمشنر کو اس شورش کا علم لاہور سے آنے والی ڈاک کے رکنے سے ہوا۔ یہ ولی داد کی سربراہی میں مردانوں کا کام تھا۔ اور ڈاک 15 دن تک بند رہی۔

امریکی اخبار ’نیو یارک ڈیلی ٹریبون‘ میں ایک مضمون میں کارل مارکس نے اس پر اظہار خیال کیا تھا۔ یہ مضمون جب شائع ہوا اس وقت احمد خان اور ان کے ساتھیوں نے اس راستہ کی نئی نئی ناکہ بندی کی تھی۔

اس پر مارکس نے لکھا تھا کہ ’پنجاب میں (انگریزوں کے لیے) ایک اور خطرہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ پچھلے آٹھ دنوں سے ملتان سے لاہور تک آمد ورفت کا راستہ بند ہو گیا ہے۔‘

کمشنر نے ڈاک کھلوانے کے لیے 70 سپاہیوں کو اسسٹنٹ کمشنر کیپٹن فریزر کے ساتھ بھیجا۔ 18 ستمبر کو کمک بھیجی گئی جو 21 ستمبر کو تلمبہ کے مقام پر ملی۔ دریائے راوی کے دوسرے کنارے، تحصیل سرائے سدھو کی سمت، جنگجوؤں نے پیش قدمی شروع کر دی۔ کیپٹن فریزر نے 35 سپاہیوں کے دستے کو دفاع کے لیے بھیجا۔

ایلفنسٹن نے برکلے کو 20 سواروں کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ احمد خان کو ان کے گاؤں جھامرہ کے سامنے دریائے راوی پار کرنے سے پہلے گرفتار کریں۔ برکلے انھیں راوی پار کرنے سے پہلے پکڑنے میں ناکام رہے کیوںکہ وہاں کشتیوں کے نگران نے احمد خان کے حکم کے تحت انگریزوں کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔

کچھ دیر بعد احمد خان خود سامنے آئے اور انھوں نے کہا کہ وہ برطانوی حکومت کے نہیں مغل شہنشاہ کے وفادار ہیں۔ ایلفنسٹن نے لیفٹنٹ مچل کی قیادت میں کٹر مکھی بٹالین کے 60 اور لیویز کے سپاہیوں کو برکلے کی مدد کو بھیجا اور بعد میں خود بھی وہاں پہنچ گئے۔

برطانوی افواج نے راوی پار کر کے جھامرہ کی جانب پیش قدمی شروع کر دی۔ تب تک جنگجو منتشر ہو گئے تھے۔ میوٹنی رپورٹس میں درج ہے کہ ’یہ لوگ ڈھول پیٹتے ہوئے حملہ آور ہوتے ہیں اور بڑی بہادری کے ساتھ انگریزی کمک پہنچنے سے پہلے انگریز فوجوں سے ہتھیار چھین کر غائب ہو جاتے ہیں۔‘

میوٹنی رپورٹس کے مطابق برکلے نے 15 گھڑ سواروں کے ساتھ ان کا پیچھا کیا، جھامرہ گاؤں کو آگ لگائی اور 20 قیدیوں اور 700 مویشیوں کے ساتھ گوگیرہ کو واپس لوٹے۔

18 ستمبر کو ملتان کے ساتھ ڈاک کی بحالی کے لیے گھڑ سوار اور پیدل پولیس کا ایک دستہ کوڑے شاہ کی جانب بھیجا گیا۔ جب یہ اہلکار ایک گاؤں اکبر پہنچے تو انھیں علم ہوا کہ وٹو قبیلے کے افراد رات کے وقت اس گاؤں کو لوٹنا چاہتے ہیں کیونکہ اس کے نمبردار جیوے خان آرائیں کو انگریزوں کے ساتھ وفاداری کی سزا دینا چاہتے ہیں۔

یہ دستہ اگلے دن تک کوڑے شاہ کے بجائے گاؤں کی حفاظت کو بھیج دیا گیا۔ میوٹنی رپورٹس کے مطابق 20 ستمبر کو لیفٹیننٹ چچیسٹر اور لیفٹیننٹ مچل کی قیادت میں برطانوی فوج نے پنڈی شیخ موسیٰ تک کے علاقہ کی تلاشی کے لیے دریا پار کیا اورقصبے کو آگ لگا دی۔

ایلفنسٹن کو خفیہ رپورٹ ملی کہ کھرل قبیلے کے کچھ افراد نے احمد خان کی قیادت میں رات کے وقت دریا پار کیا ہے اور راوی کے بائیں کنارے وٹو قبیلے کے بہت سے افراد ان سے آن ملے ہیں۔

احمد خان کھرل کا سر قلم کر کے جیل میں رکھا گیا

21 ستمبر کو احمد خان اور کچھ دیگر کھرل عمائدین اکبر گاؤں سے پانچ میل دور گشکوری کے قریب جنگل میں چلے گئے۔ وٹو قبیلے کے افراد ان سے وہیں آن ملے۔ جنگل گھنا تھا اس لیے انگریزوں کو شدید لڑائی کا سامنا کرنا پڑا۔

ان کے 14 سے 15 سواروں کے مرنے سے برطانوی کیمپ میں سراسیمگی پھیل گئی۔ لیکن پھر انھیں بڑی کامیابی مل ہی گئی اور انھوں نے احمد خان، ان کے رشتے دار مراد، بیگے کے کھرل قبیلے کے سربراہ سارنگ اور بہت سے دیگر جنگجوؤں کی جان لے لی۔

مقامی روایت کے مطابق احمد خان کو جب مارا گیا تو وہ اس وقت نورے دی ڈل میں نماز پڑھ رہے تھے۔ ڈھارا سنگھ نے انھیں شناخت کیا اور گلاب سنگھ بیدی نے ان پر گولی چلا کر مار دیا۔

برکلے نے احمد خان کا سر قلم کروا کر نیزے پر رکھا اور اپنے ساتھ لے گئے۔

ایلفنسٹن نے رپورٹ کیا کہ ’یہ مہم ہمارے لیے شدید نقصان لیکن باغیوں کے لیے ناقابل تلافی تباہی پر ختم ہوئی۔ احمد خان تحریک کے مرکزی اکسانے والے تھے۔ سابقہ بغاوتوں میں کامیابی کے لیے ان کی کافی شہرت تھی، اور راوی کے قبائل پر ان کا اثر و رسوخ بے حد تھا۔‘

احمد خان کھرل کے بعد تحریک کی سربراہی کے خلا پر جان لارنس کا کہنا تھا کہ ’اگر ایک بھی باصلاحیت رہنما انھیں میسر آ جاتا تو ہمیں ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑتا۔‘

احمد خان کا ’باغیانہ سر‘ کاٹ کر گوگیرہ جیل میں رکھا گیا۔ روایت ہے کہ پہرے داروں میں ایک سپاہی جھامرے کا تھا۔ ایک رات اسے خواب میں احمد خان ملے اور کہنے لگے ’میرا سر اس مٹی کی امانت ہے مگر انگریز اسے ولایت لے جانا چاہ رہے ہیں۔‘

پہرے کی باری آئی تو سپاہی نے سر اتار کر گھڑے میں رکھا اور جھامرے لے آیا، رات کے اندھیرے میں احمد خان کی قبر ڈھونڈی اور کسی کو بتائے بغیر سر دفنا کر لوٹ گیا۔

برکلے کا سر بھی دھڑ سے جدا کر دیا گیا

اگلے روز برکلے نے جنگل میں پیش قدمی کی اور مزاحمت کاروں کے ہاتھوں مارے گئے۔ مراد فتیانہ نے نیزے سے پہلی ضرب لگائی۔ سوجا بھدرو نے ڈانگ سے کام تمام کر دیا۔

برکلے نے مرنے سے پہلے چھ لوگوں کی جان لی۔ برکلے کے 50 سے زیادہ سپاہی اس لڑائی میں جان سے گئے۔ اے ڈی اعجاز کی کتاب میں ایک ڈھولے کا مفہوم ہے کہ مراد نے کہا کہ ’ہمارے ساتھ تو جو ہماری قسمت میں ہے ہو کر رہے گا مگر تم کبھی گوگیرہ میں عدالت نہیں لگا سکو گے۔‘

جلا ترہانہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ لارڈ برکلے کا سر کاٹ کر اپنے گاؤں جلھی لے گئے۔

برکلے، جنھیں مقامی افراد برکلی کہتے ہیں، گوگیرہ سے شیخو شریف روڈ پر واقع ایک خراب حالت قبرستان میں دو بے نام قبروں میں سے ایک میں دفن ہیں۔

مزاحمت پھیلتی گئی مگر رہنما نہ ملا

یہ لڑائی کمالیہ، پنڈی شیخ موسیٰ، سیدوالا، ہڑپہ، چیچہ وطنی، تلمبہ، سرائے سدھو، شور کوٹ، جملیرہ، ساھوکا، قبولہ اور پاک پتن کے علاقوں پر محیط تھی۔ انگریزوں کو جھنگ، لیہ اور گوجرانوالا اور لاہور سے کئی بار کمک ملی۔ مگر مزاحمت کاروں نے حوصلہ نہیں ہارا اور وہ دلی کے سقوط سے بھی دل برداشتہ نہیں ہوئے۔

دو بار یہ کمالیہ پر قبضہ کرنے میں عارضی طور پر کام یاب رہے۔ فنانشل کمشنر تھابرن کے بقول احمد خان کھرل اور ان کے ساتھی ایک ماہ تک کوٹ کمالیہ پر قابض رہے۔

میجر کرافرڈ چیمبرلین اور میجر مرڈسن نے بغاوت کو مقبول قرار دیا۔ چیف کمشنر پنجاب کے سیکریٹری برانڈرتھ نے لکھا ہے کہ ’چالیس سے پچاس میل کے علاقے میں 20 سے 30 ہزار باغی پھیلے ہوئے تھے۔‘ رچرڈ ٹمپل نے لکھا ہے کہ ’لاہور سے ملتان تک سوا لاکھ باغی سرگرم عمل تھے۔‘

ہیملٹن کا کہنا تھا ’گوگیرہ بغاوت کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ قبائل لوٹ مار کے عادی ہیں۔ سکھوں کی حکومت کے دوران وہ حقیقت میں کبھی تابع نہیں تھے۔ انگریزوں کی حکمرانی ان کے لیے ناگوار تھی، اور وہ بے تابی سے انتشار کے دور کی واپسی کے خواہاں تھے تاکہ وہ غارت گری کو لوٹ سکیں۔‘

مگر سرگانہ لکھتے ہیں کہ گوگیرہ تحریک کا مقصد اس کے رہنماؤں کی جانب سے لکھے خطوط سے ظاہر ہے۔

کیو براؤن کے مطابق فرسٹ ارریگولر کویلری کے وورڈی میجر میر برکت علی کو لکھے خط میں بہاول فتیانہ، صلابت ترہانہ اور سارنگ ویہنی وال نے ان سے انگریزوں کو چھوڑ کر ان کی مدد کی درخواست کی اور انھیں تحریک کی رہنمائی اور ان کے فوجیوں اور گھوڑوں کا خرچ اٹھانے کی پیش کش کی۔

اسی طرح نواب آف بہاول پور کو بھی خط لکھا گیا جس میں انھیں مزاحمت کاروں کے رہنما بننے کی درخواست کی گئی۔

خط کا متن کچھ یوں تھا ’جب خفیہ اطلاع ملی کہ دلی کا بادشاہ حکم الٰہی میں مسلمانوں کی حکومت قائم کرنے کی خاطر انگریزی حکومت سے جنگ کر رہا ہے، یہ خوشخبری سنتے ہی اس ملک کے تمام زمیندار ملتان ڈویژن کے انگریز حکام کے خلاف جدوجہد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔

’ہم آج تک ان کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ اگر آپ دین اسلام پر ثابت قدم ہیں تو ہمارے پاس 18 ہزار کے قریب سپاہی ہیں جو جہاں آپ چاہیں لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ خدا اور اس کے رسول کی خاطر، ہماری مدد کریں اور جزائے خیر پائیں۔‘

انگریزوں نے زمینداروں کو جاگیریں اور انعام دیے

سرگانہ کی تحقیق ہے کہ اس لڑائی میں کھیم سنگھ بیدی، سمپورن سنگھ بیدی، گوگیرہ کے ڈھارا سنگھ نکئی، سید رضا شاہ، اکبر کےجیوے خان آرائیں، کھنڈا کے سردار شاہ، چیچا وطنی کے بہاول اور ماچھیا لنگڑیال، کنہیا رام اروڑا، قصور کے خیرالدین، ٹبی کے گلاب علی چشتی، دیپال پور کے جماعت سنگھ کھتری، دولا بالا کے مراد شاہ، ملتان کے شاہ محمود قریشی، مصطفیٰ خان خاکوانی، صادق محمد خان بدوزئی، خانیوال کے زیادت خان ڈاہا اور ان کے بیٹے اور کمالیہ کے سرفراز خان کھرل نے انگریزوں کا ساتھ دیا۔

محکمہ مال کی دستاویزات کے مطابق سرفراز کھرل کو سکھوں کے خلاف جنگ میں بھی کمپنی کے حلیف ہونے کے انعام میں تاحیات 500 روپے سالانہ پنشن اور کمالیہ کے محصولات میں سے 275 روپے سالانہ مل رہے تھے۔

لپل گرفن کے مطابق نئی خدمت کے صلے میں انھیں خان بہادر کا خطاب، 500 روپے کی خلعت اور تاحیات 525 روپے کی جاگیر ملی۔

اسی طرح دیگر مددگاروں اور ان کی اولاد کو انگریز حکمرانوں کی جانب سے زمینیں، مراعات اور مقامی حکومتوں میں عہدے دیے گئے۔

انگریزوں کا ہرجانہ

سرگانہ اپنی کتاب ’پنجاب اینڈ دی وار آف انڈیپینڈنس‘ میں لکھتے ہیں کہ احمد خان کھرل، ان کے بیٹے محمد خان، بیگے کے کھرل کے رائے سارنگ، بہاول اور مراد فتیانہ، ولی داد مردانہ، بہلک وٹو، محمد کاٹھیا، صلابت ترہانا، موکھا ویہنی وال اور نادر شاہ قریشی انگریزوں کے خلاف لڑے۔ پنجاب کے لوگ اب بھی ان کی عزت کرتے ہیں۔‘

’انگریزوں نے پنجاب کے لوگوں کو پر امن رہنے پر مجبور کرنے کو ان سے اناج اور ان کے مویشی قبضے میں لے لیے تھے۔گوگیرہ میں مزاحمت کرنے والوں کے ہزاروں بیل اور بھینسیں تحویل میں لے لیے گئے۔‘

انگریز انتظامیہ کی دستاویزات میں لکھا ہے کہ گوگیرہ کے قبیلوں سے ساڑھے پانچ لاکھ روپے یا 55 ہزار پاونڈ جرمانہ وصول کیا گیا۔

گوگیرہ کے مزاحمت کاروں کا پیچھا کرتے ہوئے سہوکا گاؤں میں تمام مردوں کو تہِ تیغ کرنے کے بعد فصلیں اور اناج نذرِ آتش کر دیا گیا۔ پھر بورے والا کے نزدیک جملیرہ، لکھوکے اور بڑا بیلا قصبوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا گیا۔

مزاحمت کاروں کے پاس، نیزے بھالے، تلواریں اور چند سو بندوقیں تھیں۔ حنیف رامے نے لکھا ہے کہ ’اس وسیع و عریض علاقے میں انگریزی فوج کی تین ہزار لاشیں اٹھائی گئی تھیں۔‘

پھانسیاں، توپیں اور سزائے کالا پانی

مقامی روایات کے مطابق سینکڑوں لوگوں کو پھانسی دی گئی، توپوں کا نشانہ بنایا گیا اور کالا پانی (جزائر انڈیمان) بطور سزا بھیج دیا گیا۔ کالا پانی بھیجے جانے والوں میں ولی داد مردانا، موکھا ویہنی وال، نادر شاہ قریشی، ماجھی بشیرا کھرل، غازی کاٹھیا کے بیٹے لال کاٹھیا، جلا کے بیٹے محمد کاٹھیا، محمد یار مردانا، رحمت خان، قادر مردانا (کادا)، بہاول فتیانہ، مراد فتیانہ شامل ہیں۔

یہ بتاتے ہوئے سرگانہ ایک ڈھولے کاحوالہ دیتے ہیں کہ ویہنی وال نے جہاز سے سمندر میں چھلانگ لگا دی اور واپس آکر دریائی علاقے میں چھپے رہے۔

ناول نگار زاہد حسن کہتے ہیں کہ اس جدوجہد کا احوال، بعض اوقات ماورائے فطرت بھی، وار، ڈھولے اور دیگر اصناف شاعری میں محفوظ ہے اور اسے گانے اور سنانے والے آج بھی مل جاتے ہیں۔

مزاحمت کار اب دو اور تین کے گروہوں میں سمٹ کر رہ گئے تھے اور بالآخر 1858 کے ابتدائی مہینوں میں ان کے آخری گروہ کو گرفتار کر کے اس مزاحمت کو کچل دیا گیا۔ ریل چلنے پر انگریز سرکار اس علاقہ میں اپنا صدر مقام سمیٹ کر منٹگمری کے نام سے بسائے نئے شہر لے گئی۔

اس عمارت میں جہاں برکلے عدالت لگاتے اور شاید رہتے بھی تھے ، 1865 میں سکول بنا دیا گیا۔ مقامی لوگ اسے گورا صاحب کی کوٹھی کہتے تھے۔

اسی وجہ سے جب یہاں سکول بنا تو اسے کوٹھی سکول پکارا جانے لگا۔

میرے ہمراہ امجد علی نے بتایا کہ 1865 میں پرائمری اور 1959 میں ہائی سکول کا درجہ پانے والی یہ درسگاہ احمد خان کھرل کے نام سے 1985 تک موسوم رہی۔

اب تقریباً 70 کنال پر پھیلے اس سکول کا نام گورنمنٹ ہائی سکول فار بوائز صدر گوگیرہ ہے۔

ضلع اوکاڑہ کی ٹاؤن کمیٹی صدر گوگیرہ کے شمال میں واقع یہ سکول اب نئی عمارت میں قائم ہے۔ اس سے ملحقہ وہ عمارت جس میں سو سال سے زائد عرصے تک طلبا تعلیم پاتے رہے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

محمد حسن معراج لکھتے ہیں کہ ’کئی دہائیوں بعد ملک آزاد ہو چکا تھا۔ احمد علی خان کو دادا احمد خان کی قبر پکی کروانے کی سوجھی۔ قبر کے ارد گرد بنیادیں کھو دی جا رہی تھیں کہ ایک کدال گھڑے کو لگی۔ مزدوروں نے گھڑا توڑا تو اندر سر تھا۔ ایک سو دس سال پرانی وجاہت میں ذرا فرق نہیں پڑا تھا۔ داڑھی کے بال ویسے ہی باریک تھے اور آنکھیں ویسی ہی سالم تھیں۔ احمد علی خان نے دوبارہ جنازہ پڑھایا۔ سر جسم کے ساتھ دفن ہو گیا۔‘

گوگیرہ سے فیصل آباد جاتی سڑک پر تاندلیانوالہ کے قریب جھامرہ ہے۔ دریائے راوی پار کر کے دائیں ہاتھ کچی پکی سڑک پر پانچ کلومیٹر دور جائیں تو پناہ دا کُھوہ سے ذرا آگے احمد خان کھرل کا مقبرہ ہے۔ یہاں پہنچنے کے لیے دشوار گزار رستے سے گزرنا پڑتا ہے۔

سیالکوٹ سے آئے عبدالسلام نے کہا کہ ان کا گوگیرہ فیصل آباد روڈ سے یہاں تک کا 14 سے 15 کلومیٹر کا سفر دو گھنٹے میں طے ہوا، سو یہاں پہنچنا آسان بنانا چاہیے۔ انھی کے ساتھ جنوبی افریقا سے آئے محمد زبیر نے بتایا کہ وہ دسیوں جگہ پوچھ کر یہاں پہنچے۔ صرف ایک جگہ نشاندہی کی گئی ہے۔

یہیں دعا کرتے صدر خان طور کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے قومی ہیرو ہیں۔ ان کا رتبہ بلند ہے کیونکہ انھوں نے وطن کے لیے جنگ کی۔ ان کی یاد حکومتی سطح پر منانے کی ضرورت ہے۔

امجد، جو میرے ساتھ اس مشکل سفر سے گزرے تھے، ناراضی سے بولے کہ ’یاد تو کیا منائیں گے، سکول کا نام بھی احمد خان کھرل کے نام پر نہ رہنے دیا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments