اقتصادی پابندیاں، دور جدید کا کند ہتھیار! ایک تجزیہ


چوبیس فروری کو روس کے یوکرائن پر زمینی حملے کے بعد دنیا کا بالخصوص امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کا ردعمل زبانی مذمت تک ہی محدود نہیں رہا۔ اگرچہ یہ بات اطمینان بخش ہے کہ ناٹو (NATO) نے ابھی تک کوئی فوجی ردعمل نہیں دیا لیکن جنگ صرف فوجیوں اور ہتھیاروں تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ اقتصادی طاقت اور اس کا استعمال بھی جنگی چالوں میں سے ایک ہے اور اس کی ایک پرانی تاریخ ہے۔ اگرچہ ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہت سی جہتیں ہوتی ہیں لیکن ہم آج صرف اقتصادی پابندیوں کے مطالعہ تک محدود رکھتے ہیں۔

اگرچہ اقتصادیات ہمیشہ سے ملکوں کی باہمی کشمکش میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے لیکن بیسویں صدی کے شروع سے اس کا استعمال بطور ہتھیار کافی بڑھ چکا ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اقتصادی جنگ، فوجی جنگ کا متبادل نہیں ہے بلکہ جنگ کی ہی ایک شکل ہے اور اصل جنگ کی طرح اس کے نتائج خطرناک اور غیر متوقع ہو سکتے ہیں۔ یوکرائن پر حملے کے بعد روس پر پابندیوں میں بتدریج سختی لائی گئی ہے اور ان پابندیوں میں مالی اقدامات کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجیکل بائیکاٹ کے ذریعے روس کو بین الاقوامی نظام سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس طرح روسی اداروں کو بین الاقوامی سطح پر کندھ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس کے فوری اثرات روبل کی قیمت میں کمی، ملٹی نیشنل اداروں کی روس سے اپنے اثاثوں کی واپسی، مغربی ممالک میں روس کے قومی اور روسی شہریوں کے اثاثوں کی ضبطگی کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ یاد رہے کہ ان پابندیوں میں غذائی اشیاء اور انرجی یعنی تیل اور گیس کو استثنی حاصل ہے۔ کیا ان پابندیوں کے ذریعے روس کی پالیسیوں میں تبدیلی متوقع ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں تھوڑا سا تاریخ میں جھانکنا پڑے گا۔

طاقتور قوموں کی طرف سے ان پابندیوں کے پس منظر یہ مفروضہ ہے کہ ان پابندیوں کے اقتصادی اور سماجی نتائج اتنے خراب ہوں گے کہ جنگجو قوم اپنے جنگی اقدامات سے باز آ جائے گی، اور یہ کہ اس طرح اصل جنگ میں ہونے والی تباہی سے بچا جا سکتا ہے۔ لیکن بیسویں صدی کی تاریخ کوئی اتنی حوصلہ افزاء نہیں۔ دور کیوں جائیں دوسری جنگ عظیم میں 1939 میں برطانیہ نے اقتصادی پابندیوں کے ذریعے جرمن تجارت کو نہ صرف تقریباً ختم کر دیا بلکہ اس پر منتخب بمباری کا نتیجہ جرمنی کا سویت یونین سے پہلے معاہدہ اور پھر اس پر حملہ تھا۔

اسی طرح جاپان پر تیل کی پابندیوں کا نتیجہ اس کا برطانوی، ڈچ اور امریکی ایمپائرز کے مشرقی علاقوں پر حملے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یاد رہے کہ اس وقت دنیا کی تمام اقتصاد پر ان اتحادی اقوام کا مکمل کنٹرول تھا لیکن اس حقیقت کے باوجود جرمن اور جاپان کی اقتصادیات کو مکمل طور ہو تباہ کرنے میں پابندیوں کے ساتھ ساتھ کئی سال فوجی جنگ کرنا پڑی جس میں ایٹم بم کا استعمال بھی شامل تھا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ اقوام کچھ سیکھتیں لیکن فوراً ہی سرد جنگ کا دور شروع ہو گیا جس میں اقتصادی پابندیوں کو بطور ایک ہتھیار کے بکثرت استعمال کیا گیا جس کا مقصد یا تو پالیسی کی تبدیلی یا مخالفین کی حکومت کی تبدیلی تھا۔ اس سلسلے میں مغربی ممالک نے امریکی سربراہی میں جن ممالک کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگائیں ان کی ایک طویل فہرست ہے جن میں کیوبا، شمالی کوریا، ایران، وینزویلا، عراق، شام اور افغانستان شامل ہیں۔

وطن عزیز بھی امریکی پابندیوں کا شکار رہا ہے لیکن ان کا ذکر پھر کبھی صحیح۔ آج کی دنیا میں طویل ترین پابندیاں کے مثال کیوبا اور شمالی کوریا ہیں جن پر مختلف سطح کی پابندیاں 1950 کی دہائی سے جاری و ساری ہیں۔ ایران پر ( 1979 ) انقلاب کے بعد امریکی سفارتخانے پر قبضے کے نتیجے میں شروع ہونے والی اقتصادی پابندیاں بعد میں نیوکلیر ٹیکنالوجی کی بنا پر سخت سے سخت تر ہوتی چلی گیں۔ روس پر اقتصادی پابندیاں دراصل 2014 میں ہی شروع ہو گئیں تھی جو کہ حالیہ جنگ میں نئی صورت اختیار کر چکی ہیں۔

ان ممالک پر لکھنے والی پابندیوں کا مطالعہ کیا جائے تو کوئی حوصلہ افزاء تصویر سامنے نہیں آتی۔ اگرچہ ان ممالک کی اقتصادی صورتحال تو متاثر ہوئی، عوام کا معیار زندگی تو کم ہوا، لیکن کیا ان کی پالیسیز میں کوئی تبدیلی آئی، جواب عموماً نفی میں ہو گا۔ مثلاً کیوبا کو دیکھیں تو اقوام متحدہ اور کیوبا کی حکومت کے اندازوں کے مطابق چھ دہائیوں پر محیط ان پابندیوں کی اقتصادی مالیت تقریباً 120 ارب ڈالر بنتی ہے، لیکن کیا حکومتی پالیسیز بدل گئیں تو جواب نفی ہی میں ہو گا۔ کیا عوام کا معیار زندگی متاثر ہوا تو جواب اثبات میں ہو گا۔

اسی طرح شمالی کوریا کی مثال سامنے رکھیں کہ جہاں اقوام متحدہ نے اس ملک کی نیوکلیر ٹیکنالوجی کے استعمال بارے یک بعد دیگرے کئی قراردادیں منظور کی ہیں، ناں صرف انتہائی سخت تجارتی اور مالی پابندیاں لگائیں بلکہ فوجی اداروں سے متعلقہ افراد پر بھی ایسی ہی پابندیاں لگائی گئیں لیکن ان تمام اقدامات کا اس ملک کی فوجی طاقت میں رائی کے دانے برابر بھی اثر نہیں پڑا۔ ہاں عوام میں غربت میں اضافہ ضرور ہوا۔ ایسی ہی صورت احوال ایران، وینزویلا میں ہے اور حالیہ دنوں میں ہمارے ہمسائے افغانستان میں بیس سالہ فوجی موجودگی کے بعد امریکہ انخلاء عمل میں آیا اور طالبان دوبارہ اقتدار میں آ گئے۔ نتیجتاً اس پر اقتصادی پابندیوں کا اثر وہاں تقریباً قحط کی شکل میں نمودار ہو رہا ہے لیکن حکومتی پالیسیز میں رتی برابر بھی فرق نہیں پڑا۔

حالیہ تاریخ میں اگر اقتصادی پابندیوں نے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کوئی کردار ادا کیا ہے تو جنوبی افریقہ میں نسل پرست حکومت کے خاتمے کی شکل میں ہوا، جہاں 1980 کی دہائی میں لگائی جانے والی اقتصادی پابندیاں اس وقت موثر ہونا شروع ہوئیں جب بین الاقوامی سطح پر اس کا کوئی دوست نہ رہا اور برطانیہ اور امریکہ نے عوامی دباؤ کے نتیجے میں ان پابندیوں میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس کے ساتھ ساتھ سماجی اور کھیلوں میں بھی بائیکاٹ کر دیا گیا۔

اس مختصر جائزے کے بعد روس پر لگائے جانے والی پابندیوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ دوسری جنگ عظیم کے مقابلے میں اب دنیا کی اقتصادی اور صنعتی ترقی میں مغربی ممالک کا حصہ نسبتاً کم ہو چکا ہے اور دنیا کے کئی بڑے ممالک نے ان پابندیوں میں شمولیت سے انکار کر دیا ہے۔ چین، ہندوستان، کے علاوہ جنوبی امریکہ کے ممالک مثلاً برازیل، میکسیکو، ارجنٹائن وغیرہ نے بھی شمولیت سے انکار کر دیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور کے تمام بین الاقوامی ادارے بشمول مالیاتی نظام مغربی ترقی یافتہ اقوام کے زیر انتظام ہیں اور ان کے پاس یہ اختیار اور طاقت بھی موجود ہے کہ وہ جسے چاہیں اس کو نکال باہر کریں ( جیسا کہ مالیاتی ادائیگیوں کے نظام Swift میں سے روس کو نکال کر کیا گیا ہے ) لیکن ہر ایسے قدم کی ایک قیمت بھی ہے جو ادا کرنا ہوگی۔ موجودہ حالات میں جہاں دوسرے ممالک صنعتی ترقی کی دوڑ میں آگے نکل رہے ہیں، کیا ان کو زیادہ دیر تک بیسویں صدی کے وسط میں طے کیے جانے والے بین الاقوامی نظام کے تحت رکھا جا سکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments